Wednesday, April 27, 2011

حاجی عبداللہ کے دانت کھانے کے اور دکھلانے کے اور

ڈاکٹر جواد بھای نے ایک بلاگ پر ایک سوال پوچھا تھا، کہ ہاتھی کے پاس دو قسم کے دانت کیوں ہوتے ہیں ، دکھانے کے اور ، اور کھانے کے اور۔ مجھے یہ سوال کافی مزیدار اور عجیب لگا۔ ہاتھی کے دکھانے والے دانت اسکی خوبصورتی کے لیے ہوتے ہیں سنا ہے بڑے مہنگے مہنگے بھی بکتے ہیں۔ عموماً لوگ کسی چیز کے ظاہر کو دیکھ کر اسکی خوبصورتی کا اندازہ لگاتے ہیں ، ایسے لوگ لوگوں کو جاننے کے بارے میں نہ صرف برے تجربات کا سامنا کرتے ہیں بلکہ اچھے اخلاق و کردار کے وہ لوگ جو ظاہر حسن سے مالا مال نہیں ہوتے انکے بارے میں بھی شدید قسم کی غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو ہاتھی کی طرح ہوتے ہیں، دیکھیں دیکھیں میرا اشارہ موٹاپے کی طرف نہیں ہے بلکہ دانتوں کی طرف ہے ۔ بہت سے لوگ دانتوں کی دو قسمیں رکھتے ہیں دکھاتے ایک قسم ہیں جبکہ کھاتے دوسری قسم سے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عرف عام میں دوغلے لوگ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ مختلف قسمیں میں نظر آتے ہیں۔
ہمارے محلے میں ایک صاحب رہتے تھے، جو ہر اذان کے بعد گھر سے باہر نکل کر مسجد کی طرف سفر کرتے تھے، آتے جاتے سب بچوں کو سلام پیار کرتے تھے، انکے اخلاق کی ضرور ہر کوی تعریف کرتا ہو گا، انکا ایک چھوٹا بھای بھی تھا جو انکے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن اسکا دوست انکے گھر آیا ہوا تھا جسکی موٹر سائیکل باہر کھڑی تھی۔ میرے چھوٹا بھای باہر  گلی میں دیگر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ، کھیلتے ہوے اس سے موٹر سائیکل کا ایک پیچھے والا انڈیکیٹر ٹوٹ گیا۔ موٹر سائیکل کس جگہ اور کس طرح کھڑی تھی یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس پر جس قسم کی گالیاں انہوں نے نکالنا شروع کیں وہ ضرور انکے اچھے اخلاق کی نشاندہی کرتی تھیں، انکی زبان مبارک سے پھول اسی وقت جھڑنا بند ہوے جب تک انکو پیسے لا کر نہین دیے گئے ۔
اس سارے واقعے نے میرے چھوٹے بھای کی نفساتی بڑھوتری پر کس قسم کے اثرات مرتب کیے ہوں گے یہ ایک الگ بحث ہے جسکو ہم کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں، انکی گالیوں کے بعد بھی انکو پیسے دینے چاہیے تھے یا گالیوں پر ہرجانے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا یہ بھی ایک الگ بحث ہے اور اسکو بھی ہم کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔ میرا سارا زور اس طرف ہے کہ  جو اتنے عرصے تک انکے اچھے اخلاق تھے کیا وہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح نہیں تھے ؟
یہ ہی ہاتھی کے دانتوں والے لوگوں کی ایک  قسم ہے جسکو  حاجی عبداللہ ٹائپ کہا جاتا ہے، اگر آپ نے شکاری نامی ناول پڑھا ہے تو آپ ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ حاجی عبداللہ  سے میرا اشارہ کس طرف ہے۔ تو جی حاجی عبداللہ شکاری میں ایک کردار کا نام ہے ، جس کی بڑی لمبی لمبی داڑھی اور ایک موٹی تون ہے ، حاجی عبداللہ نہ صرف حاجی ہے بلکہ اسکے ہاتھ میں ہر وقت ایک تسبیح رہا کرتی ہے اور بات بات پر وہ سبحان اللہ اور ماشااللہ بھی کہا کرتا ہے۔ حاجی عبداللہ کا ظاہر لوگوں کے سامنے بڑے نیک شریف انسان کا ہے، شکاری میں  احمد اقبال نے  اس قسم کے لوگوں کو ظاہر کرتے ہوے حاجی عبداللہ کے لیے اکثر پاجی کا لفظ استعمال کیا ہے اور اگر میری یاداشت صحیح کام کر رہی ہے تو کچھ جگہوں پر عبد کے آگے اللہ لگانے سے احترازکیا ہے۔ حاجی عبداللہ جیسے لوگوں کی اصلیت کو ظاہر کرتے ہوے ایک جگہ احمد اقبال نے حاجی عبداللہ کو کلاشنکوف پکڑے اپنے بیٹوں کو خفیہ پولیس کے ایک مخبر کے لیے گندی گالیاں نکلاتے بھی دکھایا ہے۔ حاجی عبداللہ جسکا ظاہر ایک نیک شریف انسان لیکن باطن میں وہ ایک شیطان سے کم نہیں، ایک خفیہ تنظیم جو ناجائز طور پر اسلحہ کی اسملنگ کرتی ہے کا رکن ہے۔ حاجی عبداللہ اپنے ٹرکنگ کے بزنس میں فروٹ اور سبزیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی آڑ میں اسلحہ بھیجا کرتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں حاجی عبداللہ ٹائپ کے بہت سے پاجی موجود ہیں ایک مثال تو میں اُوپر کے واقع میں دے چکا ہوں، یہ آپکو بہت سی جگہوں پر نظر آئیں گے، یہ آپکو بڑے بڑے نزنس مین جو لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں، کی صورت میں بھی نظر آئیں گے۔یہ یتیم خانوں کی آڑ میں معصوم بچوں کو بیچتے  انکے گردے اور جسمانی اعضاء کا کاروبار کرتے ہوے بھی ملیں گے۔ غرض ہمارا معاشرہ اس قسم کے پاجی لوگوں کے اٹا پڑا ہے ۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپکو ایسے لوگوں کی پہنچ سے دور رکھیں

Saturday, April 23, 2011

اقسامِ ٹھرکیاں

اقسامِ ٹھرکیاں
بڈھے ٹھرکی:۔
کیا آپ نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں ایک گنجا اپنے سر پر غیر موجود بالوں میں کنگھی کرتے ہوے گا رہا ہے " ابھی تو میں جوان ہوں ، ابھی تو میں جوان ہوں"۔یہ صاحب اکثر اپنے محلے میں آنے جانے والی لڑکیوں سے سلام دعا کیا کرتے ہیں، بظاہر تو لڑکیاں انسے خوش ہو کر بات کرتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ انکے روکنے سے بہت تنگ ہوتی ہیں اور بعد میں ایک دوسری سے کہتی ہیں "سالا بڈھا ٹھرکی"۔
کڑی نمبر ون:۔ کیا اس بڈھے کی کوی اپنی ماں بیٹی نہیں ہے ؟؟
کڑی نمبر دو:۔ ارے کیا تمہیں نہیں پتا اسکی ابھی تک شادی ہی نہیں ہوی!!!۔
کڑی نمبر ون:۔ اچھا ، تبھی تو یہ اتنا ٹھرکی ہے !!!!۔
اگر آپ کسی بڈھے ٹھرکی کو اس عمر میں یونیورسٹی جاتے دیکھے تو عموماً آپ پہلے لمحے یہ ہی سوچیں گے کہ یہ بیچارہ کند ذہن ہے اسی لیے فارغ ہونے میں اتنی دیر لگ رہی ہے ۔ یہ بات شاید جزوی طور پر صحیح ہو لیکن انکے اتنی دیر میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے کی ایک دوسری وجہ  یونیورسٹی میں آنے والی "پپو بچیاں" بھی ہو سکتی ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا بڈھے ٹھرکیوں کی معاشرے میں موجودگی کی وجہ مولوی ہے ؟؟؟ تاریک خیالیے لوگ اس سوال کے جواب میں یقیناً ہاں نہیں کہہ سکتے اسکی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ بڈھے ٹھرکی اسی گروہ کی ایجاد ہیں۔  بڈھے ٹھرکی ہر جگہ پائے جاتے ہیں، یہ اکثر کپڑوں کی دکان پر بھی پائے جاتے ہیں، جاتے تو وہاں یہ اپنے دوست دکاندار سے ملنے کے لیے۔ لیکن اکثر یہ دکان پر کام کرنے والے لڑکوں کو ہدایات دیتے پائے جاتے ہیں۔
آئیے ہم اس مسلہ کو  مثال سے سمجھتے ہیں۔
ایک کپڑوں کی دکان میں عورتیں کپڑے خرید رہی ہیں، سب کام کرنے والے مصروف ہیں، یہ صاحب اچانک سے آواز لگائیں گے "اوے شیدے !! یار باجی نوں اے والا وی وکھا نہ، باجی اے ویکھو اے تہاڈے تے چنگا لگے گا!!!
شیدا اکثر اس سے تنگ ہو جاتا ہے ، ایک دن تنگ پڑ کر اسنے کہہ ہی دیا کہ کپڑے میں ویچنے ، خریدنے ایناں نے ، تے توں وچ ماما لگنا ایں ؟؟؟  "سالا بڈھا ٹھرکی"
یہ ٹھرکیوں کی اس قسم میں پائے جاتے ہیں جن سے سامنا ہونے پر لڑکیاں ان للہ و ان الیہ راجعون پڑھتی ہیں اور جان چھٹنے پر الحمد اللہ کہہ کر ثواب کمایا کرتی ہیں۔
ٹھرکیوں کی اس قسم پر ہمارے ڈفر بھای کچھ عرصہ پہلے ایک مقالہ لکھ  کر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں، جسکو آپ یہاں پر پڑھ سکتے ہیں۔
زنخار ٹھرکی:۔
ٹھرکیوں کی ایک قسم زنخار ٹھرکی بھی ہیں،یہ اصل میں وہ نوجوان زنخار ہیں جو آخر میں بڈھے ٹھرکی بن جاتے ہیں  اپنی نوجوانی کے باعث یہ  بڈھے ٹھرکیوں سے اپنے طریقہ کار میں تھوڑا اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، آپکے کالج میں، آپکی یونیورسٹی میں، آپکے دفتر میں غرض ہر جگہ یہ موجود ملیں گے۔یہ لوگ عموماً کسی بھی بحث میں  ناجائز پر بھی عورتوں کا ساتھ دیتے پائے جاتے ہیں۔ یہ اکثر کالجز اور یونیورسٹیز میں لڑکیوں کے گروہ میں "انوکھا لاڈلہ" کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ اکثر یہ تمام لڑکیوں کے دوست بھی ہوتے ہیں اور زیادہ تر تمام لڑکیوں کے اکلوتے بھای۔ انکا کام کالج کی تمام لڑکیوں کی حفاظت، انکے مسائل کا حل حتیٰ کے لیے انکے لیے برگر اور چپس لانا بھی انکے فرائض میں شامل ہوتا ہے ۔ اگر کسی لڑکی کے فون میں کارڈ ختم ہو گیا ہے تو وہ لانا بھی انکی ذمہ داری ہو گی۔

