Thursday, March 31, 2011

محبت اب نہیں ہو گی۔!!!۔

سردی ہو یا گرمی ، ہمارا ایک ہی ڈیرا تھا، پاکستان برگر ہاوس پر سب سے پہلے ہمیں عاکف لے کر گیا تھا، میرے علاوہ سب کو وہاں برگر کھانا اچھا لگا تھا۔ برگر تو اس سے اچھا ہمارے محلے کا "بسم اللہ" ہی بنا لیتا تھا لیکن مجھے وہاں کی چپس تھوڑی اچھی لگی تھی ۔ لیکن دوسری دفعہ جب عاکف پھر ہمیں وہاں لے گیا تو اسکے بعد میں نے واپسی پر تحیہ کر لیا تھا کہ آئیندہ یہاں ہی آنا ہے اور بلکل اسی طرح دروازے کے سامنے بیٹھنا ہے ۔ میری اس حرکت کو سب سے پہلے سلیم نے محسوس کیا تھا اسکے بعد سب کو یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ میں وہاں برگر کھانے نہیں جاتا بلکہ وہاں سے گزرنے والی کو دیکھنے جاتا تھا ، چونکہ میری شخصیت ایسی ہی ہے ، اسی لیے میں نے بھی ایسا ہی محسوس ہونے دیا کہ میں وہاں انکے اصرار پر برگر کھانے جاتا ہوں بلکہ انہوں نے بھی مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ اصل وجہ وہ جان چکے ہیں۔

ہم چاروں ایک ہی سیٹ پر ہمیشہ بیٹھتے تھے ، اور وہ ہمیشہ میرے پیچھے سے آگے آتی تھی اسی لیے میں کبھی اسکا چہرہ نہیں دیکھ سکا ، پہلی دفعہ تو اسکے  چلنے کا انداز مجھے بہت ہی پسند آیا، کندھے پر پرس لٹکاے اور دونوں ہاتھوں میں پکڑی فائل کو لیے وہ اس انداز میں چلتی تھی جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوے چل رہی ہو۔ بعد میں مجھے یہ اندازہ بھی ہوا کہ اسکے لمبے سلکی بال  بھی  جب چلتے وقت ہلتے ہیں تو منظر اور زیادہ سہانہ ہو جاتا ہے ۔ ہفتے میں پانچ دن چھے سے سات بجے تک ہمارا ڈیرہ وہیں پر ہوتا تھا ، شروع میں تو کبھی عاکف اور موسیٰ پیسے دیتے تھے لیکن بعد میں وہاں جانے کی وجہ چونکہ میں ہی تھا اسی لیے یہ ذمہ داری بھی مستقل طور پر میرے کندھوں پر آن گِری تھی، اور اسکا مجھے کبھی افسوس بھی نہیں ہوا۔

مجھے رال ٹپکاتے بچے بہت برے لگتے ہیں، اور اگر بڑے بھی گِرا رہے ہوں تو افف اللہ اور مجھے بس میں سونے والے بھی بہت برے لگتے ہیں، صبح کے وقت تو اسی لیے کہ  میں سو کر اٹھتا ہوں اور چونکہ ساری رات اسکے خیالوں میں کٹتی ہے اسی لیے میری نیند پوری نہیں ہو پاتی اور ایسے میں کوی میرے سامنے بس میں سونے لگے تو مجھے بہت غصہ آتا ہے اور واپسی پر اسی لیے کہ میں چونکہ تھکا ہوا ہوتا ہوں سارا دِن ہینگر میں کام کر کے تو پھر کوی سامنے سو رہا ہو تو اور بھی زیادہ نیند آتی ہے ۔  لیکن اس وقت بس میں میرے ساتھ بیٹھے یہ خاتون  نہ تو صرف سو رہی تھی بلکہ ساتھ ساتھ رال بھی ٹپکا رہی تھی ۔ ویسے تھی تو میر ہی ٹائپ کی لیکن ایک تو وہ بس میں سو رہی تھی ، اوپری سے رال بھی ٹپکا رہی تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میری سب سے پسندیدہ شرٹ کا بھی ستیا ناس مار رہی تھی، بس یہ ہی وہ چند وجوہات تھیں جنہوں نے اسکو میری نظروں میں نیچا گِرا دیا۔

ابھی میں اپنی شرٹ کے خراب ہونے پر ہی کُڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک "گینگسٹر" ٹائپ لڑکے نے میرے کندھے پر زور سے  ہاتھ (اوے اٹھ یہاں سے )Yo man get upمار کر کہا
چونکہ میں بہت شریف واقع ہوا ہوں اور لڑائیوں اور پھڈوں سے ہمیشہ دور بھاگتا رہا ہوں اسی لیے اسکے لیے سیٹ چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی ، ویسے تو مجھے بس میں کھڑے ہونے سے سخت نفرت ہے لیکن اس دفعہ پتا نہیں کیوں امی کی نصیحتیں دوسروں کی مدد کرنے کے باب میں یاد آگئیں۔  شاید اس غنڈے نے مجھ سے سیٹ مانگتے وقت نہ تو میرا کندھا دیکھا نہ ہی اس نامعلوم  بدتہذیب حسینہ کے منہ سے نکلنے والی رال، چونکہ  اس نے اپنی جیکٹ ہاتھ میں پکڑ ی تھی اور ٹی شرٹ پہلے ہوے تھا اسی لیے اپنے کندھے پر نمی محسوس کر کے اسکو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اسنے غلطی کی ہے۔ ابھی وہ اپنے کندھے کی طرف دیکھ کر برے برے منہ بناتے ہوے یہ ہی سوچ رہا تھا کہ کیا کرے اچانک اس بدتہذیب حسینہ نے میری طرف انگلی اٹھا کر زور سے کہا کہ


