Saturday, June 4, 2011

دورہِ قنوطیت

دورہِ قنوطیت
کئی دن سے طبیعت بوجھل بوجھل ہو رہی ہے ، دل کر رہا ہے کہ اونچی آواز  میں یا چیخ چیخ کر گالیاں نکالوں۔ لیکن اس میں بہت سے مسلے ہیں سب سے بڑا مسلہ تو آواز کو اونچا کرنا ہے اور وہ بھی گالیاں دیتے ہوے تقریباً ناممکنات میں سے ہے ۔ دوسری چیز ہے گالیاں، تو سچی بات یہ ہے کہ مجھے گالیاں صرف سننی آتی ہیں، دینی نہیں۔ لہذا یہ آئیڈیا فلاپ۔ بوجھل پن کے ساتھ ساتھ طبیعت میں بہت زیادہ تلخی بھی آگئی ہے اسی لیے ہلکی سی بات پر بھی میں بہت زیادہ تلخ ہو جاتا ہوں ، اسی لیے کسی سے بات کرنے کا بھی دل نہیں کرتا ۔ مسجد میں بھی سلام کے علاوہ لوگوں سے بات کرنے کا دل نہیں کرتا اگر کوی بات کرتا بھی ہے تو صرف ہوں ہاں کر کے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں۔ 

چونکہ طبیعت بہت زیادہ بوجھل ہے اسی لیے دماغ کسی بھی صورت کسی بھی موضوع کے حوالے سے کام کرنے کو تیار نہیں، میں صرف جسم کو گھسیٹ رہا ہوں۔ چند دن پہلے میں نے موے تھای جو کہ تھای لینڈ کی کک باکسنگ ہے کی ایک جم میں چھ مہینے کی فیس ایک ساتھ جمع کروا کر داخلہ لے لیا ہے ، دو دن جم میں گیا ہوں اور میرے جسم کے جوڑ جوڑ میں درد ہو رہا ہے ۔ ارداہ یہ ہی ہے کہ انشااللہ زندگی کے دیگر معملات کے ساتھ ساتھ جم میں بھی روزانہ جانا ہے ۔

