Wednesday, June 8, 2011

اصولِ مناظرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہارت

اصولِ مناظرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہارت
انسانوں کو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے کا شوق ہوتا ہے ، اسی لیے جو انسان دنیاوی علوم میں تھوڑا پڑھ لکھ جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ بڑا تیر مار لیا۔ اب مجھے ہر علم میں بکواسی کمنٹ دینے کا حق ہے ۔ ایسے لوگوں کی نفسیات کچھ اس طریقے سے کام کرتی ہے کہ وہ اپنے سے بڑے سے کبھی پنگا نہیں لیتے ، کیونکہ پتا ہوتا ہے جوتے پڑیں گے ۔ اسی لیے ہمیشہ کمزور پر ہی وار کرتے ہیں۔ اسی کی مثال مولوی سے لی جا سکتی ہے ۔ سنا ہے کچھ عرصہ پہلے ایم کیو ایم نے کراچی میں طالبان آگئے طالبان آؔگئے کا شور مچا کر کچھ مدرسوں میں پڑھنے والے پٹھانوں کو مارا تھا ۔ ایک دوست بتا رہا تھا کہ جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال مفتی زرولی خاں صاحب کے مدرسے کے بہت سے طلباء کی دھلائی کی تھی ۔
خیر بات ختم ہوتی ہے مولوی پر ، ہمارے بلاگی دنیا میں ایک بابا جی کو اپنی عقل اور مت جو کہ ماری گئی ہے کی بنیاد پر دینیات کا رد کرنے کا شوق چرایا ہے ، موصوف نے اعتراض کیا ہے سورۃ بقرۃ پر ۔۔۔۔ خیر میں یہ کہہ رہا تھا کہ جیسے ہر چیز کے اصول ہوتے ہیں ایسے ہی مناظرے کے بھی اصول ہوتے ہیں جنکو ایک مناظر ہی سمجھ سکتا ہے ۔
مثال کے طور پر اصولِ مناظرہ کی کتب میں جہاں مناظرے کے بہت سے اصول ہیں وہیں ایک اصول یہ ہے کہ مناظرے میں الفاظِ نادرہ کا استعمال نہ کریں، یعنی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جنکو عام آدمی سمجھ نہ سکتا ہو ، اس سے پتا چلتا ہے کہ مناظرے کا اصل مقصد اپنے فریق کو نیچا دکھانا نہیں نہ ہی اپنی علمیت جھاڑنا ہے بلکہ عام عوام کے دلوں سے شکوک ختم کرنا اور انکو مسئلہ سمجھانا ہے۔ اسی لیے اول تو کبھی کسی جاہل سے مناظرہ کرنا ہی نہیں چاہیے ، اسی لیے اصولین نے ایک اصول یہ بھی لکھا ہے کہ مناظرہ کے لیے دونوں مناظرین کا علم میں برابر ہونا ضروری ہے لیکن اگر کبھی کسی جاہل بابے سے مناظرہ ہو بھی جاے تو علمی بحث کی بجاے اسکو عام فہم انداز میں سنبھالنا چاہیے ۔
ایسا ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جب نمرود سے مناظرہ ہوا تو اسنے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو کہ ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا، پھر ہونا، پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے ، موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی  اور وہی اللہ ہے ، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر دو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے۔ ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رہا۔ دراصل یہ جواب اور یہ دعویٰ کس قدر لچر اور بے معنی ہے ، یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کر دینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو پیدا کیا نہ ان کی یا اپنی موت، حیات پر اسے قدرت ، لیکن جہلا کو بھڑکانے کے لیے اور اپنی علمیت جتانے کے لیے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوے صرف ایک بات بنالی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسکو سمجھ گئے اور آپ نے اس کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کر دی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کر سکے، چناچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تیرا پورا تصرف ہونا چاہیے ، میرے اللہ نے تو یہ کیا کہ سورج کو حکم دے دیا کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چناچہ وہ نکل رہا ہے ، اب اگر تو ہی خدا ہے اور تیرا مکمل تصرف مخلوق پر ہے تو اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے ۔
اب ایسے میں نمرود کی بولتی ہی بند ہونی تھی ، چونکہ وہ ضدی اور ڈھیٹ تھا اسی لیے بے زبان ہو کر اپنی عاجزی کا تو معترف ہو گیا لیکن حق کو قبول نہ کیا ۔
ملخص از تفسیر ابن کثیر
اس ساری بات سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ نمرود جیسا جاہل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کو سمجھ گیا اور اسکی بولتی بند ہو گئی لیکن جو شخص نمرود سے بھی زیادہ جاہل ہو اول تو سمجھے ہی نہیں اور پھر اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہوے اعتراض بھی کرے ایسے شخص کو آپ کیا کہیں گے ؟؟؟؟
سچ ہے جو قرآن نے کہا ہے
یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶
 گمراہ کرتا ہے خدائے تعالیٰ اس مثال سے بہتیروں کو اور ہدایت کرتا ہے اس سے بہتیروں کو [۳۹] اور گمراہ نہیں کرتا اس مثل سے مگر بدکاروں کو
یہاں پر گمراہ ہونے والوں کو فاسق کہا گیا ہے ، کچھ علماء نے فاسق کو سمجھانے کے لیے بیل کی مثال دی ہے جو اپنا کھونٹا تڑوا کر بھاگتا پھرے کبھی اسلم کا کھیت خراب کرے اور کبھی جاوید کا ۔ یعنی وہ بیل جو اپنے سے پہلوں اکثریت سے زیادہ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھے اور انکی فہم سے کھونٹا تڑوا کر بھاگ جائے ۔ 

