Tuesday, May 31, 2011

فوجی: یہ کیا ہماری حفاظت کریں گے؟؟؟

اس زمانے میں ، میں نے حج کا سفر کیا۔ واپسی پر مجھے براہِ راست پاکستان کا جہاز نہ ملا، شام کے راستے واپیس آنا پڑا۔ ہمیں دو دن دمشق رہنا پڑا۔ وہاں ایک بڑی وسیع مسجد تھی اور بڑے بڑے مینار تھے اور بہت خوب صورت تھی جس طرح شاہی مسجد ہے۔ سلیمان خان قانونی ترک بادشاہ گزرا ہے، اس نے بنوائء تھی اور اس کے ساتھ کمرے بنے ہوے تھے۔ پانی کا بڑا انتظام تھا۔ موذن نے لاوڈ سپیکر پر اذان دی۔ جماعت کے وقت ایک امام اور دو آدمی مقامی تھے اور میرے علاوہ تین چار اور پاکستانی تھے۔ نماز پڑھنے کے بعد ہم نے امام سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے ، اتنی بڑی مسجد اور نمازی نہیں ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ مسجد شہر سے الگ ہے، آبادی ذرا دور ہے۔ میں نے کہا کہ مسجد کے ساتھ جو کمرے ہیں، ان میں لوگ رہتے ہیں یا نہیں؟ کہنے لگا اس میں فوجی رہتے ہیں۔ میں نے کہا ، وہ مسلمان ہیں؟ اس نے کہا ، ہاں مسلمان ہیں۔ میں نے کہا، انہوں نے اذان سنی ہے؟ مسجد کے کمروں میں رہتے ہیں اور نماز نہیں پڑھی۔ اس نے بہت بڑی گالی دے کر کہا کہ اگر یہ نمازی ہوتے تو ہمیں یہودیوں سے ذلیل کراتے ؟
(ذخیرۃ الجنان از شیخ الحدیث و التفسیر مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ جلد ۳ صفحہ ۲۲۷ ۔ ۲۲۷)

Friday, May 27, 2011

کیا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بتوں کی پوجا کرنے کی طرح ہے ۔؟

وساوس
مسلمانوں اور ہندوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ہندو بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمان کعبہ کی۔ 
کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بھی   بتوں کی پوجا کرنے  کی طرح ہے ۔
ایک پتھر کے گرد چکر لگانے اور اسے چومنے چاٹنے میں اور کرشن بھگوان اور گائے ماتا کے آگے سرنگوں ہونے میں کیا فرق ہے؟ 
اس وسوسے کا جواب بنیاد پرست بھای نے اپنے بلاگ پر لکھا ہے ،جواب پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

