نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر
مجھے دین کی الحمداللہ اتنی سمجھ بوجھ ہے کہ میں تھوڑی سی تحقیق اور جستجو کے بعد صحیح اور غلط میں فرق کر سکوں۔ میرے دینی مسائل پر کچھ مطالعہ اور علماء کی تکنیکی کتب کو سمجھنے کا تجربہ بھی ہے اسی تجربے کی بنیاد پر میں نے ایک اصول بنایا ہے، وہ یہ ہے کہ جب بھی کوی تاریک خیالیہ ، نام نہاد روشن پرست یا جدید اسلام کا پیروکار آپ سے بحث مباحثہ کرے گا وہ قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں اپنی سمجھ اور عقل سے استدلال کر کے مطلب بیان کرے گا یا اسی طرح اپنے دور کے کسی جدت پسند نام نہاد مولوی یا علامہ کا حوالہ دے گا ۔ جو اصول میں نے بنایا ہے وہ یہ کہ آپ فوراً اس سے کہیں کہ مجھے ۱۸۰۰ سے پہلے کے کسی عالم کا حوالہ دو جو تمہارے حق میں جاتا ہو۔ میرا تجربہ اس پر یہی رہا ہے کہ نوے فیصد مخالف ایسا کرنے سے قاصر رہتا ہے اور باقی دس فیصد جو ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی یا تو حوالہ توڑ مڑوڑ کر پیش کرتے ہیں یا کسی عالم کا تفرد پیش کرتے ہیں، اسکی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ ۱۸۰۰ سے پہلے اس نظریے کا حامل یا تو کوی عالم تھا ہی نہیں یا اگر تھا بھی تو ایک دو کی تعداد میں ، اور اصول یہ ہے کہ اجماعی مسلہ میں شخصی تفرد تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ علماء ظواہر کو کوی خاص پذیرای حاصل نہ ہوی کیونکہ اختلافی مسائل میں انکا نقطہ نظر جمہور کے مقابلے میں تفرد سے کم نہ تھا۔
اصل مضمون تک جانے سے پہلے دوسرا نقطہ یہ سمجھ لیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہو گی۔ اسی لیے اسلامی ادب نے اس طریقہ سے ترقی کی کہ کسی بھی شعبہ میں اگر کوی عالم غلطی کرتا ، تو دوسرے اسکی غلطی کی پکڑ کرتے ۔ اگر کسی مفسر نے کسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوے غلطی کی تو دیگر مفسرین نے اسکی غلطی کی پکڑ کی اور عوام کو بتلا دیا کہ یہاں پر غلطی ہوی ہے۔ اگر کسی محدث سے کہیں غلطی ہوی تو دیگر محدیث نے انکی غلطی کو پکڑ لیا، مثال کے طور پر امام حاکمؒ ایک محدث گزرے ہیں جنکی حدیث کی کتاب مستدرک ہے ، انہوں نے اپنی اس کتاب میں بہت سی جگہوں پر غلطیاں کیں چناچہ علامہ شمس الدین الذہبیؒ نے تلخیص المستدرک لکھ کر امام حاکم کی غلطیوں کی پکڑ کی۔ اسی طرح اگر کسی فقیہ سے غلطی ہوی تو دیگر فقہاء نے انکی غلطی کو پکڑ کر ٹھیک کیا ۔ غرض کسی بھی شعبہ میں اگر کہیں غلطی ہوی تو اس غلطی کو چلنے نہیں دیا گیا بلکہ فوراً واضح کر دیا گیا۔
حضرت عائشہؒ کی نکاح کے وقت عمر پر منکرینِ حدیث کی طرف سے اکثر اعتراض ہوتا رہتا ہے جس میں وہ حضرت عائشہؓ کی عمر بڑھانے پر بضد ہوتے ہیں، ہمارے بلاگی دوست ڈاکٹر جواد نے بھی شاید اسی قسم کے کسی شخص کے انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ کیا ہے ،چونکہ مضمون میں حوالے ہیں اسی لیے ایک عام شخص کے لیے انکو دیکھ کر بھٹک جانا عام سی بات ہے ، اس ضمن میں اور بھی بہت سے اعتراضات موجود ہیں ، لیکن فلحال میں وقت کی قلت کی بنا پر میں صرف انہی اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا جنکو ڈاکٹر جواد بھای نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے ۔
نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر:۔
حدثني فروة بن أبي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، فقدمنا المدينة فنزلنا في بني الحارث بن خزرج، فوعكت فتمرق شعري فوفى جميمة، فأتتني أمي أم رومان وإني لفي أرجوحة ومعي صواحب لي، فصرخت بي فأتيتها لا أدري ما تريد بي فأخذت بيدي حتى أوقفتني على باب الدار، وإني لأنهج، حتى سكن بعض نفسي، ثم أخذت شيئا من ماء فمسحت به وجهي ورأسي ثم أدخلتني الدار فإذا نسوة من الأنصار في البيت فقلن على الخير والبركة، وعلى خير طائر. فأسلمتني إليهن فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت تسع سنين.