زنخار لڑکوں کو اکثر لوگ ممی ڈیڈی یا برگر بچے بھی کہہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایک صریح غلط فہمی ہے، زنخار وں اور ممی ڈیڈی بچوں میں فرق صرف شرافت کا ہے۔ ممی ڈیڈی بچے وہ ہوتے ہیں جنہوں نے دنیا نہیں دیکھی ہوتی اسی لیے بہت زیادہ شریف زادے ہوتے ہیں۔ اگر آپ انکو کوی گالی بھی دیں گے تو وہ آپسے اسکا مطلب پوچھیں گے۔ جبکہ زنخار بہت شانے ہوتے ہیں چونکہ انکا لڑکیوں میں بہت زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اسی لیے لڑکیوں کی بہت سی عادات اور حرکات ان میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ کچھ زنخار تو لڑکیوں کی طرح باقائدہ "ہائے ہائے" بھی کرتے ہیں اور لڑکیوں ہی کے سٹائل میں ہاتھوں کو بھی ہلاتے ہیں۔
یہ کالج کے سب سے موسٹ وانٹڈ لوگوں کی لسٹ میں شامل ہوتے ہیں، اسی لیے یہ اصول یاد رکھیں کہ آپ نے کالج میں کبھی بھی انکو ناراض نہیں کرنا، اور انکو ہمیشہ خوش رکھنا ہے۔ انکو خوش رکھنے کے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہیں انکو ناراض رکھنے کے بہت زیادہ نقصانات بھی ہیں۔ اگر کالج میں آپکو کوی مسلہ پیش آگیا ہے تو سب سے پہلے آپکو انہی کے پاس جانا چاہیے۔ لڑکیوں کے اکلوتے بھای ہونے کی بنا پر سارے کالج کے لڑکے انسے بنا کر رکھتے ہیں، اسی لیے یہ ہر قسم کے لوگوں کو جانتے ہیں اور ہر قسم کے کام میں مدد کر سکتے ہیں۔اگر آپکو کوی لڑکی پسند آگئی ہے تو یہ ہی وہ انسان ہیں جو آپکی مدد کر سکتے ہیں۔
بلاگی دنیا کے  ٹھرکی:۔
بلاگی دنیا پر یہ بھی محدود تعداد میں موجود ہیں، یہ بوقت ضرورت آنٹیوں کے بلاگ پر تبصرے کر کے انکی تحریروں کو رونق بخشتے ہیں۔ کچھ بلاگروں کا خیال ہے کہ یہ آنٹیوں کے کالج کے زمانے کے بھای ہیں جو ضرورت پڑنے پر اب تک رشتہ نبھاتے ہیں۔ اگر کسی آنٹی کو کسی دوسرے بلاگر کے نام سے گندا تبصرہ کروانا ہو تب بھی یہ حاضر خدمت ہوتے ہیں، اگر کسی دوسرے بلاگر کے نام سے تبصرہ کرنا ہو تب بھی یہ اپنے سینگ پھاسنے کو تیار ہیں۔ یہ اکثر دوسروں کے بلاگ پر کوی ایسا تبصرہ بھی کر دیتے ہیں جس سے کسی آنٹی کو اپنے بلاگ پر تحریر لکھنے کا موقع مل جائے ۔ اگر آپ ایک بلاگی آنٹی ہیں اور آپکو اپنے بلاگ پر لوگوں کی تعداد بڑھانی ہے تو سب سے پہلے سینگوں والے اس زنخار ٹھرکی سے ہی رابطہ کریں۔ یہ آپکو کسی بھی آنٹی کے بلاگ پر کسے روشن خیال مولوی کے ساتھ سینگ پھنساے نظر آئیں گے ۔

ٹھرکیوں کی یہ دنوں قسمیں آنٹیوں کے عاشق سے بڑھ کر کچھ نہیں، یہ وہ عاشق ہیں جو چاند تارے توڑ کر لانے کو بھی تیار ہوتے ہیں بلکہ جاں بھی قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ انکی مثال خواجہ کے گواہ ڈَڈو سے کم نہیں ہوتی۔ یہ اکثر آنٹیوں کے کہنے پر بزرگ بلاگرز کی شان میں گستاخی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ غرض یہ آنٹیوں کی بکواسیات کو اپنے الفاظوں میں آنٹیوں کے کمنٹ کے نیچے چھوڑتے نظر آتے ہیں۔  جہاں ملیں اور جیسے ملیں کی بنیاد پر انکی بینڈ بجانا تمام بلاگروں پر فرض ہے،  جو بلاگر انکو  جسم کے ایسے حصے پر مارے ، جہاں یہ کسی کو دکھا کر شکایت بھی نہ کر سکیں ، اس بلاگر کو زیادہ ثواب ملے گا۔