"why would you leave me here , in this weather  and situation

(تم مجھے ایسے موسم اور ماحول میں یہاں کیسے چھوڑ سکتے ہو)ؕ


اور بس میں موجود فرنٹ سیٹ پر اپنی امی کی گود میں بیٹھی اس پیاری سی بچی سے لے کر درمیان والی سیٹ پر بیٹھے بابا جی سمیت سب کی نظریں مجھ پر گئیں، اور میری نظریں کھڑکی سے باہر۔ برف بھی پڑ رہی تھی اور تیز ہوا بھی چل رہی تھی  میرے خیال سے
“wind chill”
کے ساتھ منفی ۳۰ تو ضرور ہو گا۔
لیکن جس طرح اس سب کے ساتھ میرا جسم "
Chilled

ہوا تھا اسکے بعد تو درجہ حرارت ضرور منفی ۶۰ ہو گیا ہو گا ۔

میں تو سمجھا تھا سو رہی ہے لیکن یہ سالی تو ٹُن ہے اور وہ بھی فُل ٹائم ، صورتِ حال سے سنبھلتے ہوے ابھی میں یہ ہی سوچ رہا تھا جب اچانک بابا جی کہنے لگے۔

Why would you break up with such a nice girl
(تم ایسی اچھی لڑکی کے ساتھ رشتہ کیوں توڑ رہے ہو 

تو تو خود ہی لے جا اسکو ٹھرکی بابے، بابا جی کی بات پر میں یہ ہی سوچ رہا تھا جب اچانک ایک بچے کی آواز آئی۔

A bus will run over you and santa won’t give you any gifts،right mama
(تم ایک بس کے نیچے آجاو گے اور سینٹا کلاز تمہیں تحائف بھی نہین دے گا)ؕ


سب اسکی طرف تحسین بھری نظروں سے دیکھ رہے تحے جیسے اس نے کوی بڑا تیر مارا ہو جب اسکی ماما اسکے منہ پر ہاتھ رکھ رہی تھی۔ سالا، ابھی سے یہ حال ہے تو بڑا ہو کر کتنا بڑا رن مرید بنے گا یہ، میں یہ ہی سوچ رہا تھا جب بس اچانک ایک سٹاپ پر رکی، میں اللہ کا شکر کرتے وقت اترنے لگا ۔


Yo , take your girlfriend or I ma kick your butt right here maaannnn !!!!
(اوے اپنی گرل فرینڈ کو لے کر جا ورنہ میں تمہارے پچھوڑے پر لات ماروں گا)ؕ


گینگسٹر جو پہلے ہی اپنے کندھے کی وجہ سے کافی غصہ میں تھا اب اور غصے میں نظر آتا تھا ، میں نے بھی سوچا کہ چلو رات کے 
۱۲ بجے بیچاری کے ساتھ پتا نہیں کیا ہو جاے میں نے اسکو بازو سے پکڑ کر بس سے باہر کھینچنا شروع کر دیا ۔


بس ڈرائیور جو بابا جی کی نصیحت اور بچے کی وارننگ سن کر بیک ویومر سے دیکھتے ہوے صورتِ حال کو سمجھنے کے بعد میرے اس لڑکی کو لے کر باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ میں اسکو گھسیٹ کر دروازے کے طرف لے جا رہا تھا جب اسنے اچانک اپنا پرس اوپر اچھال کر بے ڈھنگی سی آواز میں گانا شروع کر دیا


All my scars are open
Tell them I was happy
(میرے تمام زخم پھر سے ہرے ہو گئے انکو بتا دینا کہ میں خوش تھی)؛ؕ


میں نے دائین ہاتھ سے اسے پکڑتے ہوے بائین سے اسکا پرس اٹھایا اور بس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوا، سالی ، آواز نکلتی نہیں اورریہانہ بنی پھرتی ہے ، میں نے اسکی طرف دیکھ کر سوچا اور پھر گھسیٹنے لگا۔ وہ اچانک نیچے بیٹھ گئی اورنشے میں ہی سو گئی ، میں نے اپنے بیگ کو کندھوں سے اتار کر آگے گردن میں لٹکا دیا اور اسکا بیگ اپنے میں ڈال لیا۔ میرے پاس اسکو اپنے کندھے پر


Piggy back ride


دینے کے علاوہ کوی چارہ نہین تھا ، میں اس لڑکی کو لے کر جیراڈ اور یونیورسٹی پر اترا تھا ویسے تو میرا ارادہ جیراڈ جا کر کشمیری چائے سے لطف اندوز ہونا تھا کیونکہ بقول موسیٰ کے وہاں ایک دکان رات ۳ بجے تک کھلی رہتی ہے ، لیکن فلحال "بے سٹریٹ" کراس کر کے میں ڈیلٹا موٹل تک ہی گیا۔میں نے موٹل میں جا کر ایک کمرا لیا اور کاونٹر پر کھڑے رسیپشنسٹ نے میری طرف معین خیز نظروں سے دیکھ کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ جما لی جو مجھے بلکل بھی اچھی نہیں لگی۔ میں اسکو کمرے میں لے کر گیا تو اسکو ہلکا سا ہوش آیا وہ عجیب عجیب سے شکلیں بنا رہی تھی، میں نہیں سمجھ پایا کہ اسکو کیا ہوا ہے اچانک اس نے ایک ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا اور پھر میری طرف دیکھا میں صورتِ حال سمجھنے کی کوشش میں اسکو غور سے دیکھ رہا تھا ، اچانک اسکی آنکھیں بہت زیادہ کھل گئیں اور اسنے ایک دم سے اپنے منہ سے ہاتھ ہٹایا اور اُلٹی کر دی جو سب میرے پر گری کیونکہ میں اسکے سامنے کھڑا ہوا تھا۔ میری شرٹ جسکا وہ پہلے بس میں ستیاناس مار چکی تھی اور بیکار کر دیا، میں ابھی اس صورت حال سے سمبھل نہیں پایا تھا کہ اچانک وہ بیڈ کی طرف جا کر لڑھک کر بیڈ پر گِر گئ،میں نے ٹِشو سے اسکا منہ صاف کیا اور اپنے آپ کو صاف کرنے کے لیے واش روم میں چلا گیا۔