Sunday, May 22, 2011

ایک تاریک خیالیے کی سوانح حیات

ایک تاریک خیالیے کی سوانح حیات
میرے دادا انگریز کی فوج میں کرنل تھے ، میرے دادا کے والد صاحب ایک آرٹسٹ تھے اورمقامی "استاد" کے پاس طبلہ بجایا کرتے تھے۔ چونکہ اس زمانے میں آرٹسٹ کی کوی عزت نہ تھی سب میرے پردادا کو میراثی میراثی کہا کرتے تھے ، میرے دادا جو کہانیاں مجھے سناتے تھے ان میں ایک جو مجھے بہت اچھی لگتی تھی جب میرے دادا کی محلے کی مسجد کے مولوی کے بیٹے سے اس بات پر لڑای ہوی کہ میرے دادا کو اس نے میراثی کا بیٹا کہا تھا اور میرے دادا نے اسکو خوب مارا تھا۔بچن میں اس قسم کے واقعات کی وجہ سے میرے دادا کا طبلا بجانے اور سُر لگانے سے دل بیزار ہو گیا ، اس زمانے میں انگریز مسلمانوں سے بڑا تنگ تھا، اور اسکو فوجیوں کی بڑی سخت ضرورت تھی تو میرے دادا نے انگریزی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس زمانے میں مولوی ٹائب کے لوگ بڑے زیادہ ہوتے تھے اور میرے دادا کو بچن سے ہی مولویوں سے خار تھی۔
( مولوی کے بیٹے سے لڑای کی وجہ سے) میرے دادا نے مولوی مٹاو مہم میں انگریز کا بڑا ساتھ دیا اسی لیے میرے دادا کاکا سپاہی سے ترقی کر کے کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوے تھے ۔
انگریز کے ساتھ اتنا عرصہ رہنے کے بعد انگریزی زبان ، انگریزی کلچر میرے دادا میں رچ بس گیا تھا ، اسی لیے اپنی چِٹی انپڑھ بیوی کے ساتھ بھی میرے دادا انگریزی میں ہی باتیں کیا کرتے تھے۔ چونکہ میرے دادا فوجی نوکری کی وجہ سے کبھی اس چھاونی میں اور کبھی اس چھاونی میں ہوا کرتے تھے اسی لیے میری دادی اور دادا کی ہر وقت لڑای رہا کرتی تھی ، میرے دادا کو شک تھا کہ دادی کا چکر چوکیدار کے ساتھ ہے ۔اسی لیے میرے دادا نے کئی چوکیدار بدلے لیکن یہ لڑائی ہمیشہ رہی۔ گھر میں ہونے والی ان لڑائیوں کے سبب میرے ابو کا دل فوجی نوکری سے اُٹھ گیا ، میرے دادا کے بہت اصرار کے باوجود بھی میرے ابو نے فوجی نوکری سے انکار کر دیا اور بیورو کریسی کی طرف دھیان دیا۔ چونکہ میرے دادا نے میرے ابو کو انگریزی سکول میں ڈالا تھا اورمولویوں سے رہنے والی چِڑ کی وجہ سے انکو قرآن پڑھنے بھی کسی مولوی کے پاس نہیں بھیجا تھا اسی لیے میرے ابو کی ساری توجہ انگریزی تعلیم پر ہی رہی۔ اس طرح میرے ابو اپنی اعلیٰ تعلیم اور میرے دادا کے اثرو رسوغ کی وجہ سے ایک اچھے بیورو کریٹ کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔
بیورو کریٹ بننے کے بعد میرے ڈیڈی کی پہلی پوسٹنگ ڈائریکٹ ترکی میں ہوی تھی،یہ وہ زمانہ تھا جب ترکی میں اتا ترک کا سکہ چلتا تھا ، وہیں سے میرے ڈیڈی اتا ترک اور ملک میں اسکے نظریات سے متاثر ہوے ۔ بیورو کریسی کی وجہ سے میرے ڈیڈی اور میری ماما کو ہر دوسری رات پارٹیز میں جانا ہوتا تھا اسی لیے ہمارا زیادہ وقت ہماری " ماسی" کے ساتھ گزرا کرتا تھا ، ڈیڈی اور ماما سے رات کو ملاقات نہیں ہوتی تھی کیوں کہ وہ اکثر پارٹیز سے رات کو دیر سے آتے تھے اور ماسی کو ہمیں جلد سلانے کی ہدایت تھی۔ ماما اور پاپا کی لڑائی بھی رات کو ہوا کرتی تھی، یہ بات مجھے اس دن پتا چلی جب میں سویا نہیں رات کو پارٹی سے آنے کے بعد ماما اور پاپا لڑ رہے تھے ،پاپا کو اعتراض تھا کہ ماما برٹش کاونسلیٹ کے آفیسر مسٹر بنگھم سے اتنا فری کیوں ہوتی ہیں۔ اس دن سے میرا دل بیروکریسی سے بھی اٹھ گیا اور میں نے یہ تہیا کر لیا کہ نہ فوج میں جاوں گا اور نہ ہی بیروکیسی میں۔
میں نے سکول کے بعد ایک صحافی بننے کا ارادہ کیا ،سکول ختم کرنے کے بعد میں نے امریکہ کی بڑی بڑٰی یونیورسٹیوں میں اپلای کیا، اور آخر کار میرے کم نمبروں کے باجود میرے ابا کے بینک بیلنس کی وجہ سے مجھے پرنسٹن یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا، اور یوں میں نے اپنی زندگی کے چار سال امریکہ میں صحافت پڑھتے ہوے گزارے۔ جب میں امریکہ میں صحافت پڑھ رہا تھا انہی دنوں اسامہ کے گروپ نے ٹریڈ سینٹر گرا دیے ۔ جسکی وجہ سے ہم مسلمانوں اور پاکستانیوں کا بڑا نام خراب ہوا۔ اس کا مجھے دل سے بہت افسوس ہوا، جینی نے میرے ساتھ ڈیٹ پر جانا بھی چھوڑ دیا کیونکہ میں بھی مسلمان تھا۔ جینی سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد میں بڑا دلبرداشتہ ہوا کیونکہ وہی پوری یونیورسٹی میں واحد لڑکی تھی جو مجھے لفٹ کرواتی تھی۔ ایسا ہونے کے بعد میں نے بھی اپنے دادا کی طرح مولویوں اور طالبانوں کے خلاف ہونے کا فیصلہ کر دیا۔ امریکہ سے پڑھای ختم کرنے کے بعد میں پاکستان آگیا ، اردو تو مجھے آتی نہیں تھی کیونکہ میری ساری عمر پاکستان سے باہر گزری تھی اسی لیے میں نے ملک کے چند ایک بڑے انگریزی اخباروں میں نوکری کے لیے درخواست بھیج دی۔
جلد ہی مجھے ملک کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں نوکری مل گئی اور میں نے مولویوں اور طالبان کے خلاف اپنا مشن شروع کر دیا ۔میرے مضامین کو دیکھتے ہوے مجھے ملک کے ایک بڑے انگریزی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام کی آفر ملی جسے میں نے قبول کیا ۔ ٹی وی سٹوڈیو پر ہی میری ملاقات سونی سے ہو گئی سونی بھی میری ہی طرح ملا اور طالبان سے فیڈ اپ ہے چند ڈیٹس کے بعد میں نے اور سونی نے شادی کر لی اور اب ہم دونوں مل کر اپنے اپنے طریقے سے مکل میں روشن خیالی کے لیے کام کر رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے سونی کو ایک امریکی تنظیم کی طرف سے ایوارڈ بھی ملا تھا۔ پچھلے مہینے پاکستان میں امریکی سفیر نے ہماری بہت سے مالی امداد کی جس میں سے کچھ رقم سے ہم نے ایک این جی او کھول لی ہے جس سے ہم ملک کے حصے حصے میں روشن خیالی پھلائیں گے ۔ 

