ہر وقت یہ رونا رویا جاتا ہے کہ ہم پاکستانی اور مسلمان دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن کیوں نہیں ؟ اس کی بہت سی وجوہات میں ایک بہت بڑی وجہ مسلمانوں کے اندر احساسِ کمتری کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔
آج میں چند دوستوں کے ساتھ ایک دوست کی گاڑی میں جا رہا تھا ، عبداللہ جو ہمیشہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتا ہے نے ٹیپ کی آواز کم کرنا شروع کر دی جب ابرار الحق کا پنجابی گانا چلا ۔
وجیہ الدین: کیا ہوا ، آواز کیوں کم کر رہا ہے ؟
عبداللہ: بستی ہو گی ۔
یعنی عبداللہ کے نزدیک گورے لوگ یا دیگر پاکستانی انکو "فاب" کا خطاب دے کر بستی کر سکتے ہیں ۔ یہ کوی اکیلا واقعہ نہیں۔ پچھلے دن میں کاونٹر پر کھڑا تھا کہ ایک صاحب آئے جن سے میری انگریزی میں ہونے والی گفتگو کا اردو ترجمہ کچھ ایسے ہے ۔
صاحب: کیا تمہارے پاس حلال پانی ہے ؟
میں: حلال پانی؟
صاحب: ہاں حلال پانی جو پیتے ہیں
میں: پینے کا پانی وہاں فریج میں رکھا ہوا ہے ۔
صاحب گئے اور ایک بوتل اٹھا لائے میں نے انکو قیمت بتلائی
میں: یہ حلال پانی کا کیا چکر ہے ؟
صاحب: ایک دن میں اس دکان میں آیا تو ایک شخص حلال کھلونے کا پوچھ رہا تھا ۔
میں: حلال کھلونا ؟
صاحب: ہاں حلال کھلونا جس سے بچے کھیلتے ہیں
میں نے یہ ہی واقعہ اتنا ہی امی کو سنایا تھا جب امی نے مجھے کہا ہاں صحیح تو کہہ رہا تھا وہ بھلا کھلونے میں بھی حلال حرام ہوتا ہے کچھ ؟
میں: بلکل امی ، ہوتا ہے اگر کوی ایسی گڑیا ہو جس نے آدھے کپڑے پہن رکھے ہوں تو کیا وہ کھلونا حرام نہیں ہو گا ؟؟؟، یا اسی طرح اگر کسی کھلونے کو بنانے میں حرام اشیاء استعمال ہوی ہوں ۔ یا کسی پر الٹی سیدھی تصاویر بنی ہوں ۔
میرا جملہ سننے کے بعد امی کا چہرہ یہ بتا رہا تھا کہ انہوں نے اس سے پہلے اس نقطے پر غور نہیں کیا ۔ واپس چلتے ہیں صاحب کے پاس ، اس کے بعد صاحب کا لیکچر شروع ہو گیا ۔
صاحب: دیکھو جناب جب ہم اس ملک میں آئے ہیں تو ہمیں یہاں کے اصولوں کے مطابق رہنا پڑےگا ، ہم ہر چیز میں حلال حرام کے چکر میں نہیں پڑ سکتے ، جو چیز جیسے ملتی ہے ہمیں ویسے ہی لینی ہو گی یہ کیا ہر جگہ حلال حرام کی کل کل لگائی ہوتی ہے ۔
میں: دیکھیں امی یہ ہے وہ وجہ جس کی وجہ سے مسلمان ایسے پس رہے ہیں ، اب بجائے اسکے کہ وہ اس آدمی کی تحسین کرتا اسکی قدر کرتا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے بارے میں کتنا فکر مند ہے کہ کھلونوں کے بارے میں بھی پوچھ رہا ہے کہ وہ حلال ہیں یا نہیں آگے سے یہ شخص اسکا مذاق اڑا رہا ہے گو کہ یہ سیلز مین نہیں تھا کہ اسکے اس سوال سے تپتا لیکن پھر بھی اس مضبوط ایمان کے مسلمان کی اس حرکت سے اسکو کتنے عرصہ جلن ہوتی رہی ۔ میں نے تو کوی کافر بھی ایسا نہیں دیکھا جو مسلمان کی اس حرکت سے تپا ہو ۔
مسلمان ایسے جانگلوس ہیں کہ کسی جگہ کھانے جائیں گے تو حلال کا پوچھتے ہوے ایسے ڈریں گے جیسے قتل کر کے قاتل پولیس سے ڈرتا ہے، کیا یہاں سبزی خور نہیں رہتے ؟؟ وہ تو کبھی نہیں ڈرے وہ تو ہمیشہ پوچھتے ہیں ، بلکہ کینیڈا کے قانون کے مطابق آپکو حق ہے یہ جاننے کا کہ جو چیز آپ کھا رہے ہیں اسکا منبع کیا ہے ؟
کافر مسلمان سے اچھا ؟
جس پاکستانی کو دیکھو ہر جگہ یہ ہی جہالت کی بات کر رہا ہو گا کہ ہم سے تو اچھے گورے ہیں ، مسلمانوں سے اچھے تو گورے ہیں کیوں اچھے ہیں جی ؟ وہ اس لیے کہ وہ صفائی کا خیال رکھتے ہیں ۔