Wednesday, April 20, 2011

غرور و تکبر

حدیث پاک میں تکبر غمط الناس اور بطرالحق کا نام ہے یعنی لوگوں کو حقیر سمجھنا اور حق بات کو قبول کرنے سے اعراض اور انکار کرنا۔ (روح کی بیماریاں اور انکا علاج سفحہ ۱۳۸ از مولانا حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم) ۔امت مسلمہ میں جہاں بہت سی روحانی بیماریاں ہیں وہاں ایک بیماری غرور کی بھی ہے۔ کسی کو اپنے چوہدری ہونے  اور خاندانی نسب پر غرور ہے تو کسی کو اپنے پیسے پر غرور ہے، کسی نے اگر دو ڈگریاں لے لیں تو وہ اس پر غرور کرتا رہتا ہے ۔غرض ہماری قوم ایس بیماری میں ایسی جکڑی گئی کہ اگر کوی میونسپل کا الیکشن جیت گیا اور سڑکو پر جھاڑو لگوانے کی ذمہ داری مل گئ تو وہ بھی اکڑ اکٹر کر چلا کرتا ہے ۔ ہمارے محلے کے ایک صاحب تھے، کوی انکو جانتا نہ تھا۔ پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ پھرا کرتے تھے توکونسلر کے الیکشن میں کھڑے ہو گئے ۔ محلے کے لڑکوں نے جوش و خروش سے انکے پوسٹر لگاے، خوب اشتہاری کی مجھے یاد ہے میں اپنے گھر کے باہر تھڑے پر بیٹھ کر دیکھا کرتا تھا، کسی لڑکے نے ہاتھ میں چپکانے والے مادے کی بالٹی پکڑی ہوی ہے، کسی نے ہاتھ میں وائپر پکڑا ہوا ہے اور کوی پوسٹر اٹھاے ہوے ہے اور ایک صاحب سیڑھی پکڑے ہوے ہیں ۔ غرض محلے کے تمام نوجوان فی سبیل اللہ اپنے ہمساے کے الیکشن میں مدد کر رہے تھے۔ ان صاحب کی بہنوں نے گھر گھر جا کر خواتین کو ووٹ ڈالنے پر راضی کیا ۔ اور ایک دو اور تکنیکیں استعمال کر کے وہ الیکشن جیت گئے ، اسکے بعد تو انکی اکڑ نہ پوچھیں، کلف والے کپڑے پہن کر سینا اوپر اٹھا کر ایسے چلا کرتے تھے جیسے آدھی دنیا فتح کر لی۔  محلے میں لوگوں سے ایسے پیش آنا جیسے ملک کا سارا نظام وہی چلاتے ہیں۔ غرور کا انجام ، مدت ختم ہونے سے پہلے ہی انکی اوقات ختم ہو گئی۔ ویسے بھی کونسلر  سے کون ڈرتا ہے۔
 غرور کرنے کا انجام بہت برا ہوا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ مغرور کو دنیا میں ایسے طریقے سے رسوا کرتے ہیں کہ اسکو خود بھی پتا نہین چلتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ اپنی رسوای کو وہ خود بہت جوش خروش سے بیان کرتا ہے ۔ لوگ اسکے منہ پر واہ واہ کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے اسکا تذکرہ کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں، انکو اپنے اوپر بہت غرور ہے، کوی تعلیم نہیں، عقل مت بھی نہیں۔ غرور اپنے  پاسپورٹ اور انگریزی کے دو لفظوں پر ہے۔ جناب گاوں میں رہنے والی شریف زادیوں کا مذاق صرف اس بنیاد پر اُڑایا کرتے تھے کہ وہ "گوبر اٹھاتی" ہیں ، اور انکو غرور کی یہ سزا ملی کہ انکی اپنی ہی"ٹوں ٹوں ٹوں ٹوں"  معشوق جو ایک ایک وقت میں دو دو  یار (یار ۔بمعنی بواے فرینڈ) رکھا کرتی ہے، نے نہ صرف پہلے اسکو گھر والوں سے الگ کیا، کریڈیٹ کارڈ خالی کرواے، اور جب جناب کنگلے ہوے تب تک انکو ایک دوسرا مل چکا تھا ، چنانچہ انکو اچھی خاصی گالیاں (ایسی کلاسیکل گالیاں جو خالص لاہور کے شاہی بزار کی پیداوار ہیں، کیونکہ موصوفہ کا خاندان بھی وہین سے تعلق رکھتا ہے) سنائیں۔
غرور کو سمجھنے کے لیے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے قریبی دور کے "مشرف" صاحب، جب تک طاقت تھی خوب اکٹرا کرتے تھے، مخالفین کو "ایسی جگہوں سے بمب گرانے کہ انکو پتا بھی نہ چلے گا" جیسی باتیں کیا کرتے تھے۔ لال مسجد پر جو ظلم انہوں نے کیا وہ انکے غرور کی بدترین مثال ہے۔ کیا انجام ہوا ؟؟؟ آج اس شخص کو کوی پوچھتا بھی نہیں ہے، کفار کے رحم و کرم پر انکے ملک میں جی رہا ہے ، جہاں جاتا ہے کوی نہ کوی جوتا مارنے کو تیار رہتا ہے ۔ دنیا بھی برباد آخرت بھی برباد ۔
تو جناب یہ ہے غرور کا انجام۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پہلے ہی خبردار کر دیا۔ چناچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا
[١٧:٣٧]
اور مت چل زمین پر تو اتراتا ہوا پھاڑ نہ ڈالے گا تو زمین کو اور نہ ہنچے گا پہاڑوں پر لمبا ہو کر۔
اس آیت کے تحت مفسرین نے غرور پر بات کی ہے چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں کہ یعنی متکبروں کی چال چلنا انسان کو زیبا نہین ۔ نہ تو زور سے پاوں مار کر وہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ گردن ابھارنے اور سینہ تاننے سے اونچا ہو کر پہاڑوں کے برابر ہو سکتا ہے۔ پھر ایسی ضعف و عجب اور اس بساط پر اپنے کو اس قدر لمبا کھینچنے سے کیا فائدہ؟
اسی طرح سورۃ لقمان آیت ۱۸ میں ارشاد ہوتا ہے:۔
وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸

اور اپنے گال مت پھلا لوگوں کی طرف  اور مت چل زمین پر اتراتا بیشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اتراتا بڑائیاں کرنے والا

تکبر سے بچنے کا طریقہ:۔
علماء دین غرور سے ہمیشہ دور دور رہا کرتے تھے، چناچنہ روح کی بیماریاں اور انکا علاج صفحہ ۱۴۰ میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک عجیب قول لکھا ہے کہ :۔
" میں اپنے کو تمام مسلمانوں سے فی الحال  اور کافروں اور جانوروں سے کمتر فی الحال سمجھتا ہوں یعنی موجودہ حالت میں ہر مسلمان مجھ سے اچھا ہے اور خاتمہ کے اعتبار سے نا معلوم کیا ہو اپنے کو کفار سے بھی کمتر سمجھتا ہون ۔" 


(یعنی کچھ علم نہیں کس وقت کافر مسلمان ہو کر درجے میں بڑھ جائے )
اسی طرح حضرت مجدد الف ثانیؒ کا قول  ہے کہ مومن کامل نہ ہو گا جب تک کہ اپنے کو بہائم اور کفار سے بھی کمتر نہ جانے گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

Sunday, April 17, 2011

پردہ ، معاشرے کے اچھے اخلاق کا ضامن

پردہ ، معاشرے کے اچھے اخلاق کا ضامن
لاہور میں ایک دفعہ میں اور میرا بڑا بھای ایک گلی سے گزر رہے تھے، ایک حسینہ ہمارے آگے آگے جا رہی تھی۔ یہ زمانہ وہ تھا جب میرے بڑے بھای نے نیا نیا جوانی میں قدم رکھا تھا اسی لیے جوانوں والا جوش اور گرمی اس میں خوب خوب موجود تھی۔ تھوڑا سا آگے ہی گئے تھے کہ ایک (شاید کراے کی :ڈ) موٹر سائیکل پر دو جیالے آگئے  اور اپنی موٹر سائیکل آہستہ کر کے حسنیہ کے حسن کی تعریف کرنے لگے۔ حسینہ رک گئی اور تھوڑی بحث شروع ہو گئی ، اتنے میں میرے بھای کی جوانی نے بھی جوش مارا اس نے بھی بیچ میں چھلانگ لگا دی، وہ حسینہ تو چل دی اور وہ جیالے میرے بھای کے ساتھ الجھ پڑے چلو خیر بچ بچا ہو گیا ورنہ ہم دنوں کے ہی منہ سوجے ہوتے ۔
ایک دفعہ میں اپنے دادا کے گھر جا رہا تھا، لاہور کی ایک مصروف سڑک پر، ایک حسینہ تنگ و چست لباس پہنے اکیلی ہی جا رہی تھی، پھر ایک موٹر سائیکل پر دو جیالے آگئے اور اپنی موٹر سائیکل آہستہ کر لی اور حسینہ کے حسن کی تعریف شروع کر دی۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ حسینہ اس سے لطف اندوز ہو رہی تھی یا نہیں ، لیکن پچھلی دفعہ کے تجربے کے بعد میں نے اس دفعہ بیچ میں ٹانگ اڑانا ضروری نہیں سمجھا۔
مشرف نے جب میراتھن کروای تھی، تو سڑک پر سکول کے بچوں کو سائیڈز پر کھڑا کیا گیا تھا، یہ تمام بچے لاہور کے مختلف گورمنٹ سکولز کے تھے اور انہیں میں ، میں بھی شامل تھا، مکمل طور پر تو سب کچھ یاد نہیں اتنا ضرور یاد ہے کہ وہاں کھڑے لڑکوں اور پولیس والوں کی زندگی کا یادگار دن تھا۔ میرا کلاس فیلو "ت شاہ" اس دن باوجودیکہ استاد صاحب نے بڑے جرمانے کی تنبیہ کی تھی نہیں آیا تھا، لیکن جب "بنگالی" نے اسکو ایس ایم ایس کر کے صورت حال کا بتایا تو وہ بھاگا بھاگا آیا تھا۔ بہرحال وہاں پر پولیس والوں نے بی خوب مزے اڑاے تھے خاص طور پر جب "کالیاں" (بقول فیصل قریشی جن کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا) سٹینڈ پر پانی کے لیے رکتی تھیں، تو میں نے خود پولیس والوں کو آگے بڑھ بڑھ کر انکو بوتلیں پیش کرتے دیکھا۔ ماشااللہ کتنی فرض شناس ہے ہماری پولیس۔ ایک پولیس والے کا جھگڑا بھی ہونے لگا تھا ایک لڑکا اپنی بہن کے ساتھ بھاگ رہا تھا ، تھا تو وہ پاکستانی ہی لڑکی بھی پاکستانی تھی ، کچھ ایسا ہوا تھا کہ پولیس والے نے اسکے حسن کی تعریف کر دی تھی، بس جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔  بہرحال اس دن کی سب سے افسوسناک بات تھی کہ مجھے چوبرجی تک آدھا رستہ پیدل جانا پڑا تھا ، اگر وہ گدھا گاڑی والا مجھے لفٹ کی آفر نہ کرتا تو باقی آدھا بھی پیدل ہی جاتا۔