Monday, May 9, 2011

احساسِ محرومی کے انسانی نفسیات پر اثرات

احساسِ محرومی کے انسانی نفسیات پر اثرات
شدید قسم کا احساسِ محرومی انسان میں شدید قسم کے احساس کمتری کو جنم دیتا ہے، شدید قسم کا یہ احساس کمتری انسان میں شدید قسم کے احساس برتری کو پیدا کرتا ہے ۔ یہ ہی احساس برتری انسان میں غرور اور تکبر کا ذمہ دار ہے ۔ انسانی نفسیات کے بارے میں یہ چیز ناقابلِ یقین حد تک حیران کن ہے کہ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری ایک دوسرے کے مخالف ہونے کے باوجود ایک ہی وقت میں انسان میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں۔ احساسِ محرومی انسان میں احساسِ مظلومیت کو بھی پیدا کرتا ہے احساسِ محرومی کا شکار انسان اپنے آپکو مظلوم تر، اپنے سے برتر لوگوں سے جیلس اور بہت سے لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے ۔ ایسا انسان نفسیاتی طور پر شدید قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتا ہے ۔ یہ انسان نہ صرف دوسروں سے جلد بدگمان ہو جاتا ہے بلکہ مخصوص لوگوں کے لیے اسکو انگلیوں پر نچانا بھی بہت آسان ہوتا ہے ۔ ان تمام نفسیاتی مسئلوں کی بنیاد پر یہ انسان اچھے برے میں بھی تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اسی لیے  اس کے نزدیک کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا انحصار اسکی ظاہری خوبصورتی  پر ہوتا ہے ۔ اپنے احساس برتری کی وجہ سے یہ شخص دوسروں کے مشورے خاص طور پر اپنے نزدیکی احباب کے مشوروں کو کسی قسم کی اہمیت نہیں دیتا اسی لیے زیادہ تر نقصان اٹھایا کرتا ہے۔ ایسا انسان اپنی نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے مضبوط قوتِ فیصلہ نہیں رکھتا اور صبر کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے ، اسی وجہ سے متعدد بار اچھے فیصلے کرنے کے باوجود انپر عمل نہیں کر پاتا۔ یہ میٹھی چھری سے کاٹنے والے دوست نما  دشمنوں کے زیادہ قریب ہوتا ہے ، چونکہ سیدھا راستہ خاصا خشک ہوتا ہے اسی لیے میٹھے انداز سے سیدھے راستے پر لانے والے دوستوں کے ساتھ بھی زیادہ دیر نہیں چل پاتا۔
فلسفی و دانشور (بقلم خود ) انکل ٹام 

