Saturday, April 23, 2011

اقسامِ ٹھرکیاں

اقسامِ ٹھرکیاں
بڈھے ٹھرکی:۔
کیا آپ نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں ایک گنجا اپنے سر پر غیر موجود بالوں میں کنگھی کرتے ہوے گا رہا ہے " ابھی تو میں جوان ہوں ، ابھی تو میں جوان ہوں"۔یہ صاحب اکثر اپنے محلے میں آنے جانے والی لڑکیوں سے سلام دعا کیا کرتے ہیں، بظاہر تو لڑکیاں انسے خوش ہو کر بات کرتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ انکے روکنے سے بہت تنگ ہوتی ہیں اور بعد میں ایک دوسری سے کہتی ہیں "سالا بڈھا ٹھرکی"۔
کڑی نمبر ون:۔ کیا اس بڈھے کی کوی اپنی ماں بیٹی نہیں ہے ؟؟
کڑی نمبر دو:۔ ارے کیا تمہیں نہیں پتا اسکی ابھی تک شادی ہی نہیں ہوی!!!۔
کڑی نمبر ون:۔ اچھا ، تبھی تو یہ اتنا ٹھرکی ہے !!!!۔
اگر آپ کسی بڈھے ٹھرکی کو اس عمر میں یونیورسٹی جاتے دیکھے تو عموماً آپ پہلے لمحے یہ ہی سوچیں گے کہ یہ بیچارہ کند ذہن ہے اسی لیے فارغ ہونے میں اتنی دیر لگ رہی ہے ۔ یہ بات شاید جزوی طور پر صحیح ہو لیکن انکے اتنی دیر میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے کی ایک دوسری وجہ  یونیورسٹی میں آنے والی "پپو بچیاں" بھی ہو سکتی ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا بڈھے ٹھرکیوں کی معاشرے میں موجودگی کی وجہ مولوی ہے ؟؟؟ تاریک خیالیے لوگ اس سوال کے جواب میں یقیناً ہاں نہیں کہہ سکتے اسکی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ بڈھے ٹھرکی اسی گروہ کی ایجاد ہیں۔  بڈھے ٹھرکی ہر جگہ پائے جاتے ہیں، یہ اکثر کپڑوں کی دکان پر بھی پائے جاتے ہیں، جاتے تو وہاں یہ اپنے دوست دکاندار سے ملنے کے لیے۔ لیکن اکثر یہ دکان پر کام کرنے والے لڑکوں کو ہدایات دیتے پائے جاتے ہیں۔
آئیے ہم اس مسلہ کو  مثال سے سمجھتے ہیں۔
ایک کپڑوں کی دکان میں عورتیں کپڑے خرید رہی ہیں، سب کام کرنے والے مصروف ہیں، یہ صاحب اچانک سے آواز لگائیں گے "اوے شیدے !! یار باجی نوں اے والا وی وکھا نہ، باجی اے ویکھو اے تہاڈے تے چنگا لگے گا!!!
شیدا اکثر اس سے تنگ ہو جاتا ہے ، ایک دن تنگ پڑ کر اسنے کہہ ہی دیا کہ کپڑے میں ویچنے ، خریدنے ایناں نے ، تے توں وچ ماما لگنا ایں ؟؟؟  "سالا بڈھا ٹھرکی"
یہ ٹھرکیوں کی اس قسم میں پائے جاتے ہیں جن سے سامنا ہونے پر لڑکیاں ان للہ و ان الیہ راجعون پڑھتی ہیں اور جان چھٹنے پر الحمد اللہ کہہ کر ثواب کمایا کرتی ہیں۔
ٹھرکیوں کی اس قسم پر ہمارے ڈفر بھای کچھ عرصہ پہلے ایک مقالہ لکھ  کر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں، جسکو آپ یہاں پر پڑھ سکتے ہیں۔
زنخار ٹھرکی:۔
ٹھرکیوں کی ایک قسم زنخار ٹھرکی بھی ہیں،یہ اصل میں وہ نوجوان زنخار ہیں جو آخر میں بڈھے ٹھرکی بن جاتے ہیں  اپنی نوجوانی کے باعث یہ  بڈھے ٹھرکیوں سے اپنے طریقہ کار میں تھوڑا اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، آپکے کالج میں، آپکی یونیورسٹی میں، آپکے دفتر میں غرض ہر جگہ یہ موجود ملیں گے۔یہ لوگ عموماً کسی بھی بحث میں  ناجائز پر بھی عورتوں کا ساتھ دیتے پائے جاتے ہیں۔ یہ اکثر کالجز اور یونیورسٹیز میں لڑکیوں کے گروہ میں "انوکھا لاڈلہ" کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ اکثر یہ تمام لڑکیوں کے دوست بھی ہوتے ہیں اور زیادہ تر تمام لڑکیوں کے اکلوتے بھای۔ انکا کام کالج کی تمام لڑکیوں کی حفاظت، انکے مسائل کا حل حتیٰ کے لیے انکے لیے برگر اور چپس لانا بھی انکے فرائض میں شامل ہوتا ہے ۔ اگر کسی لڑکی کے فون میں کارڈ ختم ہو گیا ہے تو وہ لانا بھی انکی ذمہ داری ہو گی۔