مجھ سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا ، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی ، پھر ہم مدینہ ( ہجرت کرکے ) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا ۔ یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اوراس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے ۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں ، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوںنے مجھے پکا را تو میں حاضر ہوگئی ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے ۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جارہاتھا ۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا ۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں ۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں ، جنہوںنے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر وبرکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو ، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوںنے میری آرائش کی ۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اورانہوںنے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی ۔
صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار
حدیث پر پہلا اعتراض کہ یہ روایت صرف عراقیوں سے روایت ہے جو اکثر اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ اسکو کوفیوں کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا :۔
اس پر ڈاکٹر صاحب یا جو ترجمہ انہوں نے کیا ہے وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہشام بن عروۃ کے شاگردوں نے مالک ابن انس جیسے شاگرد بھی شامل ہیں لیکن کسی نے بھی اسکو نقل نہیں کیا۔ اس پر اس سے پر سب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ یہ اعتراض ہی علم الحدیث اور اصولِ حدیث سے کم علمی اور لا علمی کی وجہ سے ہے ۔ اگر کوی شاگرد اپنے استاد سے روایات نہ لے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اپنے استاد کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا، مثال کے طور پر امام مسلمؒ امام بخاریؒ کے شاگرد ہیں، اب آپ مسلم کھول کر دیکھیں اور بتائیں کہ امام مسلمؒ نے کتنی احادیث امام بخاریؒ سے لی ہیں۔ اسی طرح حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے کتنی احادیث کتب احادیث میں مروی ہیں ، کیا اسکو بنیاد بنا کر اب کوی یہ کہے کہ چونکہ چناچہ ان حضرات سے کم احادیث مروی ہیں اسی لیے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ ان حضرات کو حدیث پر عبور حاصل نہ تھا ، نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہو گا ہرگز نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس موضوع کی روایات کو ہشامؒ کے علاوہ دیگر راویوں نے بھی اس موضوع کی احادیث نقل کی ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
حدثنا ابو معاویۃ قال حدثنا الاعمش عن ابراہیم عن الاسود عن عائشہؓ قالت تزوجھا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وھی بنت تسع سنین ومات عنھا وھی بنت ثمان عشرۃ
یعنی معاویہ نے اعمش سے ، اعمش نے ابراہیم سے، ابراہیم نے اسود سے اور اسود نے حضرت عائشہؓ سے روایت کیا ہے ، فرماتی ہیں جب میری نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے شادی ہوی تو میری عمر نو سال تھی اور جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو میری عمر اٹھارہ سال تھی
اسکے علاوہ حضرت عائشہؓ کے بھتیجے قاسم بن محمد بن ابی بکر جو کہ مدنی فقہا میں سے ہیں اور سقہ ہیں انکی ایک روایت طبرانی میں ہے
عن عائشہ قالت تزوجنی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم انا بنت ست سنن و بنی بی وانا نبئت تسع سنین
رواہ الطبرانی جامع المسانید للحافظ ابن کثیر جلد ۳۲ صفحہ ۳۵۳
اس روایت میں بھی حضرت عائشہؓ کی عمر وہی ہے جو ہشام بن عروۃ کی روایت میں ہے ۔
عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ جو کہ مکی روای اور ثقہ ، تابعی ہیں انکی ایک روایت سنن النسائی میں ہے
عن عائشہ ان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین و دخل بھا وھی بنت تسع سنین
رواہ النسائی، جامع المسانید جلد ۳۴ صفحہ ۳۲۷
اس پر میں اور بھی بہت سے حوالے پیش کر سکتا ہوں ، لیکن میرے پاس وقت نہیں ہے ۔