Saturday, May 7, 2011

بڈھا ٹھرکی اور یاہو چیٹنگ

بڈھا ٹھرکی اور یاہو چیٹنگ
بھائیو یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں کمپیوٹر نیا نیا عام ہوا تھا، ہمارے علاقے کی بڈھے ٹھرکی جناب عاصی میراثی صاحب کو کسی کولیگ نے بتا دیا کہ چیٹ روم پر لڑکی پھسائی جا سکتی ہے ۔ بس پھر کیا تھا جناب میرے پیچھے پڑے رہے کہ کمپیوٹر لے کر آنا ہے چلو میرے ساتھ ، کچھ وقت نکال کر میں انکے ساتھ کمپیوٹر لے کر آیا اور سیٹ کر کے دیا ۔ اصل مقصد تو انہوں نے مجھے بتایا نہیں تھا اسی لیے میں نے انکو کوی چیٹینگ سافٹ ویر انسٹال کر کے نہیں دیا تھا۔ پھر جناب میرے پیچھے پڑ گئے کہ یاہو انسٹال کر دو یاہو انسٹال کر دو، میں نے کہا حضرت آپنے تو شاید کمپیوٹر دفتری کاموں کے لیے نہیں لیا تھا ؟ آپ یاہو پر کیا کریں گے وہ تو میرے جیسے منڈے کھنڈوں کے لیے ہوتا ہے۔ کہنے لگے نہیں یار وہ تمہیں پتا ہے میرے کچھ رشتے دار کنیڈا رہتے ہیں انسے گپ شپ ہو جائے گی۔ اصل مقصد تو میں سمجھ ہی گیا تھا لیکن میں نے خاموشی بہتر سمجھ کر انکو یاہو انسٹال کر دیا۔ اب جب دیکھو عاصی صاحب یاہو پر چیٹنگ میں لگے ہوے ہیں، عاصی صاحب مجھے طیعات کے مضمون میں مدد کر دیتے تھے لیکن اس سے بھی گیا، ہمارے یاسر جاپانی بھائی نے جاپان سے فون کر کے پوچھا کہ یارکیا چکر ہے عاصی صاحب جب دیکھو یاہو پر آن لائین بیٹھے رہتے ہیں۔ وقار بھای اور اپنے مولبی صیب نے بھی کہا کہ ہم بھی جب دفتر سے آن لائین ہوتے ہیں تو عاصی صاحب کمپیوٹر پر ہی ہوتے ہیں ۔ میں نے بتایا کہ جناب میں بھی طبیعات کے اسباق سے گیا آپ لوگ ہی کچھ سمجھائیں انکو۔ 
ایک دن سب نے گروپ چیٹنگ میں عاصی صاحب کی کلاس لینا شروع کر دی، کہ یہ کیا چکر ہے اس طرح تو آپکی صحت بھی خراب ہو جائے گی ہر وقت کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے سے آپکی آنکھیں بھی خراب ہو سکتی ہیں۔  ڈاکٹر جواد بھای نے بتایا کہ گنجے سر پر چشمہ بھی اچھا نہیں لگتا اسی لیے میں جب بھی اپنا سر گنجا کرواتا ہوں تو چشما لگانا چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن عاصی صاحب مانے نہیں بلکہ بتانے لگے کہ انکو ایک لڑکی سے پیار ہو گیا ہے جس سے وہ سارا دن یاہو پر چیٹنگ کرتے ہیں، اور بہت جلد وہ اس لڑکی کو ایک عدد موبائل فون بھی بھجوانے والے ہیں تاکہ سارا سارا دن کمپیوٹر کہ سامنے بیٹھنا نہ ہو۔
ہم نے انکو بتایا کہ زرا دھیان سے انٹرنیٹ پر بہت فراڈ بھی ہوتے ہیں، جاوید گوندل بھای نے بارہ سنگھے کے تجربے کا بھی بتایا کہ کیسے کوی اسکو پاگل بنا کر چھوڑ گیا تھا تب سے وہ جب بھی پریشان ہوتا ہے کہیں نہ کہیں سینگھ پھسا لیتا ہے ۔ یہ سننے کے بعد عاصی صاحب جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ بس دیکھو وہ ۵ منٹ میں آن لائین آنے والی ہے تم سب اسکو جانچ لینا اگر وہ کوی لڑکا نکلا تو میں اسکو ڈیلیٹ کر نے سے پہلے بلاک کر دوں گا ۔ عمران اقبال بھای نے کہا کہ بھئی ٹھیک ہے یہ بات تو کافی معقول ہے ۔ ۵ منٹ کے بعد جب وہ لڑکی آن لائین آئی تو عاصی صاحب نے اسکو بڑی منتیں ترلے کر کے منایا کہ کچھ دوست اس سے بات کرنا چاہتے ہیں پہلے تو اسنے بڑے نخرے کیے لیکن عاصی صاحب کا رونا دھونا دیکھ کر اسکو انکی رونی شکل پر ترس آگیا ۔
سب نے اس لڑکی پر سوالات کی بوچھاڑ شروع کر دی، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ سب سوالات کا برابر جواب دے رہی تھی اور کہیں سے بھی شک نہیں ہوتا تھا کہ یہ لڑکی نہیں ہے۔ اتنے میں منیر عباسی صاحب آن لائین آگئے ، انکو نفسیات میں کافی تجربہ ہے میں نے انکو صورتِ حال سمجھا کر گروپ چیٹ میں بلایا ، منیر بھای نے پہلا سوال ہی پوچھا تو اسنے جواب دیا کہ میں دیال سنگھ کالج لاہور میں پڑھتی ہوں۔ عاصی صاحب بہت خوش کے دیکھو تمہارے ماہرِ نفسیات بھی کچھ نہ کر سکے اب بتاو۔ میں نے کہا کہ جناب بات تو ٹھیک ہے لیکن دیال سنگھ کالج تو صرف لڑکوں کے لیے مخصوص ہے۔
بس وہ دن ہے کہ اسکے بعد کسی نے عاصی صاحب کو یاہو پر آن لائیں نہیں دیکھا۔ مہینا پہلے مجھے جاپان سے یاسر بھای کا میسج آیا تھا کہ یار خاور کھوکھر فون کر کے پوچھ رہا ہے کہ عاصی صاحب اب آن لائین کیوں نہیں آتے پہلے تو چلو کبھی گپ شپ لگ جایا کرتی تھی، میں نے بتایا کہ جناب مجھے بھی کافی عرصے سے علاقے مین بھی نظر نہیں آئے پہلے تو ماسی کے تندور پر بھی مل جاتے تھے ، لیکن اب وہاں بھی نہیں ہوتے ۔ لیکن سنا ہے کہ کچھ دنوں سے دیال سنگھ کالج کے باہربلا لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔  یاسر بھای نے لمبی ہوں کرتے ہوے کہا اچھا  ، لگتا ہے موصوف کو اب کرکٹ کو شوق چرایا ہے ۔  

نہ ہو جو وحی کے تابع

نہ ہو جو وحی کے تابع
نہ ہو جو وحی کے تابع وہ عقل ، عقل کہاں؟
ہم ایسی عقل کو بالائے طاق رکھتے ہیں
ہم اپنی سوچ اپنا مذاق رکھتے ہیں
ہر کسی سے کب اتفاق رکھتے ہیں