چلیں ان کی صفائی کی بھی سنیں، ہمارے یہاں ایک گورا فیملی رہتی تھی ، جنکے بچے بھی اسی سکول میں پڑھتے تھے جس سکول میں میں پڑھتا تھا ، تو ان لوگوں کا ایک گروہ بنا ہوا تھا دوستوں کا جو ہر وقت ساتھ ہی ہوتے تھے ، ان میں یہ گورا فیملی کا بیٹا اور بیٹی بھی شامل تھے ، گو کہ میں ایک الگ تھلگ رہنے والا اور مجمع سے دور رہنے والا انسان ہوں لیکن میرا ایک دوست اس گروہ کا حصہ تھا اسکی وجہ سے مجھے بھی وہ لوگ نہ صرف جانتے تھے بلکہ وہ دوست مجھے بھی اکثر گھسیٹ لیا کرتا تھا ، ایک دن کسی کام کے لیے انکے اپارٹمنٹ جانا پڑا گو کہ میں اندر نہیں گیا تھا لیکن بدبو اتنی زیادہ تھی کے اپارٹمنٹ کے باہر بھی کھڑا ہونا دشوار تھا ، اسکو نہ صرف میں نے بلکہ اس دوست نے بھی شدت سے محسوس کیا ۔
اسی طرح چند دن پہلے میں ، اسلم اور وجیہ الدین صاحب شوارما کھانے گئے ، یہاں زیادہ تر چھوٹی موٹی کھانے کی دکانوں میں سیلف سروس ہوتی ہے یعنی آپ اپنا کھانا خود کاونٹر سے اٹھائیں اور بعد میں اپنا ٹیبل بھی صاف کر کے جائیں ، ہم لوگ اپنا کھانا ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھا رہے تھے ہمارے سامنے والے ٹیبل پر ایک گورا جوڑا بیٹھا تھا ہم لوگ کھانا کھا کر ٹیبل صاف کر کے اٹھے تو دیکھا وہ دنوں غائب تھے اور انکے ٹیبل پر گند ویسے کا ویسے ہی پڑا تھا ، میں نے اسلم کی توجہ اس طرف دلائی اور کھا دیکھو یہ ہیں وہ گورے جنکی ہمیں مثالیں دی جاتی ہیں ۔
کافروں کی صفائی ستھرائی کی کہانیاں بھی عجیب ہیں ، چند دن پہلے ہماری دکان میں ایک کالا بچہ کچھ دن کام کرتا رہا جسکا نام شان تھا ، ایک دن کہنے لگا کہ مجھے واش روم استعمال کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں کا واش روم ایسا ہے کہ استعمال کرنے کو دل نہیں مانتا ۔
شان: تم تو ویسے ہی ادھر کا کچھ استعمال نہیں کرتے اسی لیے تمہیں کچھ اندازہ نہیں۔
میں: میں گھر کے علاوہ کہیں اور واش روم استعمال کرنے سے حتیٰ الامکان پرہیز کرتا ہوں
شان: تو تم سکول میں بھی نہیں کرتے تھے ؟
میں: مجھے سکول میں کبھی واش روم استعمال کرنا یاد نہیں سواے ایک دو دفعہ کے
شان: ہاں ، میرا بھی یہ ہی مسئلہ ہے وہ بہت گندے اور بدبودار ہوتے ہیں ۔
واش روم سے مجھے ایک اور کہانی یاد آگئی یہاں ہر جگہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والا فلش سسٹم بنا ہوتا ہے لیکن ہمارے کالج کے ایک واش روم میں وہ بلکل دروازے کے سامنے تھا ، کہ اگر کوی دروزا کھول دے تو آپ دیکھ سکتے تھے ۔ ایک دن کلاس کے بعد ہم جا رہے تھے کہ راستے میں ایک لڑکے نے روک لیا ، تو ہماری کلاس کے بہت سے لڑکے واش روم استعمال کرنے بھی جا رہے تھے ایک لڑکا باہر نکلا تو پیچھے سے کسی نے اسکو آواز دی اور وہ دروازے کے درمیان ہی کھڑا بات کرنے لگ گیا ، اب میری نظر سامنے پڑی تو جو صاحب پیشاب کر رہے تھے انہوں نے فارغ ہو کر اپنی پینٹ کی زپ بند کرنے کے بعد ہاتھ دھونے کی بھی زحمت گوارا نی کی اور ایسے ہی باہر آگئے اس کے بعد سے میں ہر کورین لڑکے سے ہاتھ ملاتے ہوے ہچکچایا ۔
مجھے پاکستانیوں کی یہ بات سمجھ نی آتی کہ وہ کافروں کو کس بنیاد پر مسلمانوں سے اچھا کہہ دیتے ہیں ؟؟؟ یہ کافر لوگ زنا بھی کرتے ہیں ، شراب بھی پیتے ہیں، حرام کی اولاد بھی پیدا کرتے ہیں اور جہاں کی گندی گندی حرکتیں ہیں جو یہ کرتے ہیں ، اسکے باوجود بھی یہ ایک اہلِ ایمان سے کیسے اچھے ہو سکتے ہیں ؟؟؟؟ آپ خود سوچیں ایک شخص جو اپنی مقررہ سزا پر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں چلا جائے گا اور ہمشیہ ہمیشہ کی کامیابی اسکی منتظر ہو گی وہ کیسے ایک ایسے شخص سے اچھا ہو سکتا ہے جو ہمشیہ ہمیشہ سے ناکام ہو ؟؟؟