خیر میں نے بہت تحمل سے اپنی شرٹ کو پانی سے صاف کیا اور نیچے سے استری لے کر آیا جو خوش قسمتی سے مجھے رشیپسنسٹ نے دے دی، میں نے اپنی شرٹ کو استری کر کے پہنا ہی تھا کہ اچانک فون بجنے لگا، میں نے اپنا فون چیک کیا لیکن یہ میرا فون نہیں تھا مجھے اچانک لڑکی کے بیگ کا خیال آیا،یہ لڑکی کا ہی فون تھا جو بج رہا تھا ۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ شیلا کہاں ہے ، میں نے کہا میرے پاس ہی سو رہی ہے ۔ اس نے پوچھا تم کہاں ہو، میں نے کہا کہ ڈیلٹا موٹل میں جو کہ یونیورسٹی اور ینگ پر ہے ۔ اسی وقت فون کٹ گیا، میں نے بٹن بند کرنے شروع کیے اور فرش کو صاف کرنا شروع کر دیا اچانک ایک دم سے دروازہ کھلا اور پولیس اندر آگئی، میں جو پہلے ہی ڈرا ہوا تھا اور بھی ڈر گیا۔


بعد میں مجھے پتا چلا کہ لڑکی جو اپنے بواے فرینڈ سے لڑای ہونے کے بعد خوب پی کر ٹُن ہو گئی تھی، اور چلی آی تھی، اسکے بواے فرینڈ نے فون کر کے اسکی بہن کو بتایا کہ اسطرح وہ ٹُن ہے اور خود ہی چلی گئی ہے انہوں نے اسکو جہاں وہ تلاش سکتے تھے تلاشا لیکن وہ نہ ملی اور پھر انہوں نے اسکے موبائل پر فون کیا جو میں نے اُٹھایا اور انکو بتا دیا کہ میں کہاں ہوں ، انہوں نے ساتھ ہی پولیس کو بھی فون کر دیا اور خود بھی پہنچ گئے ، بہرحال میری بچت ہو گئی کیونکہ میں جس ٹائم بس سے اترا تھا اور جب تک ہوٹل پہنچا اور پھر وہاں جو کچھ ہوا اسکا ثبوت بھی موجود تھا اسی لیے پولیس نے مجھ سے تھوڑی بہت پوچھ گچھ کی اور نام پتا پوچھ کر چھوڑ دیا اور میں جان بچی سو لاکھوں پاے کا نعرہ لگاتے ہوے گھر گیا۔


اگلے دن پھر ہم سب برگر ہاوس موجود تھے ، میں نے ساری کہانی عاکف وغیرہ کو بتای وہ کوک کے سِپ لیتے ہوے میرا اور بھی مذاق بنانے لگے ، میں جو پہلے ہی واقعہ کہ وجہ سے تپا ہوا تھا انکے مذاق اڑانے کی وجہ سے اور بھی تپ گیا، ابھی میں غصے میں انکو قہقہے لگانے سے روکنے لگا تھا کہ وہی لڑکی ویسے ہی گزری، اور میں نے اسکو دیکھتے ہی جوش کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ آج تو میں اس سے بات کر کے ہی رہوں گا،میں سپرائٹ کا خالی کین زمین پر زور سے مارتے ہوے باہر نکلا وہ سلکی بالوں والی تھوڑی آگے جا چکی تھی میں نے پیچھے سے جا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا

Hey listen, I really like you , I think I am in love with you
(ہے سنو، میں تمہین بہت پسند کرتا ہوں ، میرا خیال ہے میں تم سے پیار کرتا ہوں

اس نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا ، آواز میرے گلے میں اٹک گئ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا گلا گھٹنے لگا ہے اور میری سانس بھی رک گئی ، پتا نہیں اچانک کہاں سے میرے اندر طاقت آی اور میں نے بھاگنا شروع کر دیا ، اور واپس برگر ہاوس میں آگیا۔ عاکف ، سلیم اور کاشف جو پہلے ہی میرے ایسے بھاگنے پر حیران تھے اور حیران ہوے اور پوچھا کہ کیا ہوا، میں نے زور زور سے سانس لیتے ہوے انکو بتایا کہ یار یہ تو وہی تھی کل رات والی شیلا، اور عاکف ، سلیم اور کاشف ایک دفعہ پھر قہقہے لگانے لگے اور جب میں کاونٹر سے ایک اور سپرائٹ لینے جا رہا تھا پیچھے سے کاشف کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی 


محبت اب نہیں ہو گی  ،،،، یہ کچھ دن بعد میں ہو گی ۔ 

مولوی اور معاشرے کی خرابیاں

ایک صاحب نے اپنے بلاگ میں پاکستان میں ساری خرابیوں کا ذمہ دار مفتیوں کو ٹہرا دیا ہے ، یہ کوی نئی بات نہیں دنیا دار لوگ ہمیشہ دین داروں کو ہر خرابی کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔ مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ نے تفسیر کے دوران ایک اسی قسم کا واقعہ سنایا ہے جو حاضر خدمت ہے ۔