Monday, May 2, 2011

نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر

نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر
مجھے دین کی الحمداللہ اتنی سمجھ بوجھ ہے کہ میں تھوڑی سی تحقیق اور جستجو کے بعد صحیح اور غلط میں فرق کر سکوں۔ میرے دینی مسائل پر کچھ مطالعہ اور علماء کی تکنیکی کتب کو سمجھنے کا تجربہ بھی ہے  اسی تجربے کی بنیاد پر میں نے ایک اصول بنایا ہے، وہ یہ ہے کہ جب بھی کوی تاریک خیالیہ  ، نام نہاد روشن پرست یا جدید اسلام کا پیروکار آپ سے بحث مباحثہ کرے گا وہ قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں اپنی سمجھ اور عقل سے استدلال کر کے مطلب بیان کرے گا یا اسی طرح اپنے دور کے کسی جدت پسند نام نہاد مولوی یا علامہ کا حوالہ دے گا ۔ جو اصول میں نے بنایا ہے وہ یہ کہ آپ فوراً اس سے کہیں کہ مجھے  ۱۸۰۰ سے پہلے کے کسی عالم کا حوالہ دو جو تمہارے حق میں جاتا ہو۔ میرا تجربہ اس پر یہی رہا ہے کہ نوے فیصد مخالف ایسا کرنے سے قاصر رہتا ہے اور باقی دس فیصد جو ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی یا تو حوالہ توڑ مڑوڑ کر پیش کرتے ہیں یا کسی عالم کا تفرد پیش کرتے ہیں، اسکی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ ۱۸۰۰ سے پہلے اس نظریے کا حامل یا تو کوی عالم تھا ہی نہیں یا اگر تھا بھی تو ایک دو کی تعداد میں ، اور اصول یہ ہے کہ اجماعی مسلہ میں شخصی تفرد تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ علماء ظواہر کو کوی خاص پذیرای حاصل نہ ہوی کیونکہ اختلافی مسائل میں انکا نقطہ نظر جمہور کے مقابلے میں تفرد سے کم نہ تھا۔
اصل مضمون تک جانے سے پہلے دوسرا نقطہ یہ سمجھ لیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہو گی۔ اسی لیے اسلامی ادب نے اس طریقہ سے ترقی کی کہ کسی بھی شعبہ میں اگر کوی عالم غلطی کرتا ، تو دوسرے اسکی غلطی کی پکڑ کرتے ۔ اگر کسی مفسر نے کسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوے غلطی کی تو دیگر مفسرین نے اسکی غلطی کی پکڑ کی اور عوام کو بتلا دیا کہ یہاں پر غلطی ہوی ہے۔ اگر کسی محدث سے کہیں غلطی ہوی تو دیگر محدیث نے انکی غلطی کو پکڑ لیا، مثال کے طور پر امام حاکمؒ ایک محدث گزرے ہیں جنکی حدیث کی کتاب مستدرک ہے ، انہوں نے اپنی اس کتاب میں بہت سی جگہوں پر غلطیاں کیں چناچہ علامہ شمس الدین الذہبیؒ نے تلخیص المستدرک لکھ کر امام حاکم کی غلطیوں کی پکڑ کی۔ اسی طرح اگر کسی فقیہ سے غلطی ہوی تو دیگر فقہاء نے انکی غلطی کو پکڑ کر ٹھیک کیا ۔ غرض کسی بھی شعبہ میں اگر کہیں غلطی ہوی تو اس غلطی کو چلنے نہیں دیا گیا بلکہ فوراً واضح کر دیا گیا۔
حضرت عائشہؒ کی نکاح کے وقت عمر پر منکرینِ حدیث کی طرف سے اکثر اعتراض ہوتا رہتا ہے جس میں وہ حضرت عائشہؓ کی عمر بڑھانے پر بضد ہوتے ہیں، ہمارے بلاگی دوست ڈاکٹر جواد نے بھی شاید اسی قسم کے کسی شخص کے انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ کیا ہے ،چونکہ مضمون میں حوالے ہیں اسی لیے ایک عام شخص کے لیے انکو دیکھ کر بھٹک جانا عام سی بات ہے ، اس ضمن میں اور بھی بہت سے اعتراضات موجود ہیں ، لیکن فلحال میں وقت کی قلت کی بنا پر میں صرف انہی اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا جنکو ڈاکٹر جواد بھای نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے ۔

نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر:۔
حدثني فروة بن أبي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، فقدمنا المدينة فنزلنا في بني الحارث بن خزرج، فوعكت فتمرق شعري فوفى جميمة، فأتتني أمي أم رومان وإني لفي أرجوحة ومعي صواحب لي، فصرخت بي فأتيتها لا أدري ما تريد بي فأخذت بيدي حتى أوقفتني على باب الدار، وإني لأنهج، حتى سكن بعض نفسي، ثم أخذت شيئا من ماء فمسحت به وجهي ورأسي ثم أدخلتني الدار فإذا نسوة من الأنصار في البيت فقلن على الخير والبركة، وعلى خير طائر‏.‏ فأسلمتني إليهن فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت تسع سنين‏.

مجھ سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا ، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی ، پھر ہم مدینہ ( ہجرت کرکے ) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا ۔ یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اوراس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے ۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں ، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوںنے مجھے پکا را تو میں حاضر ہوگئی ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے ۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جارہاتھا ۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا ۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں ۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں ، جنہوںنے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر وبرکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو ، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوںنے میری آرائش کی ۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اورانہوںنے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی ۔
صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار

حدیث پر پہلا اعتراض کہ یہ روایت صرف عراقیوں سے روایت ہے جو اکثر اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ اسکو کوفیوں کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا :۔
اس پر ڈاکٹر صاحب یا جو ترجمہ انہوں نے کیا ہے وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہشام بن عروۃ کے شاگردوں نے مالک ابن انس جیسے شاگرد بھی شامل ہیں لیکن کسی نے بھی اسکو نقل نہیں کیا۔ اس پر اس سے پر سب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ یہ اعتراض ہی علم الحدیث اور اصولِ حدیث سے کم علمی اور لا علمی کی وجہ سے ہے ۔ اگر کوی شاگرد اپنے استاد سے روایات نہ لے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اپنے استاد کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا، مثال کے طور پر امام مسلمؒ امام بخاریؒ کے شاگرد ہیں، اب آپ مسلم کھول کر دیکھیں اور بتائیں کہ امام مسلمؒ نے کتنی احادیث امام بخاریؒ سے لی ہیں۔ اسی طرح حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے کتنی احادیث کتب احادیث میں مروی ہیں ، کیا اسکو بنیاد بنا کر اب کوی یہ کہے کہ چونکہ چناچہ ان حضرات سے کم احادیث مروی ہیں اسی لیے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ ان حضرات کو حدیث پر عبور حاصل نہ تھا ، نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہو گا ہرگز نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس موضوع کی روایات کو ہشامؒ کے علاوہ دیگر راویوں نے بھی اس موضوع کی احادیث نقل کی ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
حدثنا ابو معاویۃ قال حدثنا الاعمش عن ابراہیم عن الاسود عن عائشہؓ قالت تزوجھا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وھی بنت تسع سنین ومات عنھا وھی بنت ثمان عشرۃ
یعنی معاویہ نے اعمش سے ، اعمش نے ابراہیم سے، ابراہیم نے اسود سے اور اسود نے حضرت عائشہؓ سے روایت کیا ہے ، فرماتی ہیں جب میری نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے شادی ہوی تو میری عمر نو سال تھی اور جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو میری عمر اٹھارہ سال تھی
اسکے علاوہ حضرت عائشہؓ کے بھتیجے قاسم بن محمد بن ابی بکر جو کہ مدنی فقہا میں سے ہیں اور سقہ ہیں انکی ایک روایت طبرانی میں ہے
عن عائشہ قالت تزوجنی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم انا بنت ست سنن و بنی بی وانا نبئت تسع سنین
رواہ الطبرانی جامع المسانید للحافظ ابن کثیر جلد ۳۲ صفحہ ۳۵۳
اس روایت میں بھی حضرت عائشہؓ کی عمر وہی ہے جو ہشام بن عروۃ کی روایت میں ہے ۔
عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ جو کہ مکی روای اور ثقہ ، تابعی ہیں انکی ایک روایت سنن النسائی میں ہے
عن عائشہ ان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین و دخل بھا وھی بنت تسع سنین
رواہ النسائی، جامع المسانید جلد ۳۴ صفحہ ۳۲۷
اس پر میں اور بھی بہت سے حوالے پیش کر سکتا ہوں ، لیکن میرے پاس وقت نہیں ہے ۔
دوسرا اعتراض ، امام مالک بن انس کو ہشام کی کوفی روایات پر اعتراض تھا:۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ  امام مالک کی یہ بات تہذیب التہذیب میں اس طرح نہیں ہے جس طرح نقل کی گئی ہے  بلکہ وہاں یحییٰ بن سعیدؒ کا قول ہے :۔
میں نے امام مالکؒ کو خواب میں دیکھا اور ہشام کی رویات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب وہ ہمارے پاس مدینہ میں تھا تو اسکی روایات وہی ہیں یعنی درست ہیں اور جب وہ عراق گیا تو اس کی روایات درست نہیں
پہلے تو یہ قول امام مالکؒ کی زندگی کا نہیں ہے بلکہ وفات کے بعد کا ہے جس میں یحیٰ بن سعید کو یہ بات امام مالکؒ نے خواب میں آکر کہی ، اور خواب چاہیے کسی کا بھی ہو اس قسم کے معملات میں حجت  نہیں ہوا کرتا
اس پر ایک قول میزان الاعتدال سے آگے نقل کرتا ہوں
پس ثابت ہوا کہ یہ ہشام پر یہ اعتراض بھی باطل ہے ۔
تیسرا اعتراض کے ہشام کی یاداشت ضعیف العمری میں بری طرح متاثر ہوی تھی:۔
یہ بات بھی علامہ ذہبیؒ نے اس طرح نہیں لکھی جس طرح نقل کی گئی ہے  بلکہ علامہ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں :۔
ھشام بن عروہ احد الاعلام حجۃ امام لکن فی الکبر تناقص حفظہ ولم یختلط ابدا ولا عبرۃ قالہ ابو الحسن بن قطان من انہ وسھل بن ابی صالح اختلطا وتغیر نعم الرجل قلیلا ولم یبق حفظہ کھو فی حال الشیبۃ فنسی بعض محفوظہ او وھم فکان ماذا اھو فکان ماذا اھو معصوم عن نسیان
ہشام بن عروہ چوٹی کے علماء و محدثین میں سے تھے اور احادیث نبویہ میں وہ حجت و امام تھے، بڑھاپے میں انکا حافظہ پہلے سے کم ہو گیا تھا لیکن وہ مختلط نہیں ہوا کہ حدیثوں کو خلط ملط کر دیتا ہو، انکے بارے میں امام ابن القطانؒ نے کہا کہ وہ مختلط ہو گئے تھے تو کیا انکی بات کا کوی اعتبار نہیں ہے ہاں ان کے حافظے میں تبدیلی ضرور ہوی تھی اور انکا حافظہ جوانی والا نہیں رہا تھا اس لئے بعض احادیث ان کو بھول گئیں تھیں اور بعض میں ان سے وہم بھی ہوا اس سے کیا ہو گیا کہ وہ غلطی سے معصوم تھے
اس سے پتا چلا کہ بڑھاپے میں جو اکثر یاداشت تھوڑی کم ہو جاتی ہے ویسا ہی ہوا تھا اور یہ کوی بڑی بات نہیں اس قسم کا حال تو بڑے بڑے ائمہ کو بھی پیش آجاتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی ثقاہت میں کوی فرق نہیں پڑتا
اسی لیے علامہ ذہبیؒ نے ہشام پر تنقید کرنے والے کو خطاب کر کے کہا
فدع عنک الخبط و ذر خلط الائمہ الاثبات بالضعفاء والمخلطین فھشام شیخ الاسلام و کذا قول عبدالرحمٰن بن خراش کان مالک لا یرضاہ نقم علیم حدیثہ لاھل العراق
اپنی مخبوط الحواسی چھوڑ ائمہ اثبات و ثقات کو ضعیف و مختلط راویوں کے ساتھ ملانا چھوڑ دے کیونکہ ہشام شیخ الاسلام ہے اور اسی طرح ہشام کے متعلق بعدالرحمٰن بن خراش کی جرح کو بھی کوی اعتبار نہیں جس میں اس نے امام مالکؒ نے ہشام کی عراقی حدیثوں کو غیر مقبول کہا ہے  
میزان الاعتدال جلد ۴ صفحہ ۳۰۱
یہاں پر علامہ شمس الدین الذہبیؒ نے ہشام کو شیخ الاسلام کو خطاب دیا ہے اور دوسروں کی تنقید کو بھی رد کیا ہے اور تنقید کرنے والے کو سخت تنبیہ بھی کی ہے ۔
ویسے تو جب احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر نکاح کے وقت ۶ سال اور رخصتی کے وقت ۹ سال تھی ایسے میں تاریخی کتب میں جن حوالہ جات کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا ہے انکا جواب دینے کی بھی ضرورت نہین رہتی لیکن ایک غامدی مارکہ حوالہ جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہےا سکا جواب دینا چاہتا ہوں۔
اعتراض  حضرت ابو بکرؓ کی چار اولادیں دو بیویوں سے اسلام سے پہلے پیدا ہوئیں
جو لوگ اس اعتراض کو کرتے ہیں وہ اسکے امام طبری کا کہہ کر کرتے ہیں  جبکہ حقیقت میں یہ امام طبری کا نہیں بلکہ علی بن محمد کا کلام ہےاور جن سے انہوں نے بیان کیا ہے وہ لوگ بھی مجہول اور غیر معروف ہے 
بہرحال میں اپنے کالج کے کام میں مصروف تھا ، فیس بک پر اسکا لنک نظر آگیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس پر بیٹھ گیا ، میرے کالج کے کام کا ہرج تو بہرحال ہوا لیکن یہ مضمون جلدی میں لکھا گیا ہے اسی لیے بہت سی باتوں کے جوابات اور حوالہ جات کی تحقیق و تخریج پر بھی زیادہ محنت نہیں کی گئی۔ 
ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ منکرینِ حدیث اور فتنہ غامدیت سے بچیں ۔
  