دوسرا اعتراض ، امام مالک بن انس کو ہشام کی کوفی روایات پر اعتراض تھا:۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امام مالک کی یہ بات تہذیب التہذیب میں اس طرح نہیں ہے جس طرح نقل کی گئی ہے بلکہ وہاں یحییٰ بن سعیدؒ کا قول ہے :۔
میں نے امام مالکؒ کو خواب میں دیکھا اور ہشام کی رویات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب وہ ہمارے پاس مدینہ میں تھا تو اسکی روایات وہی ہیں یعنی درست ہیں اور جب وہ عراق گیا تو اس کی روایات درست نہیں
پہلے تو یہ قول امام مالکؒ کی زندگی کا نہیں ہے بلکہ وفات کے بعد کا ہے جس میں یحیٰ بن سعید کو یہ بات امام مالکؒ نے خواب میں آکر کہی ، اور خواب چاہیے کسی کا بھی ہو اس قسم کے معملات میں حجت نہیں ہوا کرتا
اس پر ایک قول میزان الاعتدال سے آگے نقل کرتا ہوں
پس ثابت ہوا کہ یہ ہشام پر یہ اعتراض بھی باطل ہے ۔
تیسرا اعتراض کے ہشام کی یاداشت ضعیف العمری میں بری طرح متاثر ہوی تھی:۔
یہ بات بھی علامہ ذہبیؒ نے اس طرح نہیں لکھی جس طرح نقل کی گئی ہے بلکہ علامہ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں :۔
ھشام بن عروہ احد الاعلام حجۃ امام لکن فی الکبر تناقص حفظہ ولم یختلط ابدا ولا عبرۃ قالہ ابو الحسن بن قطان من انہ وسھل بن ابی صالح اختلطا وتغیر نعم الرجل قلیلا ولم یبق حفظہ کھو فی حال الشیبۃ فنسی بعض محفوظہ او وھم فکان ماذا اھو فکان ماذا اھو معصوم عن نسیان
ہشام بن عروہ چوٹی کے علماء و محدثین میں سے تھے اور احادیث نبویہ میں وہ حجت و امام تھے، بڑھاپے میں انکا حافظہ پہلے سے کم ہو گیا تھا لیکن وہ مختلط نہیں ہوا کہ حدیثوں کو خلط ملط کر دیتا ہو، انکے بارے میں امام ابن القطانؒ نے کہا کہ وہ مختلط ہو گئے تھے تو کیا انکی بات کا کوی اعتبار نہیں ہے ہاں ان کے حافظے میں تبدیلی ضرور ہوی تھی اور انکا حافظہ جوانی والا نہیں رہا تھا اس لئے بعض احادیث ان کو بھول گئیں تھیں اور بعض میں ان سے وہم بھی ہوا اس سے کیا ہو گیا کہ وہ غلطی سے معصوم تھے
اس سے پتا چلا کہ بڑھاپے میں جو اکثر یاداشت تھوڑی کم ہو جاتی ہے ویسا ہی ہوا تھا اور یہ کوی بڑی بات نہیں اس قسم کا حال تو بڑے بڑے ائمہ کو بھی پیش آجاتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی ثقاہت میں کوی فرق نہیں پڑتا
اسی لیے علامہ ذہبیؒ نے ہشام پر تنقید کرنے والے کو خطاب کر کے کہا
فدع عنک الخبط و ذر خلط الائمہ الاثبات بالضعفاء والمخلطین فھشام شیخ الاسلام و کذا قول عبدالرحمٰن بن خراش کان مالک لا یرضاہ نقم علیم حدیثہ لاھل العراق
اپنی مخبوط الحواسی چھوڑ ائمہ اثبات و ثقات کو ضعیف و مختلط راویوں کے ساتھ ملانا چھوڑ دے کیونکہ ہشام شیخ الاسلام ہے اور اسی طرح ہشام کے متعلق بعدالرحمٰن بن خراش کی جرح کو بھی کوی اعتبار نہیں جس میں اس نے امام مالکؒ نے ہشام کی عراقی حدیثوں کو غیر مقبول کہا ہے
میزان الاعتدال جلد ۴ صفحہ ۳۰۱
یہاں پر علامہ شمس الدین الذہبیؒ نے ہشام کو شیخ الاسلام کو خطاب دیا ہے اور دوسروں کی تنقید کو بھی رد کیا ہے اور تنقید کرنے والے کو سخت تنبیہ بھی کی ہے ۔
ویسے تو جب احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر نکاح کے وقت ۶ سال اور رخصتی کے وقت ۹ سال تھی ایسے میں تاریخی کتب میں جن حوالہ جات کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا ہے انکا جواب دینے کی بھی ضرورت نہین رہتی لیکن ایک غامدی مارکہ حوالہ جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہےا سکا جواب دینا چاہتا ہوں۔
اعتراض حضرت ابو بکرؓ کی چار اولادیں دو بیویوں سے اسلام سے پہلے پیدا ہوئیں
جو لوگ اس اعتراض کو کرتے ہیں وہ اسکے امام طبری کا کہہ کر کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ امام طبری کا نہیں بلکہ علی بن محمد کا کلام ہےاور جن سے انہوں نے بیان کیا ہے وہ لوگ بھی مجہول اور غیر معروف ہے
بہرحال میں اپنے کالج کے کام میں مصروف تھا ، فیس بک پر اسکا لنک نظر آگیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس پر بیٹھ گیا ، میرے کالج کے کام کا ہرج تو بہرحال ہوا لیکن یہ مضمون جلدی میں لکھا گیا ہے اسی لیے بہت سی باتوں کے جوابات اور حوالہ جات کی تحقیق و تخریج پر بھی زیادہ محنت نہیں کی گئی۔
ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ منکرینِ حدیث اور فتنہ غامدیت سے بچیں ۔