کافی پرانی بات ہے ۔ پاکستان بنے ابھی تیرہ چودہ سال ہوے تھے۔ ایک بڑا موٹا ڈی سی ہوتا تھا۔ اس نے ایک اسکول میں معززین شہر کو جمع کیا اور مولویوں کو بھی بلایا ۔ مجھے بھی دعوت ملی، میں بھی گیا۔ اس نے تقریر کی اور معاشرے کی خرابی کی ذمہ داری ساری مولویوں پر ڈال دی کہ یہ لوگ اصلاح نہیں کرتے۔ میں نے اٹھ کر کہا کہ ڈی سی صاحب! آپ ہمارے ضلع کے بڑے افسر ہو اور اس وقت ہمارے مہمان ہو، ہم آپ کی قدر کرتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ یہ سینما گھر مولویوں نے بنوائے ہیں یا حکومت نے؟ یہ مینا بازار اور جمعہ بازار مولوی لگواتے ہیں یا تم؟ یہ مخلوط تعلیم مولویوں نے شروع کی ہے یا تم نے؟ یہ کلب مولویوں نے کھلوائے ہیں یا تم نے؟ مجھے ایک ساتھی نے کہا، ڈی سی ہے۔ میں نے کہا، جب اس نے بات کی ہے تو مجھے بھی کرنے دو ۔ سارا نزلہ مولوی پر گرتا ہے۔ مولوی کے پاس زبان کے سوا اور ہے کیا ؟ طاقت تمہارے پاس، حکومت تمہارے پاس، اور ڈنڈا تمہارے پاس، اختیارات تمہارے پاس، یہ سارے بدمعاشی کے اڈے تم نے قائم کیے ہیں۔ اخبارات میں غلط قسم کی خبریں چھپتی ہیں جن کو پڑھ کر نوجوان طبقہ ڈاکو بنتا ہے، وہ اخبارات تمہارے کنڑول میں ہیں۔ آج اکثریت ڈاکووں کی کالجیٹ ہے۔ حکومت ان کو ملازمت نہیں دیتی، انکی مدد نہیں کرتی، وہ یہی کام کرتے ہیں۔ جاہل اور ان پڑھ ڈاکو بہت کم ہیں۔ تم مولویوں کو کوستے ہو اس میں مولوی کا کیا گناہ ہے ؟
(ذخیرۃ الجنان جلد ۵ صفحہ ۴۹)

Wednesday, March 30, 2011

پاکستان کی ہار ، ذمہ دار کون۔

رحمان ملک صاحب کا تازہ ترین بیان آیا ہے ۔

"پاکستان کی ہار کے پیچھے القاعدہ ، طالبان اور سپاہ صحابہ کا ہاتھ ہے ۔ امریکہ اور فوج کو چاہیے کہ انکے خلاف ایکشن لے "

تھوڑی دیر کے بعد ہی وزیر قانون کا بیان آیا " پاکستان کی ہار کے ذمہ دار دو طالبان  سپاہ صحابہ کے تین کارکن  گرفتار کر لیے گئے ہیں اور بنیادی تفتیش شروع کر دی گئی ہے "

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب شعیب کو کہا گیا تھا کہ تم میچ میں حصہ نہیں لو گے تو اس نے روتے ہو بدعا دی تھی کہ "اللہ کرے میرے بغیر تم میچ ہی ہار جاو" اور پاکستان کی ہار اس بد دعا کا اثر ہے ۔

کچھ  ماہرین کا کہنا ہے کہ گیلانی صاحب پاکستان کی ہار کے ذمہ دار ہیں اگر وہ  سٹڈیم میں نہ جاتے نہ ہی وہاں پاکستان کے حق میں نحوست پھیلتی نہ ہی پاکستان ہارتا، کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ اسنے انڈیا کو خوش کرنے کے لیے میچ فکس کروا دیا ہو۔
ایک تاریک خیالیے پاکستانی بلاگر نے اپنے ایک انگریزی مارکہ بلاگ پر خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان ہار گیا تو یہاں کے شدت پسند پکڑ کر ہندوں کو مارنا شروع کر دیں گے میرے خیال سے اسی تاریک خیالے لبرل فاشسٹ کی اس بکواس کو غلط ثابت کرنے کے لیے قدرت نے پاکستان کو میچ ہروا دیا۔

میرا جو مضبوط نظریہ ہے وہ یہ کہ انڈین ٹیم پاکستان کی منتیں کرتی رہی تھی کہ اگر تم میچ جیت گئے تو بجرنگ دل اور شیو سینا والے ہمیں بھی "مانی" کی طرح مار دیں گے ، اور میڈیا اتنا پریشر ڈال دے گا کہ ہمیں اس سے نکلنے کے لیے ایک اور ہوٹل پر حملہ کروانا پڑے گا اور سیاسی فضا بھی خراب ہو گی ۔ پاکستانی ٹیم اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھی اسی لیے خاص طور پر گیلانی کو انڈیا بلایا گیا اور منموہن نے بھی منتیں کی کہ ہمارے کرکٹر مارے جائیں گے ۔ اسی لیے پاکستانی ٹیم نے ان پر ترس کھا کر میچ ہار گئے ، آپ نے میچ ہارتے ہوے پاکستانی کھلاڑیوں کو ہنستے ہوے بھی دیکھا ہو گا ایک مسلمان کے چہرے پر دوسروں کی جان بچاتے وقت ایسی ہی خوشی ہوتی ہے ۔

