اگر آپ کبھی خریدادی پر جائیں تو ارد گرد کے لوگوں پر نظر رکھنے سے آپ کو بہت سے عجیب تجربات حاصل ہوں گے ، کچھ دن پہلے ایک دُکان پر ایک دیسی انکل اپنے دو بچوں کے ہمراہ دیکھے ، انکا بچہ کوی ایک ڈالر والی چیز اُٹھائے انکے پیچھے پیچھے پِھر رہا تھا اور رو رہا تھا کہ خرید دیں ، لیکن انکل نہ صرف اسکو ڈانٹ رہے تھے بلکہ چیز واپس رکھنے کا بھی کہہ رہے تھے ۔ اگر ایسا غربت کی وجہ سے بھی تھا تو ایک ڈالر سے انکی غربت کو کیا فرق پڑنے والا تھا ؟؟؟
آج اُسی دُکان میں ایک ہی وقت میں دو آنٹیاں آئیں ، دونوں کے ساتھ دو دو بچے تھے ، دیسی آنٹی کی دو بیٹیاں ساتھ تھیں ، جن میں ایک بہت پیاری سی سہمی ہوی صورت والی چھوٹی بچی تھی اُسنے ایک چھوٹے بھالو پر ہاتھ رکھ دیا کہ یہ خریدنا ہے ، آنٹی نے جھڑکنے والے انداز میں کہا کہ "تمکو تو سب کچھ ہی خریدنا ہوتا ہے " بچی نے ہلکی سی ضد کی تو اسکو وال مارٹ سے بڑے والا خریدنے پر ٹرخا دیا گیا ، میں سوچ رہا تھا کہ جو ماں اپنی بچی کو ایک ڈالر والا بھالو خرید کر نہ دے رہی ہو وہ وال مارٹ سے بڑا اور مہنگا کیسے اور کیونکر خرید کر دے گی ۔
خیر یہ آنٹی تو اپنا سامان خرید کر چلی گئیں ، دوسری آنٹی جو شکل و صورت سے کینیڈین ہی لگتی تھیں لیکن لہجے سے کچھ اور معلموم ہوتی تھیں ، وہ اپنا سامان خرید رہی تھیں کہ انکے چھوٹے بیٹے نے انہی بھالوں میں سے ایک کو پکڑ کر دیکھنا شروع کر دیا ، آنٹٰی نے اس سے پکڑ کر وہ بھی سلیز مین کے آگے کر دیا کہ یہ بھی دے دو ، بچے نے واپس لے کر رکھ دیا کہ مجھے چاہیے نہیں میں تو ویسے ہی دیکھ رہا تھا ۔
سلام انکل
ReplyDeleteہو سکتا ہے کسی وقت انسان کی جیب اجازت نہ دیتی ہو کے وہ بچے کی ضد پوری کر سکے
آپ ایک ڈالر کی بات کرتے ہو کسی کسی ٹائم انسان کے حالات ایسے بھی ہو سکتے ہیں کے اس کے پاس پچاس سینٹ بھی نہ ہوں
اور میرے محدود علم کے مطابق شاید دنیا میں کوئی بھی ایسا ماں باپ نہ ہو جو اپنے بچے کی ضد یا پھر کوئی خواہش پوری نہ کرنا چاہے
سب ماں باپ کا ہی دل کرتا ہے کے ان کے بچے کی ہر خواہش پوری ہو اور پوری کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن کبھی کبھی کچھ مجبوریاں آڑے آ جاتی ہیں
پہلی بات تو یہ کہ شاپنگ کرنے بندہ جائے تو شاپنگ ہی کرے۔ البتہ چونکہ میں بھی دیسی ہوں اسلئے تانکا جھانکی (اور ساتھ ساتھ بیگم کی جھڑکیاں بھی( چلتی رہتی ہیں۔
ReplyDeleteمیں نے کئی گوروں کو بھی ایسا کرتے دیکھا ہے، یہ صرف دیسیوں کا معاملہ نہیں ہے۔ اصل بات تربیت کی ہے۔ میرے ایک دوست کے بچے ہر دکان پر انکے ساتھ پہنچ جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ لینے کی ضد کرتے ہیں۔ چند لمحوں بعد وہ چیز گاڑی یا گھر کے کسی کونے کھدرے سے بر آمد ہوتی ہے کہ بچوں کا مقصد اپنی ضد پوری کروانا ہوتا ہے، چیز کا استعمال نہیں۔
ایک کھلونوں کی دکان (جو کافی بڑی بڑی ہوتی ہیں یہاں( پر دیکھا کہ ایک بچہ والدین کے ساتھ کھلونوں کی قیمتیں دیکھ دیکھ کر چل رہا تھا کہ ماں باپ نے اسے اسکا بجٹ بتا دیا تھا۔
آپ نے مجھے میرے فٹبال شیوز کے سٹڈ یاد کرا دیئے
ReplyDeleteبعض بچوں کی ایسی ہی عادت ہوتی ہے کہ کسی دوکان پر جائیں تو ضرور کسی کھلونے کی ضد کرتے ہیں ایک چھوٹا بچہ جو کہ میرا نواسہ بھی ایک قسم کا لگتا ہے تو وہ جب بھی باپ کے ساتھ دوکان پر جاتا ہے تو بس کوئی کھلونا لے کر ہی آتا ہے۔
ReplyDeleteلیکن پھر کیا ہوتا ہے کہ جناب جب اس کے ساتھ کھیل کھیل کر تھک جاتا ہے تو پھر اسکو توڑ کر پھینک دیتا ہے۔