یہ ہینڈ ریپس ہیں انکو دستانے پہننے سے قبل کلای اور "نکلز"(اردو نام نہیں آتا) کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔جِم والوں کی طرف سے یہ لازم چیزوں میں سے ہیں۔  
میری زندگی میں ماضی کچھ اچھا نہیں، ماضی کے حوالے سے بھی میں اپنی اور ایسے لوگ جنکی زندگی میرے ماضی کو بھی شامل کرتی ہو سے ایسے ہی دور رہتا ہوں جیسے ٹی وی میں اشتہار ایڈز سے دور رہنے کا کہا کرتا تھا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ میں اپنے ماضی سے جڑے لوگوں کو تقریباً بھلا بیٹھا ہوں تو یہ بلکل بھی غلط نہ ہو گا ۔ اپنے ماضی سے جڑے لوگوں میں سے چند جو شاید کبھی آنے والے مستقبل میں میری پوری زندگی کا حصہ ہوں گے انسے بھی رابطہ نہیں رکھتا۔ اپنے ماضی کو سوچتے ہوے وہ شعر یاد آجاتا ہے
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اگر میں یہ کہوں کہ ماضی کو اتنا عرصہ بھلاے رکھنے سے میں واقعی بہت زیادہ بھلا بیٹھا ہوں تو کچھ غلط نہ ہو گا، اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ میں یاد رکھنا ہی نہیں چاہتا ۔ میرے ساتھ ایک عجیب سا نفسیاتی مسلہ ہے کہ مجھے اپنے ماضی کے حوالے سے کوی اچھی اور خوشگوار بات یاد نہیں اور صرف وہی یادیں مجھے اپنے سحر میں جکڑے ہوے ہیں جن سے میں ہمہ وقت دور بھاگتا رہتا ہوں۔
میرا جسم جھرجھری کھاتا تھا اور میں ایسے سانس لے رہا ہوتا تھا جیسے کوی دس میل بھاگنے کے بعد ہانپنے لگا ہے ، میری یہ حالت گرمیوں میں ہر روز صبح کے وقت ہوتی تھی جب ابو بستر سے اٹھا کر نلکے کے نیچے بٹھا دیتے تھے اور پھر ٹب میں جمع کیے ہوے تازہ پانی کو مجھ سمیت میرے بھائیوں پر پھینکنا شروع کر دیتے تھے ۔ میں اس بات پر بھی حیران ہوتا ہوں کہ ایکد دفعہ استاد صاحب نے کلاس میں میری اچھی کلاس لی تھی بقول انکے میں کلاس میں ہاتھ منہ بھی دھو کر نہیں آتا ، جبکہ میں صبح صبح اتنا بڑا ظلم سہہ کر آیا تھا۔
ایسے میں آپ یقیناً میری بوتھی کو قصور وار ٹہرائیں گے ، ضرور ٹہرائیں میرے خیال سے بھی اس صورتِ حال کی اصل قصور وار میری بوتھی ہی ہے ۔ اگر میری بوتھی کچھ اچھی ہوتی تو شاید مجھے یہ سب نہ سہنا پڑتا چلیں خیر ، ایسا تو ہوتا ہی ہے ۔
تقدیر پر مجھے نہیں معلوم میرا کتنا یقین، پر گزرتے دن کے ساتھ میرا اس حوالے سے یقین پختہ سے پختہ تر ہوتا جا رہا ہے کہ انسان اپنی تقدیر بدلنے والی بات کچھ ٹھیک نہیں لگتی ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کوشش کر لے ، حضرت علیؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اسی حوالے سے سوال پوچھا، انہوں نے اسے کہا کہ ایک ٹانگ اٹھاو، اس نے ایک ٹانگ اٹھا لی ،پھر کہا کہ دوسری بھی اٹھاو، اسنے کہا دوسری کیسے اٹھاوں تو حضرت علیؓ نے کہا کہ بس یہ ہی ہے جتنا تم کر سکتے ہو اتنا کرو، لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ شخص ایک ٹانگ اٹھاے ہی کھڑا رہتا تو وہ کتنی دیر ایک ہی ٹانگ پر کھڑا رہتا ؟
بہرحال انسان صرف ایک ٹانگ اٹھا سکتا ہے اور وہ بھی یہ معلوم نہیں کہ کتنی دیر ، میرے خیال سے اگر آپ بہت زیادہ طاقت ور یا کوی سرکس میں کام کرنے والے یا پھر کوی چلہ کاٹنے والے بابے نہیں ہیں تو زیادہ دیر ایک ٹانگ پر کھڑے نہیں رہ سکتے میرا خیال ہے کہ میں تو ایک منٹ بھی بمشکل ایسا کر پاوں۔
اب اگر میں یہ سوچوں کہ میں اپنی تقدیر اوپر سے مکمل طور پر لکھوا کر لایا ہوں تو اپنی زندگی کی تمام ناکامیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہراوں ؟؟؟ ناکامی کا دکھ انسان کو ہر صورت میں ہوتا ہے ، چاہے انسان محنت کر کے ناکام ہو یا محنت کے بغیر ناکام ہو،دکھ بہرحال ہوتا ہے ۔ اپنی ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے لیے سیانے ایک ہی نسخہ بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اور محنت کرو۔ اب چونکہ نسخہ کسی سیانے کا ہے اسی لیے اس پر روشنی بھی کوی سیانہ ہی ڈالے گا۔
شاعر کہتا ہے کہ
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا مجھے
اتنا ہوا ذلیل کے خودار ہو گیا
شاعر کمبخت کی یہ بات تو بلکل ٹھیک ہے کہ ناکامیاں انسان کو سرکش بنا دیتی ہیں ، لیکن فلحال میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسکو خودار کس قسم کا بنایا ہے ، کیا وہ دوسرے کے طعنے اور ناکامیوں کے وقت ملنے والے لمبے لیکچر اور نصائح بھی ہنس کر سن لیتا ہے ؟؟ یا کچھ اور ،،،،۔۔۔
 فلحال میرے دماغ کا جو حصہ کام کر رہا تھا وہ بھی کرنا بند ہو گیا اسی لیے یہ پوسٹ یہیں پر ختم ہوتی ہے ۔ باقی شعر کی تشریح سوچنا آپکا کام ۔
اللہ حافظ

10 comments:

  1. اوئے تیری خیر۔۔۔ انکل ٹام۔۔۔ خیر ہے۔۔۔ اتنی پرمغز اور بھاری بھر کم پوسٹ لکھ ماری۔۔۔ اللہ تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔ آمین۔۔۔

    بیٹا۔۔۔ یہی زندگی ہے۔۔۔ ہر کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔۔۔ تمہاری حالت اور کہانی بھی آج کے ہر دوسرے نوجوان سے ملتی جلتی ہے۔۔۔ ہر کسی کو شکوے ہیں۔۔۔ کہ یہ اچھا نہیں ہوا۔۔۔ وہ اچھا نہیں ہوا۔۔۔ لیکن اب یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ کیا کیا اچھا ہواہے زندگی میں۔۔۔

    مجھے بھی زندگی سے بہت شکایتیں ہیں۔۔۔ اور تمہاری طرح میں بھی اپنے غم یاد رکھتا ہوں۔۔۔ اور خوشیاں بھول جاتا ہوں۔۔۔ خود غرض جو ٹھرا۔۔۔ لیکن میرے بھائی، وہ زندگی جو کسی امتحان کے بغیر کٹ جائے۔۔۔ وہ زندگی تو نا ہوئی نا۔۔۔

    ReplyDelete
  2. ميری يہ تحرير ديکھئے تو شايد پتہ چلے کہ آپ سب سے نہيں تو بہتوں سے بہتر ہيں

    مایوسی حرام ہے
    http://www.theajmals.com/blog/2011/03/29/

    ReplyDelete
  3. لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ شخص ایک ٹانگ اٹھاے ہی کھڑا رہتا تو وہ کتنی دیر ایک ہی ٹانگ پر کھڑا رہتا ؟

    آپ اگر غور کریں تو ہر انسان زندگی کا زیادہ تر سفر ایک ٹانگ پہ ہی طے کرتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا فرد نہیں جو چلتے ہوئے دونوں ٹانگوں کو اٹھا کر یا دونوں ٹانگوں زمین پہ رکھ چل رہا ہو۔ حیرت انگیز ہے کہ عین اس وت جب ہم چل رہے ہوتے ہیں تو قدم بڑھانے کے لئیے ایک ٹانگ لازمی طور پہ اٹھانی پڑھتی ہے۔

    خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ جہاں تک آپ کی ان کیفیات ۔ کا تعلق ہے ایک تو طبعی ہوتی ہیں ۔ اور دوسری ماحول اور حالات سے متاثر کیفیات ہوتی ہیں۔ اگر تو یہ کیفیات ماحول اور حالات کی وقتی روش مثلا گھر بار سے دور تعلیم کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی وجہ سے لمبا عرصہ دور رہنا۔ یا تعلیم کاروبار اور ملازمت میں کوئی پریشانی ہونا یا اسطرح کے دوسرے عوامل جن میں عمر کے ایک خاص حصے میں جسے جوانی نادانی کہتے ہیں یا موسوم یا پھر روزمرہ کی بور روٹین یا اسطرح کے دوسرے ملتے جلتے عوامل کی وجہ سے آپکی یہ کیفیات ہیں تو انشاءاللہ یہ ان عوامل کے قدرے بہتر ہوتے ہی آپکی کیفیات بھی بدل جائیں گی۔

    اگر یہ کیفیات طبعی ہیں یعنی کسی بھی ماحول میں کسی بھی حالات میں کسی بھی جگہ آپ پہ ہمیشہ طاری رہتی ہیں تو آپ اپنی روز مرہ کی کیفیات ہفتہ عشرہ لکھ کر ان کا آپس میں موازنہ کریں اگر ہفتے میں مثال کے طور پہ ہر بدھ کو ایک ہی جیسی کیفیات ہیں تو پھر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ کو اپنی طبعیت ہر صورت بدلنی ہے کہ اسی میں آپکا اور آپکے ارد گرد رہنے والوں کا فائدہ ہے۔ اور اس کے لئیے خدا کی دی ہوئیں روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں پہ خوشیوں پہ غور کریں۔ مثلا خدا نے آپ کو پیرنٹس دے رکھے تو اللہ کا شکر ادا کریں۔ آپکو روز مرہ کھانے کے لئیے کسی کا محتاج نہیں کیا تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں ار خوب مسرت کا اظہار کریں۔ اللہ نے دونوں ہاتھ پاؤں ، آنکھیں ، صحت آزادی اور پتہ نہیں کیا کیا دے رکھا ہے اس پہ ان لوگوں کے بارے سوچیں جنہیں یہ نعمتیں کسی وجہ سے خدا نے نہیں دی یا چھین لی ہیں اس پہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے دلی مسرت بجا لائیں۔ اسکے ساتھ چھوٹے کاموں سے محض گھر میں باقی افراد کے روز مرہ کے معاملات مین انکی مدد کرنے سے ۔ گھر کی صفائی ستھرائی میں ہاتح بٹانے سے اور اگر دوست ہیں تو انکی مدد کرنے سے اور اسطرح کت دیگر شغل اپناے سے آپ کو گو ننھی منھی مسرتیں ملیں گی۔ مگر یہی مسرتیں ہی ہوتی ہیں جو باہم ملکر سدا بہار خوشی کا روپ دھارتی ہیں۔ اس کے لئیے آپ جنہیں بہت خوش اور مطمئین سمجھتے ہیں انکی زندگی کا مشاہدہ کر کے دیکھ لیں ۔کہ وہ کس طرح چھوٹے موٹے کاموں سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ اور خوش رہتے ہیں ۔ آزمائش شرط ہے۔