 ان تمام واقعات میں ایک چیز مشترک ہے ، اور وہ ہے جلوہ جو حسینائیں دکھا کر جیالوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ پاکستان میں اس قسم کے ہزاروں واقعات موجود ہیں جہاں حسینائیں اسی طرح اپنی حسین ادئیں اور جلوے دکھا کر جیالوں کو پاگل کر دیتی ہیں ۔ اور جب جیالے انکے پیچھے جاتے ہیں تو ان حسینائوں کے بے غیرت گھر والوں کی غیرت اچانگ جاگ اٹھتی ہے اور وہ لڑکوں کو مارتے پیٹتے ہیں۔ کئی دفعہ  صورت حال قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے ۔ مجھے اپنے محلے کا ایک واقعہ یاد ہے ۔ وہ لڑکی میری ہی کلاس کی تھی، لیکن جب وہ تھوڑی سی بڑی ہو گئی تو بڑے جیالے اسکے آگے پیچھے چکر لگاتے تھے، سننے میں آیا ہے کہ وہ انکو لائین بھی بہت مارا کرتی تھی۔ ایک دن اسکا بھای چھت پر پستول لے کر چڑھ گیا۔
اب دوسری طرف کا واقعہ سنئیں، ایک دفعہ میں اپنی امی کے ساتھ "نو فرلز" جا رہا تھا ، ارادہ سبزی وغیرہ خریدنے کا تھا۔ راستے میں ایک بس سٹاپ پڑتا ہے وہاں پر دو ہٹے کٹے جیالے کھڑے تھے، اور ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے، ہم لوگ ابھی سڑک کے دوسری طرف تھے اور وہ لوگ سڑک کے دوسری طرف۔ ایک بس آئی اور اس میں سے ایک حسینا نے قدم باہر نکالا۔ اور انہوں نے اس پر فقرے کسنے شروع کر دیے۔ میرا خیال ہے وہ کافی دیر سے وہاں کھڑے یہی کچھ کر رہے ہوں گے۔ بہرحال میں تھوڑا محتاط ہو گیا۔ لیکن ہم انکے قریب سے گزر گئے اور انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ 
ہمارے سکول میں "پیرنٹس ڈے" پر ایک دفعہ امی سکول گئیں، ہمارے انگریزی کے استاد تھے "مسٹر بی" انسے ملیں۔ اگلے دن "مسٹر بی" نے مجھے بتایا کہ وہ میری والدہ کو دیکھ کر کافی حیران ہوے تھے ، اور وجہ برقع تھی۔ اسی حوالے سے بات ہو رہی تھی تو میں نے انکو یہی اوپر والی کہانی سنا کر بتایا کہ کیسے ان جیالوں نے ایک برقع والی عورت پر آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔ مسٹر بی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ برقع عورت کی عزت اور وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ 
میری عمر کچھ زیادہ نہیں لیکن میں نے اپنی تھوڑی سی زندگی میں جو بہت سے واقعات دیکھے ہیں ان کے تجربے سے میں یہ ہی سمجھا ہوں کہ اسلام  نے عورت کے لیے جو پردہ کا نظام مقرر کیا ہے اسکے چھوڑنے سے معاشرے کا نظام بہت زیادہ درھم برھم ہو جاتا ہے ۔ میرے ایک تاریک خیال دوست جسکا ایک سنایا ہوا ایک واقعہ میں اپنی ایک پچھلی پوسٹ میں نقل کر چکا ہوں، نے مجھے بتایا کہ وہ کچھ ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھا، اپنا کام ختم کر کے اسنے ٹیچر کو (جو کہ ضرور  ایک خوبصورت حسینہ ہو گی) گھورنا شروع کر دیا، اور گھورتا رہا بہت دیر تک ، پھر ٹیچر نے تنگ پڑ کر اٹھ کر اسکے پاس آئیں اور کھینچ کر اسکو تھپڑ مارا۔ اسنے اپنے گھر جا کر امی کو بتایا اور اگلے دن اسکی امی سکول آئیں، اور اس بات میں کوی شبہ نہیں کہ اس ٹیچر کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ اور میرے خیال سے اسی قسم کے ماحول کا اسکی زندگی پر ایسا اثر ہوا ہے کہ وہ اب ایک "تاریک خیال" شخص ہے ۔
ایک بے پردہ عورت کی بے پردگی کا اثر کیسے چھوٹے بچوں پر بھی پڑتا ہے اسکا اندازہ آپ مذکورہ بالا واقعہ سے لگا چکے ہوں گے ۔

حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ مجھے باوثوق ذریعے سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے دیکھنے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے اور اس پر بھی جس کو دیکھا جائے۔
پردے میں رہنا ، میری بہنا

پردے میں رہنا میری بہنا
آئے جو دکھ ہنس کر سہنا
رسم کی جس نے اوڑھی ردا
اس سے گئی پھر شرم و حیاء
رخ پہ ہوا کے مت بہنا
پردے میں رہنا۔۔۔۔۔۔
جتنا سنورنا ہے سنور
ہاں لیکن اللہ سے ڈر
پردہ تیرا زیور گہنا
پردے میں رہنا۔۔۔۔
کس کے جی میں کیا آئے
اور تو مجرم کہلائے
خود کو لباس وہ مت پہنا
پردے میں رہنا۔۔۔۔