اسی لئے میرے خیال میں بعض لوگ بچے کی ہر خواہش پوری نہیں کرتے یا بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ باپ یا ماں سمجھتی ہے کہ یہ کھولنا خریدنا فضول پیسوں کا ضیاع ہوتا ہے، کیونکہ ظاہر ہے ہر کھولنا تو خریدنے کے لایق بھی نہیں ہوتا۔
مجھے نہیں یاد کہ ہم نے اپنے والدین سے کوئی ایسی ضد کی ہو جسکو وہ پورا نہ کر سکتے ہوں یا پھر پورا بھی کر سکتے ہوں تو ان پر بے جا بوجھ پڑے
ReplyDeleteشائد اسکی وجہ یہ تھی کہ ہماری لوئر مڈل کلاسی کا ہمیں اچھی طرح احساس ہو گیا تھا یا دلا دیا گیا تھا
فیصل کی بات سے میں بالکل متفق ہوں کہ ساری بات تربیت کی ہے
اور انکے تبصرے کی آخری دو لائنیں اسکی بہترین مثال ہیں
ميں آٹھويں جماعت ميں پہنچا ہی تھا [اپريل 1950ء] کہ والد صاحب نے گھر کا سودا سلف لانا ميرے ذمہ کر ديا ۔ ميرے ساتھ بہت سے حادثات پيش آئے ہيں جن کے نتيجہ ميں ميری سرزنش ہوتی رہی کہ وہاں فلاں سودا لے رہی تھيں اُنہوں نے سلام کيا اور آپ نے جواب نہيں ديا ۔ تم نمعلوم کس خيال ميں کھوئے ہوئے جا رہے تھے فلاں نے گذرتے ہوئے تمہيں سلام کيا مگر تم نے ديکھا تک نہيں ۔ ميرا ہميشہ ايک ہی جواب ہوتا تھا ميں سودا لينے گيا تھا لوگوں سے ملاقات کرنے نہيں ۔ اب جاننے والے مجھے اچھی طرح جان چکے ہيں ۔ جس نے مجھے مخاطب کرنا ہوتا ہے ميرا بازو پکڑ کر مخاطب کرتا ہے يا ميرے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا
ReplyDeleteبات تربیت کی بھی ٹھیک ہے لیکن وہ بچہ ہی کیا جو ضد نا کرے۔ جہاں تک بات تربیت کی ہے ہم چار بھائیوں میں سے میں سب سے مختلف ہوں۔ شاہد میں اپنی لوئر مڈل کلاسی کو اپنے سر پر زیادہ ہی سوار کر چکا تھا۔ لیکن باقی بھائیوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اب اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اپنی خواہش اپنے دل میں ہی رہنے دیتا تھا اور کبھی ضد تو کیا کبھی کوئی فرمائش ہی نہیں کی تھی۔
ReplyDeleteلیکن جب بھائی کے ہاں امام عالم اور عبدالاحد پیدا ہوئے تو اس وقت میری تنخواہ 15 سو روپے تھی۔ جس میں میرا مہینہ بہت مشکل سے گزرتا تھا۔ اب جب بچے بھائی کے ساتھ کہیں باہر جاتے تو بھائی ان کو بے شمار چیزیں لے کر دے دیتے۔ لیکن جب بچے میرے ساتھ جاتے تو زیادہ سے زیادہ دس روپے کی چیزیں ہی لیتے تھے۔
Aoa bhai jan Hm yahan jo egg use krte Hn Wo 4 dollar k 12 milte Hn or yahan jis mehnat se peisa kamaya jata hai us me Allah k karam se dal roti Hi rahe tu bari baat hai
ReplyDeleteمیں ابھی بھی مکمل طور پر اس چیز کو سمجھ نہیں پایا ہوں ، کچھ ساتھیوں نے غربت کی بات کی ہے جو کہ پھر بھی سمجھ آتی ہے لیکن تربیت کے بارے مین اگر کوی ساتھ مجھے تھوڑا سمجھا دیں تو شاید میرے لیے یہ چیزیں سمجھنے کو آسانی رہے ۔
ReplyDeleteاستطاعت ہونے کے باوجود بچوں کی ہر خواہش ہر دفعہ پوری کرنا بھی ٹھیک نہیں ہوتا، اس بات کو وہ ماں سمجھتی تھی اسی لیے اس نے یہی لفظ دہرائے۔ ہوسکتا ہے جس نے نہیں لے کر دیے اس کے گھر پہلے سے ایسے کھلونوں کا ڈھیر لگا ہو۔
ReplyDeleteغیر دیسی ماں یا ماڈرن ماں کی وجہ سے اولاد کی تربیت اور خاندانی زندگی میں جس طرح فساد آیا ہے وہ کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے ۔ یہ عورت بچوں کو آئس کریم برگر کھلا کر اور مرضی کے کھلونے اور گیم کھلوا کر تو خوش کرسکتی ہے انکی ایک ماں کی طرح دینی و اخلاقی تربیت نہیں کرسکتی اور نہ اس کے لیے اسکے پاس اس کام کے لیے کوئی وقت ہے۔ اسکو اپنے مشاغل سے فرصت نہیں۔ الا ماشا اللہ۔