ویسے بھی ہم تو پاکستانی ہیں اور ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے ہمیں کرکٹ سے کیا لینا ؟ ہیں جی ۔۔۔ 




Tuesday, March 22, 2011

ہیلی میں بیٹھنے کا صحیح طریقہ

مسٹر کے آج ہمیں ہینگر میں کھڑے دو یہلی کاپٹرز کے پاس لے گئے ، اور دونوں کی دموں کے درمیان کھڑا کر کے کہا کہ تمہارے سر پر ایک ٹوپی ہے اور ہاتھ میں ایک لنچ باکس ہے تمہیں ہیلی کاپٹر پر بیٹھنا ہے کیسے بیٹھو گے ۔ سب سے پہلے اے نے اپنا سر نیچھے کیا اور اپنے بازوں کو سینے سے چپکا کر جھک کر آگے بڑھا، ابھی وہ دو قدم ہی چلا ہو گا کہ مسٹر کے نے آواز لگا دی کہ واپس آجاو تم مر چکے ہو۔ اے واپس آگیا اور بولنے لگا مسٹر کے نے اسو کہا کہ چپ کر جاو تم مر چکے ہو ، دیکھو مرا ہوا آدمی بول رہا ہے ، پھر مجھے اشارہ کیا کہ اب تمہاری باری ہے میں نے خیالی ٹوپی کو سر سے اتارا اور اے کی طرح بازوں کو سینے پر چپکا کر جھک کر چلا، ابھی میں دو قدم ہی چلا تھا کہ مسٹر کے کی آواز آگئی کہ تم مر چکے ہو واپس آجاو۔پھر این کی باری تھی اسکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، سامنے دوسرے سال والے کھڑے ہنس رہے تھے مسٹر کے نے ان سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا ، انہوں نے کہا کہ ہم بھی مر گئے تھے ۔ پھر مسٹر کے نے پوچھا کہ بتاو تم لوگ مرے کیوں تھے ، تو پتا چلا کہ ہم  دو ہیلی کی دم کی بیچ میں کھڑے تھے ، اور کبھی بھی چلتے انجن والے ہیلی کے پاس نہیں جانا چاہیے ۔ پھر مسٹر کے ہمیں ہیلی کے سامنے لے گئے اور ایک دوسرے سال والے کہ کہا کہ تم پائلٹ ہو اندر بیٹھو ، وہ اندر بیٹھ گیا اور پھر ہمیں دکھایا کہ پہلے پائلٹ سے "اکھیاں لڑانی " ہیں اور پھر جب وہ سب اچھا کا اشارہ دے تو ہیلی میں جانا ہے ۔
کالج کے ہینگر میں موجود ہیلی کی ایک تصویر جو میں نے واپسی پر جلدی میں کھینچی 


Saturday, March 19, 2011

جاگ پاکستانی جاگ یا سوجا پاکستانی سوجا

کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ پاکستانیوں کو جگانے کے لیے ایک بڑی آفت کی ضرورت ہے ، پچھلے دن کسی نے مجھ سے پوچھا ایک سونامی کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ میں نے وہی کہا جو مجھے کہنا چاہیے تھا کہ بلکل بھی نہیں سونامی کی کوی ضرورت نہیں ، پہلے بھی زلزلے آے تھے اور سیلاب بھی آچکے یہ بے ضمیر مردہ لوگ تب بھی موجود تھے اور زلزلے کے پیسوں سے گھروں پر ڈشز لگای ہوی ہیں اور سیلاب پر پی آی اے والوں نے بڑا سامان مارا ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایک حملے کی ضرورت ہے  جی ہاں ایک زبردست قسم کا حملہ اور وہ بھی دشمن ملک کی طرف سے ۔ کیونکہ طوائفوں کو تب ہی اپنی جان پر بنتی نظر آے گی، کیونکہ انکو پتا ہے کہ پھر ہمیں بھی صدام کی طرح لٹکایا جاے گا ۔

انقلاب

لوگ بات کرتے ہیں انقلاب کی ، مجھے تو ہنسی آتی ہے کہ کونسا انقلاب ، ایک انقلاب تو آچکا ہے وہ فحاشی کا خاموش انقلاب۔ جس میں نئی نسل کو اردو نہیں آتی، لیکن ہندی ضرور آتی ہے ، نئی نسل بریڈ پٹ کے بارے میں ایک ایک بات جانتی ہے لیکن اسکو یہ نہیں پتا کہ صحابہ کون تھے، نئی نسل ، جو یہ تو جانتی ہے کہ گائتری منتر کیا ہے  لیکن یہ نہیں جانتی کہ نماز میں رکوع کرنے کا صحیح طریقہ کونسا ہے ، نئی نسل ، جو گائتری منتر تو جانتی ہے ، لیکن حسان بن ثابت کی شاعری نہیں جانتی ، یہ نئی نسل جس کو سٹارپلس دیکھ کر پوچا کرنا بھی آتا ہے اور مائیں اسکو بڑے فخر سے بتلاتی ہیں، آہ ہماری نئ نسل جس سے انقلاب کی امید رکھی گئی ہے ۔


مردہ قومیں کبھی انقلاب نہیں لایا کرتیں، احساسِ کمتری کی ماری ہوی قومیں کبھی انقلاب نہیں لایا کرتیں، کافروں کے طریقہ کار پر چلنے اور انکی زندگی کو مکمل طور پر اپنانے کی خواہش رکھنے والا مسلمان کونسا انقلاب لاے گا ؟؟؟ اسی لیے پاکستان میں کبھی انقلاب نہیں آسکتا۔ ہاں ایک انقلاب ہے اسلامی انقلاب  اور اسکے لیے ایک مولوی کو لیڈر بنانا پڑے گا اور مولوی کو ہم برداشت کیسے کریں گے ۔