    آپکی ان کیفیات کی ایک تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ کو عشق نامعقول جیسا مرض لاحق ہوگیا ہو۔ مگر آہ کی سلجھی گفتار اور تحریروں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ابھی تک اس فیشنی مرض سے بچے ہوئے ہیں۔ :)

    ReplyDelete
  4. بارہواں کھلاڑی۔ بارہواں کھلاڑی بھی کیا عجب کھلاڑی ہے
    کھیل ہوتا رہتا ہے شور مچتا رہتا ہے
    داد پڑتی رہتی ہے اور وہ الگ سب سے انتظار کرتا ہے
    ایک ایسی ساعت کا، جس میں ثانحہ ہوجائے
    پھر وہ کھیلنے نکلے
    تالیوں کے جھرمٹ میں، ایک جملہ خوش کن
    ایک نعرہ تحسین، اس کے نام ہوجائے
    سب کھلاڑیوں کے ساتھہ وہ بھی معتبر ہوجائے
    تم بھی افتخار عارف بارہویں کھلاڑی ہو
    انتظار کرتے ہوایک ایسے لمحے کا
    ایک ایسی ساعت کا
    جس میں حادثہ ہوجائے، جس میں ثانحہ ہوجائے۔

    ReplyDelete
  5. انکل ٹام
    آپ تو خود ہی سے باتیں کیے جارہےہیں۔
    جم جانا اچھی بات ہے لیکن ذرا ہاتھ پیر بچا کے ہاں۔

    ReplyDelete
  6. زندگی میں ایسے حالات آتے رہتے ہیں. لگتا ہے آپ کو اب جیون ساتھی کی ضرورت ہے :)

    ReplyDelete
  7. جاوید گوندل صاحب کی باتوں پر سنجیدگی سے عمل کریں اور مزید یہ کہ
    آپ سے درخواست ہے کہ "اشفاق احمد" کتاب "زاویہ" "تین حصہ" پڑھ لیجیے' مجھے یقین ہے کہ بہتری آے گی

    ReplyDelete
  8. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?1164-%D8%B2%D8%A7%D9%88%DB%8C%DB%81/page6

    اس ربط پر زاویہ کے مضامین مطالعہ کیے جا سکتے ہیں 'آپ کی موجودہ کیفیت کے لحاظ میں مشورہ دوں گا کہ اسکرول کرتے ہوے نیچے آیے اور 22 مارچ کی تاریخ میں موجود پوسٹ کہ پہلے پڑہ لیجیے

    ReplyDelete
  9. بندہ ویلا ہو تو ایسے خیالات جمع ہوہی جاتے ہیں۔ خود کو مصروف رکھیں۔ ماضی کو لے کر بیٹھ گئے تو مستقبل خراب ہوجائے گا۔
    زندگی کا مزہ بھی اسی سے ہے، کبھی یسر کبھی عسر۔ ہمیشہ آسائش میں رہنے والے بندے کو کیا پتا کہ محنت اور تکلیف کے بعد ملنے والے آرام اور فرحت میں کیا مزا ہے۔

    ReplyDelete
  10. یار کنگ فو پانڈا دیکھی ہے؟
    اس میں ایک بڑا زبردست قول آیا تھا۔
    Yesterday is history. Tomorrow is a mystery. But Today is a gift, which is why we call it "Present".

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.