حضرت خالد اقبال تائب صاحب دامت برکاتہم

Thursday, April 14, 2011

نقاب ، ایک مسلمان عورت کی پسند اور انتخاب

میرا خاندان ، دادا دادی اور نانا نانی کی طرف سے مہاجر ہے ، ہم لوگ انڈیا کے ایک علاقے سے ہجرت کر کے آے تھے۔ خاندان اور برادری کے لوگ ہجرت سے پہلے نزدیک نزدیک کے گاوں میں رہتے تھے اور ہجرت کے بعد زیادہ تر پنجاب کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور ایک بڑی تعداد کراچی چلی گئی ۔ میرا نانا ابو نے فوج کی نوکری شروع کی اور کچھ خاندانی مسائل کی بنا پر چھوڑ دی ، اور جس شہر میں وہ رہتے تھے وہاں سے اپنے بیوی بچوں کو لے  کر ایک دوسرے شہر چلے گئے جہاں ایک فیکٹری میں نوکری شروع کر دی اور ساتھ ساتھ انجینیرنگ پڑھنا شروع کر دی۔ میں جب گود میں ہی تھا تو میرے نانا انتقال فرما گئے تھے ، لیکن امی سے سنا ہے کہ وہ تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے بلکہ جس زمانے میں وہ نوکری کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کر رہے تھے ، اس زمانے میں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی پڑھا کرتے تھے۔ میرے نانا بہت روشن خیال (تاریک خیال نہیں) واقع ہوے تھے اسی لیے انہوں نے اپنی بیٹی ( یعنی میری والدہ) کی پیدائش پر پتاسے بانٹے تھے جو شاید باقی چار بیٹیوں کی پیدائش پر نہیں کیا۔ میری والدہ کی تعلیم بی اے بی ایڈ کی ہے، اور میری والدہ نے بی ایڈ شادی کے بعد کیا تھا ، میری والدہ کی پیدائش ایک روشن خیال گھرانے میں ہوی تھی اور شادی ہونے کے بعد ایک ایسے گھرانے میں ہجرت کی جو نہ ہی روشن خیال تھا نہ ہی تاریک خیال، میری والدہ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو نویں کلاس سے ہی برقع پہننا شروع کر چکی تھیں ان پر نہ شادی سے پہلے کسی قسم کا زور تھا نہ شادی کے بعد ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے والد کے خاندان میں کوی بھی مکمل طور پر (چہری چھپا)  برقع نہیں کرتا بلکہ  کچھ لوگوں کو برقع بلکل بھی پسند نہ تھا جسکو میں نے اپنے بچپن میں بھی محسوس کیا اور ایک صاحب سے تو خود میں نے "نقابو" کا لفظ اپنی والدہ کے لیے سنا   جس پر انکو مجلس میں موجود (جن میں خواتین بھی تھیں) کسی نے نہ ٹوکا ۔
میری والدہ کو شادی کے بعد میرے والد صاحب نے اس معاملے میں ( میرے علم کے مطابق) کسی لحاظ سے تنگ نہیں کیا، بلکہ جب میری والدہ نے شرعی پردہ شروع کیا تب بھی کچھ منفی نہیں کہا گیا، میری والدہ نے بیٹوں کی پیدائش کے بعد اپنا بی ایڈ مکمل کیا اور کچھ عرصہ ایک دو سکولوں میں بطور معلمہ کے کام بھی کیا لیکن بعد میں چھوڑ دیا۔
یہ ساری کہانی بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں سکول کالجوں کی تعلیم کے بعد میری والدہ کا پردہ انکی اپنی پسند اور انتخاب تھا جو کسی نے ان پر تھوپا نہ تھا اور اتنا عرصہ نقاب کرنے کے باوجود بھی میری والدہ نے اسکو کسی قسم کی مصیبت نہ سمجھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انکے ایمان میں ترقی دی اور انہوں نے شرعی پردہ شروع کیا۔
عمومی طور پر تاریک خیالیوں کی جانب سے یہ شور سننے کو ملتا ہے کہ یہ عورت میں تھوپا جاتا ہے، اس دعوے کی سب سے پہلی بات ہی غلط ہے میرے نزدیک پاکستان میں اور خاص کر پنجابی عورت پر کچھ تھوپا نہیں جا سکتا (اگر کوی پنجاب والا ہے تو وہ جانتا ہو گا) کیونکہ پنجابی عورت ہی گھر کو چلاتی ہے، بلکہ میں نے لاہور میں بہت سی جگہوں پر دیکھا ہے کہ مرد کا کام صرف پیسے کما کر لانا ہوتا ہے، ان پیسوں کو کہاں اور کیسے خرچ کرنا ہوتا ہے یہ سب فیصلے عورت کے ہوتے ہیں ۔ بہت سی جگہوں پر بچوں کو والد صاحب سے تو کسی کام کی اجازت مل جاتی ہے لیکن والدہ کے ویٹو کی وجہ سے رہ جاتا ہے ۔ اسی لیے اگر کوی یہ کہے کہ عورت پر جبر کیا گیا ہے اس معاملے میں تو اسکو مجنوں کی بڑ کے علاوہ کچھ سمجھنا کم عقلی ہو گی، اسکی کئی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے بڑی یہ ہی ہے کہ نقاب کا تعلق مذہب اور دین سے ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں دین پر خود چلنے والوں کی تعداد ہی کیا ہے جو دین پر جبر کروانے والوں کی ہو گی ۔ بلکہ تجربے میں تو ایسے مولوی بھی دیکھنے کو آئے ہیں جنکی اپنی بیویاں پردے نہیں کرتیں اور پھر لوگ انپر انگلی اٹھا کر یہ بھی کہتے ہیں کہ مولوی کی اپنی بیوی پردہ نہیں کرتی دوسروں کو اسلام سکھاتا پھرتا ہے۔
ایک دفعہ ہماری انگریزی کی کلاس ڈسکشن میں استانی صاحب کہہ رہی تھیں کہ بہت سی چیزیں ہوتی ہیں جو مذہب کا حصہ نہیں ہوتیں اور لوگ انکو مذہب مان کر کرتے ہیں اور مثال دے دی نقاب کی ، ایک افغانی لڑکی نے بھی مس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دی ۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں کو ہی اس بارے میں قرآنی احکامات کا  کوی علم نہیں تھا بس ایویں یبلیاں چھوڑ رہی تھیں ، تو بہرحال میں نے ہاتھ کھڑا کر کے اپنی باری پر کہا کہ میم صاحب بات یہ ہے کہ قرآن میں حکم موجود ہے چہرہ چھپانے کا اور سورۃ احزاب کی وہ آیت پڑھ کر سنا دی ۔ اب جس طرح ہماری غیر مسلم استانی کا حال تھا وہی حال ہمارے تاریک خیال لوگوں کا ہوتا ہے کہ قرآنی احکامات اور دینِ اسلام کا علم نہیں ہوتا اور اپنی طرف سے ایویں کی یبلیاں مارنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اب جبکہ مغرب میں نقاب کو بین کرنے کا شور مچا ہوا ہے ، آزادی اظہار راے اور آزادی انتخاب کا شور مچانے والے صلیبی تاریک خیالیے اپنی اصلی رنگت دکھا رہے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اکھٹے ہو کر اسکا مقابلہ کریں۔ ایک جگہ پڑھا تھا کہ جب شدھی اور سنگھٹن کی تحریک زوروں پر تھی تو کسی نے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کو بتایا کہ فلاں گاوں کے مسلمان شدھی ہو گئے ہیں ، حضرت وہاں پہنچے اور گاوں کے مکھیا سے پوچھا کہ کیا ایسا ہوا ہے ، تو اسنے کہا کہ نہیں مولوی صاحب ہم لوگ کیسے شدھی ہو سکتے ہیں جب ہمارے یہاں تازیہ نکلے ہے ، تو مولانا صاحبؒ نے انکو تازیہ نکالنے کی اجازت دی تھی، بعد میں کسی نے پوچھا کہ تازیہ نکالنا تو بدعت ہے پھر آپ نے کیسے اجازت دے دی تو حضرت نے فرمایا کہ بے شک بدعت ہے لیکن ان لوگوں کے نزدیک اسلام کی علامت ہے اسی لیے اجازت دے دی  (کم و بیش اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو یہ واقعہ ایسے ہی مذکور ہے)  اسی لیے فلحال جو لوگ اس بحث میں پڑے ہوے ہیں کہ کیا چہرے کا پردہ ضروری ہے یا غیر ضروری ، اس سے نکلیں اور اسلام کے لیے اس بین کے خلاف کھڑے ہوں۔

فرانس میں ایک عورت کو برقع پہننے کے جرم میں پکڑا جا رہا ہے ۔ 
آخر میں یہ ایک ویڈیو ہے جس میں نہ صرف ایک روشن خیال آنٹی نے بلکہ سی این این کے غیر مسلم ہوسٹ نے بھی تاریک خیال آنٹی کی بینڈ بجا دی ۔

نوٹ : اسلام ایک روشن مذہب ہے اور اسلام پر چلنے والے روشن خیال ہیں اسی لیے اپنے آپ کو روشن خیال کہنے والی امریکی سونڈیوں کے لیے تاریک خیال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور اسکے استعمال کی آپکو بھی دعوت دی جاتی ہے ۔ 

Wednesday, April 13, 2011

روشن خیال اسلامی مبلغہ

جیسا کہ آپکو پتا ہو گا کہ میرے دوستوں کی فہرست بہت لمبی ہے ، بقول "ن" کے جس شہر کا نام لو وہیں میرا کوی نہ کوی دوست نکل آتا ہے ، مثال کے طور پر پچھلے دن وہ بتا رہا تھا کہ کچھ دوست کیوبا ہو کر آے ہیں بڑا مزے کا موسم تھا میں بھی جانا چاہتا ہوں ، میں نے چھوٹتے ہی کہا کہ میرے کچھ دوست ہیں وہاں میڈیکل پڑھ رہے ہیں، اس سے کچھ دن پہلے اس نے بتایا کہ اگر اچھی سفاری پر جانا ہے تو انسان کو کینیا جانا چاہیے تو میں نے اسکو بتایا تھا کہ میرا ایک دوست کینیا رہتا ہے اور وہاں شکار پر بھی جاتا ہے ۔ میرے دوست نہ صرف ہر جگہ پاے جاتے ہیں بلکہ  مختلف قسموں میں  بھی پاے جاتے ہیں۔

انہی قسموں میں سے ایک قسم روشن خیالی ہے ، جی ہاں کچھ فاشسٹوں کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ میرے کچھ دوست روشن خیال بھی ہیں اور شدید قسم کے روشن خیال، تو بہت سی روشن خیالی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں ، جن میں سے کچھ پاکستانی بیورو کریٹس ، فوجی افسران ، اور کسٹم کے علاوہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے عظیم کارناموں کا وسیع ذخیرہ  لیے ہوے ہیں جن میں سے کچھ تو میں نام اور جگہیں بدل کر بھی نہیں لکھ سکتا ۔

