Wednesday, June 29, 2011

دیسی اور غیر دیسی ماں باپ کا فرق


اگر آپ کبھی خریدادی پر جائیں تو ارد گرد کے لوگوں پر نظر رکھنے سے آپ کو بہت سے عجیب تجربات حاصل ہوں گے ، کچھ دن پہلے ایک دُکان پر ایک دیسی انکل اپنے دو بچوں کے ہمراہ دیکھے ، انکا بچہ کوی ایک ڈالر والی چیز اُٹھائے انکے پیچھے پیچھے پِھر رہا تھا اور رو رہا تھا کہ خرید دیں ، لیکن انکل نہ صرف اسکو ڈانٹ رہے تھے بلکہ چیز واپس رکھنے کا بھی کہہ رہے تھے ۔ اگر ایسا غربت کی وجہ سے بھی تھا تو ایک ڈالر سے انکی غربت کو کیا فرق پڑنے والا تھا ؟؟؟
آج اُسی دُکان میں ایک ہی وقت میں دو آنٹیاں آئیں ، دونوں کے ساتھ دو دو بچے تھے ، دیسی آنٹی کی دو بیٹیاں ساتھ تھیں ، جن میں ایک بہت پیاری سی سہمی ہوی صورت والی چھوٹی بچی تھی  اُسنے ایک چھوٹے بھالو پر ہاتھ رکھ دیا کہ یہ خریدنا ہے ، آنٹی نے جھڑکنے والے انداز میں کہا کہ "تمکو تو سب کچھ ہی خریدنا ہوتا ہے " بچی نے ہلکی سی ضد کی تو اسکو وال مارٹ سے بڑے والا خریدنے پر ٹرخا دیا گیا ، میں سوچ رہا تھا کہ جو ماں اپنی بچی کو ایک ڈالر والا بھالو خرید کر نہ دے رہی ہو وہ وال مارٹ سے بڑا اور مہنگا کیسے اور کیونکر خرید کر دے گی ۔
خیر یہ آنٹی تو اپنا سامان خرید کر چلی گئیں ، دوسری آنٹی جو شکل و صورت سے کینیڈین ہی لگتی تھیں لیکن لہجے سے کچھ اور معلموم ہوتی تھیں ، وہ اپنا سامان خرید رہی تھیں کہ انکے چھوٹے بیٹے نے انہی بھالوں میں سے ایک کو پکڑ کر دیکھنا شروع کر دیا ، آنٹٰی نے اس سے پکڑ کر وہ بھی سلیز مین کے آگے کر دیا کہ یہ بھی دے دو ، بچے نے واپس لے کر رکھ دیا کہ مجھے چاہیے نہیں میں تو ویسے ہی دیکھ رہا تھا ۔

10 comments:

  1. سلام انکل
    ہو سکتا ہے کسی وقت انسان کی جیب اجازت نہ دیتی ہو کے وہ بچے کی ضد پوری کر سکے
    آپ ایک ڈالر کی بات کرتے ہو کسی کسی ٹائم انسان کے حالات ایسے بھی ہو سکتے ہیں کے اس کے پاس پچاس سینٹ بھی نہ ہوں
    اور میرے محدود علم کے مطابق شاید دنیا میں کوئی بھی ایسا ماں باپ نہ ہو جو اپنے بچے کی ضد یا پھر کوئی خواہش پوری نہ کرنا چاہے
    سب ماں باپ کا ہی دل کرتا ہے کے ان کے بچے کی ہر خواہش پوری ہو اور پوری کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن کبھی کبھی کچھ مجبوریاں آڑے آ جاتی ہیں

    ReplyDelete
  2. پہلی بات تو یہ کہ شاپنگ کرنے بندہ جائے تو شاپنگ ہی کرے۔ البتہ چونکہ میں بھی دیسی ہوں اسلئے تانکا جھانکی (اور ساتھ ساتھ بیگم کی جھڑکیاں بھی( چلتی رہتی ہیں۔
    میں نے کئی گوروں کو بھی ایسا کرتے دیکھا ہے، یہ صرف دیسیوں کا معاملہ نہیں ہے۔ اصل بات تربیت کی ہے۔ میرے ایک دوست کے بچے ہر دکان پر انکے ساتھ پہنچ جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ لینے کی ضد کرتے ہیں۔ چند لمحوں بعد وہ چیز گاڑی یا گھر کے کسی کونے کھدرے سے بر آمد ہوتی ہے کہ بچوں کا مقصد اپنی ضد پوری کروانا ہوتا ہے، چیز کا استعمال نہیں۔
    ایک کھلونوں کی دکان (جو کافی بڑی بڑی ہوتی ہیں یہاں( پر دیکھا کہ ایک بچہ والدین کے ساتھ کھلونوں کی قیمتیں دیکھ دیکھ کر چل رہا تھا کہ ماں باپ نے اسے اسکا بجٹ بتا دیا تھا۔

    ReplyDelete
  3. آپ نے مجھے میرے فٹبال شیوز کے سٹڈ یاد کرا دیئے

    ReplyDelete
  4. بعض بچوں کی ایسی ہی عادت ہوتی ہے کہ کسی دوکان پر جائیں تو ضرور کسی کھلونے کی ضد کرتے ہیں ایک چھوٹا بچہ جو کہ میرا نواسہ بھی ایک قسم کا لگتا ہے تو وہ جب بھی باپ کے ساتھ دوکان پر جاتا ہے تو بس کوئی کھلونا لے کر ہی آتا ہے۔