Sunday, May 1, 2011

سردار طوطو سنگھ

ویسے اسکے کئی نام ہیں ۔ ابو اسکو چیکو کہتے ہیں ۔ میرا بڑا بھای اسکو لونی ٹونز کہتا ہے ۔ میں اسکو کبھی توتڑ سنگھ اور کبھی بے چین روح کہتا ہوں ۔ اسکو بے چین روح کہنے کی سب سے بڑی وجہ اسکی وہ حرکتیں ہیں جنسے پتا چلتا ہے کہ یہ کچھ نہ کچھ کرنے کو بے چین ہے ۔ مثال کے طور پر کمپوٹر کے سامنے لگی کسی تار کو یہ بخشتا نہیں ۔ مجھے اب تک 5-6 ہیڈ سیٹ اور 2-3 یو ایس بی وائرز کی قربانی دینی پڑی ہے ۔ کوی بھی کاغذ گھر میں اس سے محفوظ نہیں ہے ۔ جو کاغذ دیکھتا ہے کُتر کر رکھ دیتا ہے ۔ بقول امی کے اسکی چونچ آری کی طرح چلتی ہے ۔ بلکہ میرے خیال سے اسکو کاغذ کُترنے کا خاص شوق ہے ۔ ابھی پرسوں ہی کی بات ہے کہ امی ٹیبل پر پڑے ہوے فلائرز جمع کر رہی تھیں اور اس نے جیسے ہی دیکھا فوراً اُڑ کر ٹیبل پر آبیٹھا ۔ اور امی کی طرف حسرت بھی نگاہوں سے دیکھنے لگا امی نے اسکو ایک کاغذ دیا تو اسکو کترنا شروع کر دیا جیسے 10 دِن سے کچھ کھانے کو نہ ملا ہو ۔ ویسے یہ قریب نہیں آتا لیکن جب اسکو اپنا مطلب ہو تو یہ بات بھول جاتا ہے کہ اسکو پکڑنا بہت آسان ہے ۔ اب تک گھر میں 2-3 کیلنڈرز اور کافی تعداد میں خط جو ٹیبل پر پڑے ہوتے تھے انکو کُتر کر ضایع کر چکا ہے ۔ اسکے علاوہ میرے گھر میں دو اور آسٹریلین طوطے بھی ہیں (بجیز) لیکن وہ پنجرے میں بند رہتے ہیں ۔ اسکی انجینیرنگ ایسی ہے کہ اپنی چونچ سے انکے پنجرے کا دروازہ کھولتا ہے اور اندر گھستا ہے ۔ انکو خوب مارتا ہے جب انکو مار کے اسکا دل بھر جاتا ہے پھر خود ہی پنجرے سے دروازہ کھول کر باہر نکلتا ہے دروازے کو لاک کرتا ہے اور پھر کہیں بیٹھ جاتا ہے ۔