انہی میں سے ایک کہانی جو مجھے میرے روشن خیال دوست نے سنای

یار رمضان تھے تو ہمارے ساتھ کچھ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔" (روشن خیال خواتین غور کریں کہ روشن خیال مرد انکے بارے میں کیا سوچتا ہے ) چِل کرتی تھیں، میں بھی افطاری کے بعد سوٹے مارنے چلا جاتا تھا، ایک "۔۔۔۔۔۔۔۔" مسلمان تھی پاکستانی، اُس دن شراب کا گلاس ہاتھ میں پکڑا ہوا اور گوری کو اسلام سکھا رہی کہ اسلام کیا ہے اور مسلمان کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں، یار یہ مزے کی بات نہیں مزے کی بات تو تب تھی جب وہ بائیں ہاتھ میں گلاس پکڑ کر دائیں کو چاروں طرف گھما کر کہہ رہی تھی کہ ان سب سے زیادہ اسلام کا مجھے پتا ہے ۔

تو لیں جی یہ ہے روشن خیال اسلام کے مبلغ ، فلحال اسی کہانی سے مزے کریں ۔ 

Saturday, April 9, 2011

حکومتی زکوٰۃ اور مدارس

ایک صاحب نے اپنے بلاگ پر سٹیفن فلپ کوہین کی کتاب دی آئیڈیا آف پاکستان سے مدارس کے حوالے سے ایک اقتباس نقل کیا ہے ، جس میں میں بہت سی باتیں غلط اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ مدارس ضیاء الحق کے دور میں جب اس نے زکوٰۃ کا نظام شروع کیا تو پھیلے۔ مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ کے واقعات میں اپنی پچھلی پوسٹس میں نقل کرتا آیا ہوں۔ اس حوالے سے بھی مولانا صاحبؒ کا واقعہ پیش خدمت ہے ۔

جنرل ضیاء الحق نے بہت سی غلطیاں کی تھیں، ان میں سے ایک غلطی یہ بھی تھی کہ اس نے حکومتی سطح پر زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہم نے اس وقت بھی گرفت کی تھی کہ حکومت اس کی مجاز نہیں ہے۔ حکومت صرف جانوروں کی زکوٰۃ اور زمین کی پیداوار سے عشر وصول کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ نقد، پیسے اور سامان تجارت کی زکوٰۃ خود مالک اپنی مرضی سے دے گا اور ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومتی سطح پر وصول کی جانے والی زکوٰۃ اپنے مصرف میں خرچ نہیں ہوگی۔ کوی اس رقم سے گلیاں بنوائے گا، کوی الیکشن لڑے گا، کوی کچھ کرے گا، اور کوی کچھ کرے گا۔ ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے اور اب حکومت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ ضیاء الحق مشیروں کی اندرونی بات کو نہیں سمجھے ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ زکوٰۃ حکومت وصول کرے گی تو یہ دینی مدارس جو زکوٰۃ پر چل رہے ہیں، بند ہو جائیں گے، لیکن الحمداللہ کوی بھی بند نہیں ہوا، بلکہ مزید بڑھے ہیں۔ ان شریروں کی پالیسی کامیاب نہ ہوی۔ اس طرح ضیاء سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وفاق المدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کرام کو ایم اے کی ڈگری دیں، لیکن اس کے مشیر نہ مانے۔ علماء کو آگے نہیں آنے دیتے بلکہ کوشش کرتے ہین کہ علما کو اپنے تابع کر لیں۔ اس کے لیے بڑی کوشش کرتے اور منصوبے بناتے رہتے تھے۔ نصرۃ العلوم میں الحمداللہ اس وقت اٹھارہ سو طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں اور ستر افراد پر مشتمل عملہ ہے اور ان کا صدر مدرس اور نگران تعلیم میں ہوں۔ ہمیں حکومت نے پیش کش کی کہ آپ کے مدرسہ میں دورہ حدیث بھی ہوتا ہے، لہذا تمہیں چار لاکھ روپیہ سالانہ ملے گا۔ صوبے سے بھی اور مرکز سے بھی پیغام آیا۔ ہم نے انکار کر دیا کہ ہم حکومتی امداد نہیں لیں گے۔ انہوں نے دھمکی بھی دی کہ حکومت تمہیں گرفتار کرے گی۔ ہم نے کہا ، کرے گرفتار ، یہ کون سی بات ہے! ہم نے پہلے بھی قیدیں بھگتی ہیں۔ یہاں ہمارے صدر چوہدری اعجاز صاحب نے پہلے سال غلطی کی اور میری لاعلمی میں ایک سال کی زکوٰۃ وصول کر لی۔ میں ناراض ہوا کہ تم نے کیوں وصول کی؟ کہنے لگا، مجھے علم نہیں تھا۔ اس کے بعد آج تک حکومت سے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا۔

(ذخیرۃ الجنان جلد ۸ صفحہ ۲۴) 

Saturday, April 2, 2011

تصویر کا دوسرا رخ

تصویر کا دوسرا رخ
ہمارے ایک بلاگر دوست مکی نے خواتین پر لکھا ہے کہ انکے بغیر معاشرہ ، معاشرہ نہیں بلکل ویسے ہی جیسے  خواجہ صاحبؒ کہتے ہیں

تیرے بغیر زندگی موت ہے زندگی نہیں

خیر جی ہمارے بلاگی یار دوست خاص طور پر "فیمننسٹ" جن میں مرد بھی شامل ہیں اس کی بڑی تعریفیں کر رہے ہیں ، جی ضرور کریں میں بھی کروں گا بہت اچھا لکھا انہوں نے۔ لیکن انکی ہر بات سے اتفاق تو نہیں کیا جا سکتا نہ خاص طور پر وہ مطلب جو ہمارے تاریک خیالیے نکالتے ہیں ۔ ویسے بھی ہم غیرت برگیڈ والوں کا تو کام ہی جی اختلاف کرنا ہے ۔ خیر چھڈیں اس گل نوں۔

میں انٹرنیٹ پر آوارہ گردی کر رہا تھا کہ  تصویر کا ایک دوسرا رخ نظر آیا سوچا ساتھیوں کے ساتھ شیر کرنا چاہیے ۔

لڑکیوں کے بغیر زندگی

روڈ سنسان

مارکیٹ خالی

مبائل کمپنیاں نقصان میں

فری ایس ایم ایس ختم

گلاب نہیں

تحائف نہیں

پرفیوم ختم

اور

اور

اور

اور

سارے منڈے کھنڈے سیدھے جنت میں 

Friday, April 1, 2011

تاریک خیالیوں کا اسلام

مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ کی تفسیر سے ایک واقعہ میں اپنی گزشتہ پوسٹ میں دکھا چکا ہوں، تاریک خیالیے ہمشیہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ مولویوں نے پاکستان کا یہ کر دیا وہ کردیا، چونکہ تاریک خیالیوں کو مولویوں اور مولویوں کے اسلام سے بڑی چڑ ہے اسی لیے اس پوسٹ میں چند ایسے واقعات نقل کروں گا جنسے مولویوں کے بغیر تاریک خیالیوں کا اسلام نظر آے گا ۔

صدر ایوب خاں اور اسلام

۔صدر ایوب خاں ایک نام نہاد روشن خیالیہ تھا آئیے دیکھتے ہیں مولانا سرفراز خاں صفدرؒ کا اسکے زمانے میں کیا تجربہ رہا۔