کیونکہ ہمیں  ڈنڈا بردار شریعت نا منظور ہے





جی ہاں مولوی تو ابھی تک ٹخنے ڈھانکنے پر لگے ہوے ہیں اور امریکہ میں بیگی پینٹوں کا فیشن بھی گزر گیا جس میں آدھی پینٹ جوتوں میں رُل رہی ہوتی تھی۔ دیکھو کتنے بیک ورڈ ہیں مولوی ، انکے لائے ہوے انقلاب کو ہم کہاں تک لے کر جائیں گے ؟؟؟؟ ابھی تک تو یہ ۱۴۰۰ سال پیچھے ہیں ۔ اسلام ہم صرف ڈیمن ڈیوسوں کو نکالنے کے لیے استعمال کریں گے اور بس، اسکے علاوہ اسلام ہمیں منظور نہیں ۔ ہمیں تو برقعے والی آنٹی بچے کو قرآن پڑھاتی اتنی بری لگتی ہے اور وہ بھی بس میں تو جی ہمیں مولوی ایک لیڈر کی حثیت سے کب راس آے گا ؟؟؟؟ ۔
دندو تیرے خون سے انقلاب آے گا


(دندو: سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے)


گنجو تیرے خون سے انقلاب آے گا


طافو تیرے خوں سے انقلاب آے گا

میڈیا

ہمارا میڈیا تو آزاد ہے جی ، بلکل آزاد ۔ میڈیا کی آزادی کا جب میں سنتا ہوں تو بے اختیار ہنسی میرے منہ سے نکلتی ہے اور فوراً ایک صوفی مولوی کا شعر یاد آجاتا ہے جس میں وہ اللہ سے کہہ رہا ہے کہ

تم اپنی قید میں لے لو کہ ہم آزاد ہو جائیں

یہ ہی آزادی میڈیا کی ہے ، پہلے کا میڈیا وہی خبریں نشر کرتا تھا جو حکومت چاہتی تھی اور موجودہ، وہ خبریں نشر کرتا ہے جو امریکہ چاہتا ہے ۔ اس میں ہمارا قصور نہیں ہے ، یہ سارا قصور محمد بن قاسم کا ہے ، اسکو کیا پڑی تھی کہ سمندر پار کر کے آے اور آکر ہندوں سے لڑے اور اس  سے بھی بڑھ کر مسلمان آباد کرنا شروع کر دے ۔ اب اتنا عرصہ ہندوں میں رہنا تو کچھ تو حرکتیں انکے جیسی کرنی تھیں، اور یہ وہی کچھ ہے یعنی چھوٹے خدا سے ترقی کر کے بڑے خدا کی غلامی تک ، پہلے میڈیا کا خدا حکومت تھی اب میڈیا کا خدا امریکہ ہے ۔ اور ہمارا میڈیا وہی کچھ نشر کرے گا جو امریکہ بہادر چاہے گا ۔ اسی لیے ہم سی این این اور بی بی سی اور خاص طور پر فاکس نیوز سے کاپی پیسٹ کرنا کبھی نہیں چھوڑ سکتے ۔

ڈرون حملے

آج سب کے سب رو رہے ہیں کہ جرگے پر ڈرون حملہ ہو گیا، لو جی اس میں رونے والی کونسی بات ہے ڈرون حملے تو پہلے بھی ہوتے تھے ، پٹھان تو پہلے بھی مرتے تھے۔ اچھا ہوا دہشت گرد مارے گئے ، آج جب سب لوگ کہتے ہیں کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہیے میں کہتا ہوں کہ ڈرون حملے اور ہونے چاہیے ، صرف قبائیلی علاقوں تک نہیں ، اسلام آباد میں بھی ڈرون حملہ ہونا چاہیے ، لاہور کراچی  میں بھی ہونا چاہیے ، کیا وہاں دہشت گرد نہیں بستے ؟؟؟ الطاف بھای اتنے عرصے سے شور مچا رہے ہیں کہ یہاں دہشت گرد آگئے لیکن  ایک ڈرون حملہ نہیں ہوا کتنے افسوس کی بات ہے ۔ پنجابی طالبان نام اتنا مشہور ہو گیا ہے لیکن پنجاب میں کوی ڈرون حملہ نہیں ہوا ۔ 

دو بلاگ Two Blogs

BlogSpot provides more than one blog in one account so I thought that I should have another blog for my English posts. So I made one and transferred all my English posts on to it. So if you want to read my English posts you can go to my English blog from my profile.


بلاگسپاٹ ایک اکاونٹ میں ایک سے زیادہ بلاگز بنانے کی اجازت دیتا ہے، اسی لیے میں نے انگریزی میں بلاگیاں مارنے کے لیے الگ اکاونٹ بنا لیا ہے ۔ میں اس بلاگ کو خالص اردو رکھنا چاہتا تھا اسی لیے سوچا ایک الگ بلاگ انگلش کے لیے ہونا چاہیے ۔ میرے خیال سے تو یہ اچھا آئیڈیا ہی ہے ۔ اسی لیے جو حضرات اور خواتین انگریزی بلاگیاں پڑھنا چاہتے ہیں وہ میری پروفائل سے انگیریزی والے بلاگ میں چلےجائیں۔