6 comments:

  1. پیارے انکل ٹام، اللہ آپکو اس مضمون لکھنے پر جزائے خیر دے، سمجھنے والوں کیلئے اس میں کافی نکتے ہیں۔
    قرآن کریم اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ حسنہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی عملی زندگی کے نمونوں اور تابعین، تابع تابعین اور ہمارے مشائخ نے دین اسلام کو ہم تک پہنچانے کیلئے اپنے اپنے فرائض ادا کیئے ہیں۔ اللہ ہیمیں ہمیشہ صراط مستقیم پر چلائے اور ہمارے ایمانوں کو اپنی حفاظت میں رکھے، میری ہمیشہ یہی دعا رہتی ہے کہ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔
    ایسا وقت آ چکا ہے کہ لوگ صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھیں گے تو شام کو کافر ہو کر سوئیں گے۔ محض زکام کی تکلیف برداشت نا سکنے والا انسان بھی کائنات کی تخلیق اور قرآن کی حقانیت پر بات کرنے دوڑ پڑتے ہیں۔ لوگ نمرود کو تو بھائی مخاطب کر کے بلاتے ہیں مگر الہ العالمین کو ڈائریکٹر-
    اس کرہ ارض پر صرف دو ایسے ملک ہیں جو مذہبی بنیاد پر معرض وجود میں آئے ہیں جو اسرائیل اور پاکستان ہیں۔ پاکستان کو معاشی اور اخلاقی طور پر تباہ کرنے کیلئے پوری دنیا کی باطل قوتیں اپنا زور لگا رہی ہیں تو کیا پاکستانیوں کی مذہبی کمزوری کیلئے کوئی سامان نہیں کیا جا رہا ہوگا؟ یقیناً اس کام کیلئے بھی ایک کثیر سرمایہ مخصوص ہوگا جس کے تعاون سے صحافی اور لکھنے والے چند کوڑیوں کے بدلے اپنی عاقبت کو جہنم برد تو کر ہی رہے ہونگے مگر دوسرے مسلمانوں کے اذہان و قلوب سے کھیل کر اُنکے دین اور عقیدہ کی بربادی کا سامان بھی کر رہے ہونگے۔
    چند ایک لکھنے والے اور بلاگرز رکاوٹ ہیں اس کام میں، مگر کب تک، ہر شخص ایک آدھ بار مخالفت مٰیں لکھے گا پھر کہے گا چھوڑو اسکو یہ تو ہے ہی ایسا۔ مگر اسکی تحاریر ہر نو مسلم یا محقق کیلئے جو کمپیوٹر سے معلومات لینا چاہے گا چکرادینے یا بھٹکا دینے کیلئے موجود ہونگی۔ اسی لیئے تو اللہ تبارک و تعالٰی نے فتنہ کو قتل سے بھی بد تر جرم قرار دیا ہے۔ بخدا ہر تحریر پڑھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ آج مجبور ہو کر یہ دعا مانگ رہا ہوں، اگر آپ بھی یاتھ اُٹھا لیں تو
    ندعوا اللہ سبحانہ و تعالیٰ و نبتھل الیہ أن یھدی محمد مکی و یعیدہ الی الاسلام أو یأخذہ و یکفی الاسلام و المسلمین شرہ- ان اللہ القادر علی کل شیء و ھو سمیع الدعاء۔