    لیکن پھر کیا ہوتا ہے کہ جناب جب اس کے ساتھ کھیل کھیل کر تھک جاتا ہے تو پھر اسکو توڑ کر پھینک دیتا ہے۔

    اسی لئے میرے خیال میں بعض لوگ بچے کی ہر خواہش پوری نہیں کرتے یا بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ باپ یا ماں سمجھتی ہے کہ یہ کھولنا خریدنا فضول پیسوں کا ضیاع ہوتا ہے، کیونکہ ظاہر ہے ہر کھولنا تو خریدنے کے لایق بھی نہیں ہوتا۔

    ReplyDelete
  5. مجھے نہیں یاد کہ ہم نے اپنے والدین سے کوئی ایسی ضد کی ہو جسکو وہ پورا نہ کر سکتے ہوں یا پھر پورا بھی کر سکتے ہوں تو ان پر بے جا بوجھ پڑے
    شائد اسکی وجہ یہ تھی کہ ہماری لوئر مڈل کلاسی کا ہمیں اچھی طرح احساس ہو گیا تھا یا دلا دیا گیا تھا
    فیصل کی بات سے میں بالکل متفق ہوں کہ ساری بات تربیت کی ہے
    اور انکے تبصرے کی آخری دو لائنیں اسکی بہترین مثال ہیں

    ReplyDelete
  6. ميں آٹھويں جماعت ميں پہنچا ہی تھا [اپريل 1950ء] کہ والد صاحب نے گھر کا سودا سلف لانا ميرے ذمہ کر ديا ۔ ميرے ساتھ بہت سے حادثات پيش آئے ہيں جن کے نتيجہ ميں ميری سرزنش ہوتی رہی کہ وہاں فلاں سودا لے رہی تھيں اُنہوں نے سلام کيا اور آپ نے جواب نہيں ديا ۔ تم نمعلوم کس خيال ميں کھوئے ہوئے جا رہے تھے فلاں نے گذرتے ہوئے تمہيں سلام کيا مگر تم نے ديکھا تک نہيں ۔ ميرا ہميشہ ايک ہی جواب ہوتا تھا ميں سودا لينے گيا تھا لوگوں سے ملاقات کرنے نہيں ۔ اب جاننے والے مجھے اچھی طرح جان چکے ہيں ۔ جس نے مجھے مخاطب کرنا ہوتا ہے ميرا بازو پکڑ کر مخاطب کرتا ہے يا ميرے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا

    ReplyDelete
  7. بات تربیت کی بھی ٹھیک ہے لیکن وہ بچہ ہی کیا جو ضد نا کرے۔ جہاں تک بات تربیت کی ہے ہم چار بھائیوں میں سے میں سب سے مختلف ہوں۔ شاہد میں اپنی لوئر مڈل کلاسی کو اپنے سر پر زیادہ ہی سوار کر چکا تھا۔ لیکن باقی بھائیوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اب اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اپنی خواہش اپنے دل میں ہی رہنے دیتا تھا اور کبھی ضد تو کیا کبھی کوئی فرمائش ہی نہیں کی تھی۔

    لیکن جب بھائی کے ہاں امام عالم اور عبدالاحد پیدا ہوئے تو اس وقت میری تنخواہ 15 سو روپے تھی۔ جس میں میرا مہینہ بہت مشکل سے گزرتا تھا۔ اب جب بچے بھائی کے ساتھ کہیں باہر جاتے تو بھائی ان کو بے شمار چیزیں لے کر دے دیتے۔ لیکن جب بچے میرے ساتھ جاتے تو زیادہ سے زیادہ دس روپے کی چیزیں ہی لیتے تھے۔

    ReplyDelete
  8. Aoa bhai jan Hm yahan jo egg use krte Hn Wo 4 dollar k 12 milte Hn or yahan jis mehnat se peisa kamaya jata hai us me Allah k karam se dal roti Hi rahe tu bari baat hai

    ReplyDelete
  9. میں ابھی بھی مکمل طور پر اس چیز کو سمجھ نہیں پایا ہوں ، کچھ ساتھیوں نے غربت کی بات کی ہے جو کہ پھر بھی سمجھ آتی ہے لیکن تربیت کے بارے مین اگر کوی ساتھ مجھے تھوڑا سمجھا دیں تو شاید میرے لیے یہ چیزیں سمجھنے کو آسانی رہے ۔

    ReplyDelete
  10. استطاعت ہونے کے باوجود بچوں کی ہر خواہش ہر دفعہ پوری کرنا بھی ٹھیک نہیں ہوتا، اس بات کو وہ ماں سمجھتی تھی اسی لیے اس نے یہی لفظ دہرائے۔ ہوسکتا ہے جس نے نہیں لے کر دیے اس کے گھر پہلے سے ایسے کھلونوں کا ڈھیر لگا ہو۔

    غیر دیسی ماں یا ماڈرن ماں کی وجہ سے اولاد کی تربیت اور خاندانی زندگی میں جس طرح فساد آیا ہے وہ کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے ۔ یہ عورت بچوں کو آئس کریم برگر کھلا کر اور مرضی کے کھلونے اور گیم کھلوا کر تو خوش کرسکتی ہے انکی ایک ماں کی طرح دینی و اخلاقی تربیت نہیں کرسکتی اور نہ اس کے لیے اسکے پاس اس کام کے لیے کوئی وقت ہے۔ اسکو اپنے مشاغل سے فرصت نہیں۔ الا ماشا اللہ۔

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.