اسکا غصہ اتنا تیز ہے کہ اپنی ناک پر مکھی بھی بیٹھنے نہیں دیتا ۔ دن میں بھی سوتا ہے اور جس وقت اسکو نیند آرہی ہو اور کوی بولنے لگے تو خوب شور مچاتا ہے ۔ میرے خیال سے بولنے والے کو گالیاں ہی دیتا ہو گا ۔ کئی دفعہ یہ نیند میں ہوتا ہے اور بولنا شروع کر دیتا ہے ۔ میرے خیال سے نیند میں بھی شور اسکو تنگ کرتا ہے اور یہ سب کو چپ ہونے کا کہتا ہے ۔جب اسکو پکڑا ہو اور یہ غصے میں تو سب سے زیادہ مزیدار چیز اسکے پاوں کو چھونا ہے، جیسے ہی اسکے پاوں کو چھوا جاے یہ فوراً اپنی زبان سے انکو صاف کرنا شروع کر دیتا ہے جیسے گندے کر دیے گئے ہوں۔

امی پاکستان گئیں تو ابو لاونج میں سوتے تھے میرے ساتھ ۔ یہ صبح صبح اٹھ کر ابو کو اٹھاتا تھا اور ان پر بیٹھ کر چل کر کبھی ادھر جاتا کبھی ادھر ، اگر اس سے بھی کام نہ بنتا تو چھلانگیں بھی لگاتا تھا اور پھر بھی کام نہ بنتا تو جا کر اپنی چونچ سے بال کھینجتا تھا میں نے ایک دفعہ اسکو کان پر بھی چونچ مارتے دیکھا ۔ ایسے وقت میں یہ چونچ کا زور استعمال نہیں کرتا ۔ میرے خیال سے اسکو معلوم ہے کہ کس وقت چونچ کو کیسے استعمال کرنا ہے ۔ اور پھر جب سب کو اٹھا دیتا تو خود لایٹ پر بیٹھ کر سونا شروع کر دیتا ۔ 

اسکی ابو کے ساتھ خاص دوستی ہے ، حتیٰ کے رات کا کھانا بھی یہ ابو کے ساتھ ہی کھاتا ہے، کھاتے تو سب اکھٹے ہیں لیکن یہ ابو کے کندھے پر بیٹھ کر کھاتا ہے۔ شروع شروع میں یہ اڑ کر دستر خوان کے پاس آجاتا تھا پھر آہستہ آہستہ قریب آتا تھا اسکو تھوڑا سا کھانا دیا جاتا، کچھ دن تو ایسے ہی چلتا رہا پھر جب اسنے دیکھا کہ کوی مجھے کچھ کہتا نہیں ہے تو پلیٹ اور دیگر برتنوں میں چونچ بھی مارنا شروع کر دی اسکے بعد اسکی ضد تھی کہ اسکو الگ سے دینے کی بجاے پلیٹ میں ہی چونچ مارنے دی جائے ۔ لوگ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے میں سوچ رہا ہوں کہ انسانوں کو دیکھ کر طوطا بھی رنگ پکڑتا ہے ۔
آجکل اسکو پنجرے میں بند کر دیا گیا ہے جہاں پر یہ حکمرانی کرتا ہے اور چھوٹے طوطوں کو خوب مارتا ہے ، بھوک لگنے پر دانا پانی سب سے پہلے یہ ہی کھاے گا اگر کو قریب بھی آنے کی کوشش کرے تو اسکو مار پڑتی ہے ۔ حکمرانی کرنے کی لت صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ پرندے بھی اسکے نشے میں کھو جاتے ہیں اور حکمرانی کے نشے میں یہ ایسا کھو گیا ہے کہ اگر اسکو کسی وقت پنجرے سے باہر نکال دیا جاے تو  یہ واپس اندر جانے کی کوشش کرتا ہے ۔
سردار طوطو سنگھ پالک کھاتے ہوے۔
سردار طوطو سنگھ کاغذوں کے ساتھ کشتی کرتے ہوے۔

سردار طوطو سنگھ کوی تار کھینچنے کے انتظار میں کمپیوٹر پر براجمان ہیں، یہ اکثر سپیکر کی تار باہر نکال کر خوش ہوا کرتے ہیں۔

سردار طوطو سنگھ میرے کندھے پر براجمان ہیں۔

میرے چمچ سے کیے جانے والے حملے کا جواب  اپنی چونچ سے دیتے ہوے سردار طوطو سنگھ کا انوکھا انداز۔

سردار جی چھوٹے بھای کی چین کے ساتھ پنگے کرتے ہوے۔

سردار جی پانی کے ساتھ مستیاں کرتے ہوے۔

سردار جی ابو کی پلیٹ میں چونچ مارتے ہوے۔