"صدر ایوب خان کے زمانے میں عائلی قوانین کے ذریعے کچھ چیزیں خلاف شرع نافذ ہوئیں، جو ابھی تک نافذ ہیں۔ ان میں ایک شق یہ بھی تھی کہ مطلقہ غیر حاملہ کی عدت نوے دن ہے۔ ہم نے ملاقات کی کوشش کی۔ علماء کا ایک وفد تیار ہوا کہ اس کو بتائیں کہ یہ جو تمہارا حکم ہے، اس کی ایک شق قرآن کے خلاف ہے اور ایک شق اجماع کے خلاف ہے تو اسلامی ملک میں ایسا کام کرنا جو قرآن اور اجماع امت کے خلاف ہو، صحیح نہیں ہے ۔ لیکن اقتدار اقتدار ہوتا ہے ، اس کا نشہ بہت برا ہوتا ہے۔ ایوب نے کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے ۔ دودن کے بعد جاپان سے ناچنے والوں کا ایک طائفہ آیا جس میں کچھ عورتیں اور کچھ مرد تھے۔ ان کو ایوب نے وقت دے دیا۔ مولانا غلام غوث ہزارویؒ بڑے جرت مند آدمی تھے ۔ انہوں نے ایوب کو کھڑکا دیا کہ علماء کے لیے تو تیرے پاس وقت نہیں ہے اور ان ناچنے والوں کے لیے تیرے پاس وقت ہے۔ اس وقت ایوب نے حقارت سے "ملا" کا لفظ استعمال کیا تھا تو مولانا ہزارویؒ نے مسٹر کرنٹا کا لفظ استعمال کیا جو کافی دیر تک چلتا رہا، لیکن وقت نہ ملا۔ پھر ہم نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے حاجی اللہ دتہ صاحب مرحوم، حاجی ملک اقبال صاحب مرحوم اور صوفی نذیر احمد صاحب مرحوم اور میر محمد شفیع صاحب اور ہم نے ایک وفد تیار کیا۔ اس وقت چودھری صلاح الدین صاحب، حامد ناصر چٹھہ کے والد، یہ قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ ہم وفد کی شکل میں ان کے پاس گئے اور ملاقات کی اور ان کو کہا کہ دیکھو ، ہماری براہ راست ایوب خاں تک رسای نہیں ہوی اور ایک غلط کام ہوا اور اس کی تردید کوی نہ کرے تو ساری قوم گناہ گار ہوتی ہے۔ آپ ہمارے قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ یہ ہماری بات وہاں تک پہنچا دیں، تاکہ ہم بھی گناہ گار نہ ہوں اور ہماری پبلک بھی گناہ گار نہ ہو، کیونکہ غلط چیز کی تردید فرض کفایہ ہے جس طرح تبلیغ فرض کفایہ ہے ۔ اگر کچھ لوگ تبلیغ کریں تو باقی لوگ گناہ سے بچ جاتے ہیں اور اگر کوی بھی نہ کرے تو سارے گنہگار ہوں گے ۔ اسی طرح اگر باطل چیز کی تردید نہ کی جاے تو سب گنہگار ہوں گے۔ ہم نے ان کو سمجھایا کہ دیکھو، عائلی قوانین کی ایک شق یہ ہے کہ مطلقہ غیر حاملہ کی عدت نوے دن ہے اور قرآن پاک میں ایسی مطلقہ کا ذکر بھی ہے کہ جس کی عدت سرے سے ہی نہیں۔ مثلا ایک بچی کا نکاح ہوا اور رخصتی سے پہلے طلاق ہو گئی  تو اس پر عدت نہیں ہے ۔ پھر ہم نے اس مسئلے سے بھی آگاہ کیا کہ فقہی مسئلہ ہے کہ بعض عورتوں کے حالات مختلف ہوئے تو شرعی طور پر اس عورت کی عدت اٹھارہ ماہ کے بعد مکمل ہو، جبکہ تمہارا قانون یہ کہتا ہے کہ اس کی عدت بھی نوے دن ہے ۔ پھر میں نے یہ سمجھایا کہ وہ عورتیں جن کو ہر ماہ حیض آتا ہے اور امکان کے درجے مین ان کی عدت نوے دن بن سکتی ہے، یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ تین مہینے مسلسل تیس تیس دن کے ہوتے ہی نہیں، لہذا یہ قانون قرآن اور فقہ کے بلکل خلاف ہے ۔ چودھری صلاح الدین مرحوم نے ہماری بات سمجھی ۔ سمجھ دار وکیل تھے۔ ہماری گفتگو کو انہوں نے نوٹ کیا۔ پھر معلوم نہیں کہ انہوں نے ہماری بات ایوب تک پہنچائی نہ پہنچائی۔

(ذخیرۃ الجنان جلد ۲ صفحہ ۲۱۳ تا ۲۱۴)

روشن خیالی عقیدہ

بہت عرصہ ہوا کہ جھنگ شہر میں میری تقریر ہوی جو معجزات اور کرامات کے بارے میں تھی۔[ اس کے بعد گکھڑ میں میرے گھر پر] دو گاڑیاں آئیں۔ ان میں ایک عورت تھی اور باقی سب مرد تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے بچوں سے کہا کہ باہر دیکھو کون آیا ہے۔ کہنے لگے، باہر ایک عورت پردے والی ہے اور باقی سب اس کے ساتھ مرد ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کو بیٹھک میں بٹھا دو اور ان کو پانی وغیرہ پلاو۔ گرمی کا زمانہ تھا۔ ان کو بیٹھک میں بٹاھایا اور پانی وغیرہ پلایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ سب کہاں سے آئے ہین۔ کہنے لگے کہ جھنگ شہر سے۔ وہ عورت اس وقت ہیڈ آفیسر تھی یعنی ہسپتالوں کی انچارج تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں، ایک نے کہا کہ میں وکیل ہوں، ایک نے کہا کہ میں انجنیر ہوں۔ وہ سب بہن بھای تھے۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ لوگ میرے رشتہ دار نہیں ہیں۔ ان سب کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے! وہ عورت کہنے لگی کہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہمارے ایک بھای نے خود کشی کی ہے اور ہم نے اسکو زندہ کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کو مذاق کرنے کے لیے کوی اور ضلع نہیں ملا؟ آپ نے ضلع جھنگ طے کیا، پھر ضلع لائل پور طے کیا، پھر آگے شیخوپورہ طے  کیا اور گوجرانوالہ آئے ہو مذاق کرنے کے لیے! کہنے لگی کہ خدا کی قسم، ہم مذاق نہیں کر رہے۔ ہم سچ کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے بھای کو زندہ کر دیں۔ میں نے کہا کہ میرے والدین میرے سامنے فوق ہو چکے ہیں، اتنے عزیزوفات پا چکے ہیں، اگر میرے پاس کوی ایسی طاقت ہوتی تو میں ان کو کیوں مرنے دیتا؟ اگر مر بھی گئے تو میں ان کو زندہ کر دیتا۔ عورت بہت تیز تھی۔ کہنے لگی کہ دیکھو، مردوں کو زندہ کرنے کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس معجزہ تھا۔ اور بھی بہت سے ولیوں سے ثابت ہے۔ کہنے لگی کہ آپ نے ایک تقریر کی تھی، اس میں معجزات اور کرامات بیان کیے تھے۔ آپ دعا کریں، ہمارا بھای زندہ ہو جائے۔ میں نے کہا کہ  دیکھو، اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، چاہے تو سارے مردوں کو زندہ کر دے، لیکن میرے پاس ایسا کوی کام نہیں ہے۔ پھرمیں نے کہا کہ اتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں، لیکن عقیدہ نہیں ہے، عقیدے کچے ہیں۔

(خطبات امام اہلسنت جلد ۳ صفحہ ۲۴۹ تا ۲۵۰)

جیل میں عید کی نماز اور عید کی اذان

نوٹ : یہ واقعہ ۵۳ کی تحریک ختم نبوت کا ہے جب علماء کو جیلوں میں قید کر دیا گیا تھا۔

"جیل میں میرے (یعنی مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ کے ) استاد محترم حضرت مولانا عبدالقدیر بھی تھے۔ عید کا دن تھا۔ افسر ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ عید کی نماز پڑھائیں۔ ہم نے کہا کہ جی، جیل کے اندر نہ جمعے کی نماز ہے اور نہ عید کی نماز۔ جمعے کے لیے شرط ہے ازن عام، لوگ آجاسکیں۔ جیل میں ہم بی کلاس میں تھے اور دوسرے سی کلاس میں تھے ۔ ہم ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے تھے۔ ادھر اذن عام کا یہ عالم تھا کہ ہم سب کا ایک ہی جرم تھا، وہ بھی ختم نبوت کی تحریک میں آئے تھے اور ہم بھی ختم نبوت کی تحریک میں آئے تھے، لیکن ہمیں ان سے ملنے کی اجازت نہین تھی اور انھیں ہم سے ملنے کی اجازت نہین تھی۔ ہم نے جمعہ نہیں پڑھا ، عید بھی نہیں پڑھی۔ جہاں جمعہ نہیں وہاں عید نہیں۔ مولانا عبدالقدیر اوپر چڑھے تھے اور میں نیچے تھا۔ مولانا نے فرمایا۔ میاں! جلدی آو۔ یہ انکا تکیہ کلام تھا۔ بڑی لمبی چوڑی جیل تھی۔ میں دوڑا بھاگا سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر گیا۔ سامنے منظر نظر آتا تھا۔ فرمایا، میاں! دیکھو کیا کر رہے ہیں۔ عید کا دن تھا۔ افسر بھی خاصے تھے۔ سنٹرل جیل تھی۔ کئی علاقوں کے قیدی اور افسر بھی تھے۔ تو ادھر عید کے لیے اذان ہو رہی تھی۔ مولانا صاحب نے کہا کہ میاں دیکھو۔ فرمانے لگے کہ قیدیوں پر ہمارا کوی شکوہ نہیں۔ کوی چور ہے، کوی ڈاکو ہے، کوی قاتل ہے، کوی کچھ ہے ، کوی کچھ ہے۔ افسوس ان افسروں پر ہے جو دو سو سے زیاد ہیں، جیل کے سنٹرل آی جی بھی موجود تھے۔ افسوس ان پڑھے لکھے افسروں پر ہے جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ عید کی نماز کے لیے اذان نہیں ہوتی ۔