Wednesday, March 16, 2011

کیا یہ کُھلا تضاد نہیں؟؟؟



آج مجھے پتا نہیں کیوں سہیل وڑائچ صاحب کی یاد آرہی ہے ، آپ حیران ہوں گے کہ امتحانات کے دوران مجھے اتنی سخت یاد کیوں آرہی ہے بلکہ میرا تو دل کر رہا ہے کہ ابھی "سیٹ کام" اور "پی اے سسٹم" کے ساتھ دماغ خراب کرنا چھوڑ کر فوراً یوٹیوب پر جاوں اور ایک دِن جیو کے ساتھ لگا لوں۔ اصل وجہ ساری یاد کہ انکا ایک سوال ہے جسکا آخر کچھ اس قسم کا ہوتا ہے " کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ؟" میں جب بھی پروگرام دیکھ رہا ہوں اور یہ سوال آجاے تو میں اسکو پاز کر کے امی کو بلاتا ہوں اور پھر چلاتا ہوں جب میں نے دو تین دفعہ ایسا کیا تو ایک دن امی نے پوچھا کہ " کیا یہ لوگوں کے تضاد ہی ڈھونڈتا رہتا ہے ؟"اس وقت میرے دماغ میں بھی یہ سوال گردش کر رہا ہے ۔

خیال کریں کہ آپ نے ایک جاسوس پکڑا ہے ، بڑے اعلیٰ پاے کا دوسرے ملک کا جاسوس ۔ اب کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ملٹری اس کو نظر انداز کر کے کہے کہ ہم عدلیہ پر چھوڑتے ہیں ؟؟؟ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جب سارے بڑے بڑے جاسوس تم نے پچاس روپے لے کر ، چاے پانی کا خرچہ لے کر ، بچوں کے لیے مٹھای کے پیسے لے کر مجرموں کو چھوڑنے والی ہجڑا پولیس کے لیے چھوڑنے ہیں تو یہ "ایم آی " (ملٹری انٹیلی جنس" اور "آی ایس آی " (انٹر سروسز انٹیلی جنس) تیل بیچنے کے لیے بنای ہیں ؟؟؟؟

دیکھیں جی طوائف تو طوائف ہی ہوتی ہے ، چاہے وہ پچاس روپے لے کر کسی بس ڈرائیور کے ساتھ چلی جاے یا دس ہزار لے کر کسی ایم این اے یا کسی بڑے بزنس میں کے ساتھ ، رہے گی تو وہ طوائف ہی نہ۔ اب میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ اس ملک کا کیا بنےگا جسکو طوئف چلا رہی ہو ، ویسے ڈیمن ڈیوس تو پہلے دن ہی چُھٹ جاتا لیکن طوائف اپنا ریٹ بڑھا رہی تھی۔ اور ریٹ بڑھوانے کے لیے کو تُرپ کا پتا تو ہونا چاہیے نہ ۔

خیر ہمیں اس سے پریشان ہونے کی کوی ضرورت نہین ، شیدا اور طافا اب پھر تھڑے پر بیٹھ کر صرف گلاں باتاں ہی کر رہے ہوں گے ۔ اور جی ایچ کیو میں ریٹ بڑھوانے کے طریقے ڈِس کس ہو رہے ہوں گے ، قاف لیگیے مونس الہیٰ کو باہر نکلوانے کے لیے پپلیوں سے ڈیل کریں گے ، اور ہمارے گنج شاہ صاحب کسی پنڈ میں جا کر تصویریں کھچوائیں گے ۔ اگلے دن تحریکِ انصاف والے نمبر ٹانگنے کے لیے جماعتیوں کے ساتھ لاٹھی چارج میں ڈنڈے کھائیں گے صورت حال کو سمبھالنے کے لیے امریکن فیکٹری سے تازہ تازہ تیار شدہ طالبان ایک اور سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو جہنم واصل کر کے دس امریکن میڈ تنظیموں کی طرف سے شائع شدہ پمفلٹ پھینک کر طالبان کا ڈر بٹھلائیں گے ۔ اور پھر ایک بیروکریٹ کی بیٹی امریکی یونیورسٹی سے تازہ تازہ فاضل ہو کر شدت پسند ملا اور مولویوں اور طالبان کے خلاف اپنے انگریزی بلاگ میں لکھے گی ۔ اگلے دن امریکی ایمبسی میں شرابی محفل کے دوران اس کے ابا کو امریکی کاونسلیٹ آفیسر ترقی کی خوشخبری سنا رہی ہو گی ۔ اور اسی وقت امریکی آرمی ایک اور عافیہ صدیقی کو پکڑ کر لیجا رہی ہو گی

لیکن ہمیں اس سب سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں شیلا اور جاوید عاطف اسلم کے کانسرٹ میں جا رہے ہوں گے ، شیدا اور طافا آج پھر تھڑے پر بیٹھے نرگس کے ٹمھکوں پر داد دے رہے ہوں گے ، عنیقہ آنٹی کو آج پھر بس میں ایک آنٹی برقع میں بچے کو قرآن پڑھاتی نظر آئیں گی اور تنقید کا ایک اور موضوع شروع ہو جاے گا۔

Sunday, March 13, 2011

پاکستان کے ترقی نہ کرنے کی وجوہات


پاکستان کے سب سے سمارٹ ،عقل مند لوگ ڈاکٹر اور انجینیر وغیرہ بن جاتے ہیں



انسے کم سمارٹ لوگ سی ایس ایس کا امتحان دے کر ڈاکڑ اور انجنیرز سے اوپر کے درجے میں چلے جاتے ہیں




انسے کم سمارٹ لوگ ملڑی جوائن کر کے کچھ سالوں میں سی ایس ایس والوں سے بھی اوپر کے درجے میں چلے جاتے ہیں



انسے کم سمارٹ لوگ سیاست میں چلے جاتے ہیں اور تھوڑے عرصے بعد فوج کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں



اور جو سب سے کم عقل مند اور پڑھے لکھے ہوتے ہین وہ اپنے گینگ اور مافیا بنا لیتے ہیں اور سب سے اوپر والے درجے پر چلے جاتے ہیں


نوٹ: تصویریں ادھر ادھر یعنی گوگل سے نکال کر لگای گئی ہیں ، اگر آپ کی سائٹ سے بھی کوی آگئی تو بڑی مہرباندری ۔

Friday, March 11, 2011

کاش میں گندے پانی کا جراثیم ہوتا



آہ یہ کتنا خوبصورت ہے۔!!!۔

یقیناً میں ایسے "نعرے" کی طرف توجہ نہ کرتا اگر یہ اس خوبصورت لڑکی کی طرف سے نہ ہوتا جسکی طرف بار بار میری نظریں جاتی تھیں۔( کیا آپ اس پر یقین کریں گے ؟؟؟)۔ خیر ، سائنس کی کلاس میں ہمارا کام مائیکرو سکاپ میں گندے پانی کے جراثیم دیکھنا تھا۔ اور کلاس کی سب سے خوبصورت لڑکی ( میرے نزدیک کم سے کم )نے اچانک زور سے آواز لگائی " آہ یہ کتنا خوبصورت ہے" اور ایک دم سے میں نے مڑ کر دیکھا تھا ۔ ۔۔۔۔ خیر ۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر وصی شاہ وہاں ہوتا تو کہتا

کاش میں گندے پانی کا جراثیم ہوتا
تو مجھے اپنے ہاتھوں سے ٹیسٹ پلیٹ پر رکھتی
اور پھر مائیکرو سکاپ سے دیکھ کر میری تعریف کرتی
اور میں پھولا نہ سماتا اور ضرور چھلانگ لگاتا
تو اچانک ڈر کر چیخ مارتی اور
میں تیرے چہرے پر اڑنے والی ہوائیوں سے لطف اندوز ہوتا
کاش میں کسی گندے پانی کا جراثیم ہوتا

Thursday, March 10, 2011

کتابوں سے رغبت

مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں سکول سے گھر جا رہا تھا ، اس زمانے میں مجھے عمران سیریز پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ تو بس میں بھی میں وہ ہی پڑھ رہا تھا ، ایک انکل نے اچانک مجھ سے پوچھا کیا پڑھ رہے ہو ، میں نے انکو بتایا کہ حضرت والا یہ عمران سیریز ہے ، بس اتنا سننا تھا کہ انکل نے مجھ سے چھین لی ۔ انکل میرے ساتھ میرے گھر جانے پر تل گئے کہ تمہارے گھر جاوں گا اور تمہارے گھر والوں کو بتاوں گا کہ تم عمران سیریز پڑھتے ہو ۔ اتنی سی بات تھی کہ ارد گرد بیٹھے تمام انکل اپنی نصیحتوں کے پٹورے لے کر بیٹھ گئے ، کوی انکل اپنی جیب سے ایک پین نکال کر اسکے خواص و فضائل بیان کرنا شروع ہو گئے کہ اچھے اچھے پین خریدا کرو ، اور کوی انکل مجھے حساب اور بیالوجی کی کتابوں کے فضائل بیان کرنا شروع ہو گئے ۔ آخر میں بڑی مشکل سے مجھے میری عمران سیریز واپس ملی ۔ ویسے وہ میں نے ایک حافظ صاحب سے ادھار لی تھی پڑھنے کے لیے ۔

بات تو اتنی سی ہی ہے ، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کتاب پڑھنے سے روکنے کا یہ رویہ کیسا تھا ؟؟؟ چلیں اگر انکو عمران سیریز اچھی نہیں لگتی تھی تو وہ مجھے اچھی کتابوں کے بارے میں بتاتے ۔۔ میرے خیال سے یہ ہی وہ رویہ ہے کہ جسکی وجہ سے آدھا پاکستان جاہل گنوار اور کتابوں سے بھاگنے والا ہے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے سکول مین ایک لائیبریری بھی تھی ، اور اسکے شیلف میں کتابیں بھی تھیں اور میرے تین سال کے عرصے میں ، شاید میں نے اسکو ۱ یا ۲ دفعہ کھلا دیکھا ہو گا ۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سکول والے کتنی محنت کرتے ہیں بچوں کو کتابوں کا شوق دلانے کے لیے ۔ اور یہاں پر کتنی ہی دفعہ کلاس سے ٹیچر اٹھا کر لے گیا ہے کہ چلو لائیبریری اور ہر بچے کو ایک کتاب اٹھانی ہے ۔

ہمارے یہاں بچوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جاتا ہے اسی لیے ایک سسٹم یہ بھی ہے کہ "آدھی چھٹی" کے بعد تیسرے پیریڈ میں ایک بیس منٹ کا سیشن ہوتا ہے "ڈراپ ایوری تھنگ اینڈ ریڈ" یعنی ہر چیز چھوڑ کر کچھ بھی پڑھو ، اور بچوں کو کچھ بھی پڑھنا ہوتا ہے ان بیس منٹ میں کوی کتاب اخبار سے مضمون وغیرہ ۔ پاکستانیوں کی تو کیا ہی بات سکول میں ایک مسجد بھی تھی لیکن ایک دفعہ پورے تین سال میں بچوں کو کلاس سے نکال کر ظہر کی نماز کے لیے مسجد لیجایا گیا تھا وہ بھی شاید ہیڈ ماسٹر صاحب کو جوش آگیا ہو گا ۔ اس سے پاکستان کے تعلیمی نظام کی گراوٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