    فقط محمد سلیم (hajisahb.wordpress,com)

    ReplyDelete
  2. جو لوگ اپنی شیطانی عقل کو ہی خدا سمجھ لیں وہ ایسی ہی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔
    ابراھیم علیہ السلام نے جب نمرود کی خدائی اورر کائنات پر کنٹرول کے دعوے کا اس سوال سے بانڈہ پھوڑ دیا’ اس کو تو سمجھ آ گئ کہ میں مجبور ہوں، لیکن اس کی روحانی اولاد کو اپنے باپ کی کم عقلی پر ہزاروں سال بعد غصہ آرہا ہے اور وہ اس کے دعوے کررہے ہیں کہ ہمارا باپ بے وقوف تھا، ہمارے ذہن میں وہ دلیل آگئی ہے جو اس کے ذہن میں بھی نہیں آئی، ہم ابراھیم سے کاؤنٹر کیوسچن کرکے انہیں لاجواب کرسکتے تھے کہ آپ مغرب سے سورج کو نکال کر دکھادیں ؟ واہ واہ۔جناب مکی صاحب کو تو جینئس آف دی ورلڈ ایوارڈ ملنا چاہیے ۔

    جو بندہ اپنی جس چیز پر تکبر کرتا ہے اللہ اسے اسی کے ذریعے ذلیل کرواتا ہے۔ جناب کو جہاں یہ واقعہ نظر آیا وہیں ابراھیم علیہ السلام کے لیے آگ کے گلزار بننے کا واقعہ بھی موجود تھا ۔ جناب کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ جو رب آگ کی تاثیر کو بدل کر ابراھیم علیہ سلام کے لیے سلامتی والی بنا سکتا ہے ، کیا وہ اس چیلنج پر سورج کو مغرب سے نہیں نکال سکتا تھا۔

    إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُونَ

    ReplyDelete
  3. شاباش بیٹا۔۔۔ اللہ تمہیں بہت خوش رکھے۔۔۔

    ReplyDelete
  4. نمرود گدھا تھا اس بات میں تو کوئی شک نہیں ۔اور یہ گدھا پن اسکے پہلے جواب سے سمجھ میں بھی آرہا ہے مگر وہ ہمارے فاضل دوست جتنا بڑا گدھا نہیں تھا۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر میں نے مغرب سے سورج نکلوانے کی بات کہی تو ابراہیم کیلئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہوگی۔ وہ صرف ہاتھ اٹھائیں گے اور ابراہیم کا اللہ گوگل نہیں ہیں کہ اسکے جواب میں" یوور پرایر ڈڈ نوٹ میچ" کہے گا وہ تو علی کل شیء قدیر ہے اور یوں وہ گدھا بازی کے ساتھ مات بھی ہار جاتا۔ انبیاء کے مخالفین کو بھی انبیاء کے سچے ہونے کا اتنا ہی یقین ہوتا ہے جتنا ایک ایمان لانے والے کو۔ (الذین آتیناہم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ہم)۔ بس وہ اپنے گٹھیا مفاد کی وجہ سے مخالفت برائے مخالفت کرتے ہیں
    محمد سعید پالن پوری

    ReplyDelete
  5. خدا آپکو خوش رکھے اور جزآئے خیر دے۔

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.