(خطبات امام اہل سنت جلد ۲ صفحہ ۲۴۹ تا ۲۵۰)

 کیا عورت انسان نہیں؟

تاریک خیالیوں کا ایک یہ بھی شعبدہ ہوتا ہے کہ جہاں کہی دین کی کوی بات انکی اپنی کھوٹی سمجھ میں نہ آے اس پر بھی مولویوں کو طعنے شروع ہو جاتے ہیں ، سمجھتے خود غلط ہیں اور طعنے مولویوں پر ایسے بہت سے کمنٹ اور مضامین بھی آپنے دیکھے ہوں گے ، مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ نے بھی تفسیر کے دوران سورۃ بقرۃ کے تحت اسی قسم کا ایک واقعہ سنایا جو حاضر خدمت ہے۔

میں بچیوں کو قرآن پڑھا رہا تھا تو ایک بی بی آگئی جو پروفیسر تھی۔ مجھے سے کہنے لگی کہ مولانا، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا کہ بی بی اس وقت بچیاں پڑھ رہی ہین۔ اس نے کہا کہ مجھے ذرا جلدی ہے، میں پوچھنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا، پوچھو کیا پوچھتی ہو۔ کہنے لگی کہ دیکھیے کہ امام ابو حنیفہؒ نے یہ کہا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں اعضا کے قصاص کے سلسلے میں مساوات نہیں، تو کیا امام صاحب عورتوں کو انسان نہیں سمجھتے؟ میں کہا کہ بیٹی، تم نے خود مسئلہ چھیڑا ہے، اب مجھے بھی کچھ بیان کرنا پڑے گا۔ میں کہا، دیکھو مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوی شخص کسی کی داڑھی مونڈ ڈالے تو اس کی پوری دیت یعنی سو اونٹ لازم آتی ہے۔ اب اگر ایک عورت کسی مرد کی ڈاڑھی مونڈتی ہے تو مرد اس کی ڈاڑھی کہاں سے موڈے گا، وہ کہاں ہے ؟ میں نے کہا کہ اچھا، تم نے مسئلہ چھیڑا ہے تو بتاو کہ ایک عورت مرد کے آلہ تناسل کو خصیتین سمیت کاٹ دیتی ہے تو مرد اس کی کون سی جگہ کاٹے گا؟ مرد اگر عورت کے سر کو مونڈ ڈالے اور ہو میرے جیسا ہو جو س منڈواے رکھتا ہو تو تم اس کی کون سی جگہ مونڈو گی؟ میں نے کہا کہ مرد کسی عورت کے پستان کاٹ دیتا ہے تو اب مرد کے پستان کہاں ہیں جو کاٹے جائیں گے؟ تو امام صاحب نے کوی غلط بات نہیں کہی، بلکل صحیح کہا ہے ۔ سب بچیاں جو پڑھتی تھیں، سر نیچے کر کے ہنستی تھیں۔ مین نے کہا کہ مسئلہ بیان کرنا ہے ۔ اس نے پوچھا ہے تو اب مجھے بتانا تو پڑے گا۔

(دورہ تفسیر قرآن، سورۃ بقرۃ، آیت نمبر ۲۸۲)


علماء کی سیاست میں مقبولیت


بہت سے تاریک خیالیے شوشے چھوڑتے ہیں کہ علماء کہ سیاست میں مقبولیت اس وجہ سے نہیں کہ وہ علماء سوء ہیں ۔ آیے دیکھتے ہیں کہ اصل وجہ کیا ہے ۔

۱۹۷۱ء میں جمیت علماءِ اسلام نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور دو حلقوں، گکھڑ، وزیر آباد کے حلقے اور شہر گوجرانوالہ کے حلقے میں استاد محترم مفتی عبدالواحد صاحبؒ کو کھڑا کیا گیا۔ ایک پر صوبائی کے لیے اور ایک پر قومی کے لیے۔ دیہاتی علاقوں میں ہمیں بھی جانا پڑتا تھا کیوں کہ میں اس وقت  جمیعت علماء اسلام ضلع   گوجرانوالہ کا امیر تھا۔ جمیعت کے ساتھ تعلق تھا۔ ۱۹۹۰ کے بعد بڑھاپے اور بیماریوں کی وجہ سے اور کچھ پالیسیوں کی وجہ سے جمعیت کے ساتھ نہیں ہوں اور نہ ہی کسی اور جماعت کے ساتھ ہوں۔ حضرت درخواستی زندہ تھے، میں نے ان کو اطلاع دے دی تھی کہ اب میرا کسی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ تو خیر، الیکشن کے سلسلے میں علی پور کے قریب ایک قصبہ میں پہنچے۔ سورج طلوع ہوے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ چودھری صاحب کے بارے میں معلوم کیا۔ نام انکا ڈائری میں درج ہے، زبانی مجھے یاد نہیں ہے۔ چودھری صاحب آئے اور بڑے خوش ہوے، کیوں کہ مجھے جانتے تھے، میری تقاریر بھی سنتے تھے اور مفتی عبدالواحد صاحب کو بھی جانتے تھے۔ کہنے لگے، آج میرے لیے عید کا چاند ہے اور دو عیدیں ہین، دو بزرگ ہمارے قصبے میں تشریف لائے ہیں، بڑی خوشی کی بات ہے۔ ہمارے ساتھ دس بارہ رضا کار بھی تھے ویگن بھری ہوی تھی۔چودھری صاحب نے پرتکلف ناشتہ کرانے کے بعد پوچھا کہ تم کس لیے آئے ہو؟ ہم نے بتایا کہ الیکشن لڑ رہے ہیں اور مولانا کو اس حلقہ میں کھڑا کیا ہے۔ آپ لوگوں کو اکٹھا کریں تا کہ ہم ان سے بات کریں۔ چودھری صاحب نے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ جب لوگ اکٹھے ہوے تو ہم نے تقریریں کیں۔بعد میں چودھری صاحب نے کہا: علماء کرام جی! اگر ناشتے میں کوی کمی ہوئی ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ دوپہر کا ک کھانا تم نے یہیں کھانا ہے۔ انشااللہ کھانے پینے کی کمی کو پورا کریں گے، مگر ووٹ ہم میں سے کوی ایک بھی تمہیں نہین دے گا۔ ہم بڑے حیران ہوے کہ چودھری صاحب تو بڑے خوش تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہمارے لیے عید کا چاند چڑھ گیا ہے اور اب کہتے ہیں کہ ایک ووٹ بھی نہیں دینا۔ بڑا کھرا آدمی تھا۔ کہنے لگا سنو! ہماری آپ میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ بنے پر، زمین پر، نالے پر، درخت پر، جانوروں پر، رشتوں پر۔ ہم سچے بھی ہوتے ہیں، جھوٹے بھی ہوتے ہیں، تم سارے کاموں میں ہمارا ساتھ دو گے؟ ہم نے کہا نہیں۔ تو کہنے لگا، پھر ہم نے ووٹ ان کو دینے ہیں کہ اگر ہم جھوٹے بھی ہوں تو ہمارا ساتھ دیں۔ ہم نے قتل بھی کیا ہو تو ہمارے ساتھ جائے اور کہے یہ قاتل نہیں ہیں۔ چوری کی ہو تو یہ کہے کہ تو بڑے پارسا ہیں۔ ڈاکہ ڈالا ہو تو کہے یہ تو ڈاکو نہیں ہیں۔ ہم نے ووٹ ایسے لوگوں کو دینے ہیں، اس لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ تمہیں مغالطے میں نہیں رکھنا چاہتے۔ اور شہری لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک آیا تو اس کو قسم اٹھا کر تسلی دے دی، دوسرا آیا تو اسکو قسم اٹھا کر تلسی دے دی۔ ایک کے سامنے قرآن اٹھا لیتے ہیں اور دوسرے کے لیے بھی قرآن سر پر رکھ لیتے ہیں۔ اندر کچھ اور ظاہر میں کچھ ہوتے ہیں ۔

(ذخیرۃ الجنان جلد ۸ صفحہ ۲۲۷)

نتیجہ

یہ بہت سے واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ تاریک خیالیے نہ تو اسلام کے بارے میں جانتے ہیں نہ ہی انکا اسلام پر عقیدہ پختا ہے، بہت سی ایسی باتیں جو انکی سمجھ میں نہیں آتیں انکو غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی لیے یہ کبھی بھی اس کے اہل نہیں کہ اسلام پر کچھ تبصرہ کر سکیں ، اور عوام کو ہمیشہ مولانا سرفراز خاں صفدرؒ جیسے جید علماء کی ضرورت رہے گی ۔