زنخار لڑکوں کو اکثر لوگ ممی ڈیڈی یا برگر بچے بھی کہہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایک صریح غلط فہمی ہے، زنخار وں اور ممی ڈیڈی بچوں میں فرق صرف شرافت کا ہے۔ ممی ڈیڈی بچے وہ ہوتے ہیں جنہوں نے دنیا نہیں دیکھی ہوتی اسی لیے بہت زیادہ شریف زادے ہوتے ہیں۔ اگر آپ انکو کوی گالی بھی دیں گے تو وہ آپسے اسکا مطلب پوچھیں گے۔ جبکہ زنخار بہت شانے ہوتے ہیں چونکہ انکا لڑکیوں میں بہت زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اسی لیے لڑکیوں کی بہت سی عادات اور حرکات ان میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ کچھ زنخار تو لڑکیوں کی طرح باقائدہ "ہائے ہائے" بھی کرتے ہیں اور لڑکیوں ہی کے سٹائل میں ہاتھوں کو بھی ہلاتے ہیں۔
یہ کالج کے سب سے موسٹ وانٹڈ لوگوں کی لسٹ میں شامل ہوتے ہیں، اسی لیے یہ اصول یاد رکھیں کہ آپ نے کالج میں کبھی بھی انکو ناراض نہیں کرنا، اور انکو ہمیشہ خوش رکھنا ہے۔ انکو خوش رکھنے کے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہیں انکو ناراض رکھنے کے بہت زیادہ نقصانات بھی ہیں۔ اگر کالج میں آپکو کوی مسلہ پیش آگیا ہے تو سب سے پہلے آپکو انہی کے پاس جانا چاہیے۔ لڑکیوں کے اکلوتے بھای ہونے کی بنا پر سارے کالج کے لڑکے انسے بنا کر رکھتے ہیں، اسی لیے یہ ہر قسم کے لوگوں کو جانتے ہیں اور ہر قسم کے کام میں مدد کر سکتے ہیں۔اگر آپکو کوی لڑکی پسند آگئی ہے تو یہ ہی وہ انسان ہیں جو آپکی مدد کر سکتے ہیں۔
بلاگی دنیا کے  ٹھرکی:۔
بلاگی دنیا پر یہ بھی محدود تعداد میں موجود ہیں، یہ بوقت ضرورت آنٹیوں کے بلاگ پر تبصرے کر کے انکی تحریروں کو رونق بخشتے ہیں۔ کچھ بلاگروں کا خیال ہے کہ یہ آنٹیوں کے کالج کے زمانے کے بھای ہیں جو ضرورت پڑنے پر اب تک رشتہ نبھاتے ہیں۔ اگر کسی آنٹی کو کسی دوسرے بلاگر کے نام سے گندا تبصرہ کروانا ہو تب بھی یہ حاضر خدمت ہوتے ہیں، اگر کسی دوسرے بلاگر کے نام سے تبصرہ کرنا ہو تب بھی یہ اپنے سینگ پھاسنے کو تیار ہیں۔ یہ اکثر دوسروں کے بلاگ پر کوی ایسا تبصرہ بھی کر دیتے ہیں جس سے کسی آنٹی کو اپنے بلاگ پر تحریر لکھنے کا موقع مل جائے ۔ اگر آپ ایک بلاگی آنٹی ہیں اور آپکو اپنے بلاگ پر لوگوں کی تعداد بڑھانی ہے تو سب سے پہلے سینگوں والے اس زنخار ٹھرکی سے ہی رابطہ کریں۔ یہ آپکو کسی بھی آنٹی کے بلاگ پر کسے روشن خیال مولوی کے ساتھ سینگ پھنساے نظر آئیں گے ۔

ٹھرکیوں کی یہ دنوں قسمیں آنٹیوں کے عاشق سے بڑھ کر کچھ نہیں، یہ وہ عاشق ہیں جو چاند تارے توڑ کر لانے کو بھی تیار ہوتے ہیں بلکہ جاں بھی قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ انکی مثال خواجہ کے گواہ ڈَڈو سے کم نہیں ہوتی۔ یہ اکثر آنٹیوں کے کہنے پر بزرگ بلاگرز کی شان میں گستاخی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ غرض یہ آنٹیوں کی بکواسیات کو اپنے الفاظوں میں آنٹیوں کے کمنٹ کے نیچے چھوڑتے نظر آتے ہیں۔  جہاں ملیں اور جیسے ملیں کی بنیاد پر انکی بینڈ بجانا تمام بلاگروں پر فرض ہے،  جو بلاگر انکو  جسم کے ایسے حصے پر مارے ، جہاں یہ کسی کو دکھا کر شکایت بھی نہ کر سکیں ، اس بلاگر کو زیادہ ثواب ملے گا۔

13 comments:

  1. آخری 2 لائینیں اس پوسٹ کا نچوڑ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بڈھی ٹھرکی پے یہ دسری پوسٹ پڑھی لگتا ہے کہ سیکوئل ہے پہلی والی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  2. شرم کرو یار
    کیوں ہاتھ دھو کے میرے پیچھے پڑ گئے ہو
    میں تو صرف حق بات کہتا ہوں
    اور کہتا رہوں گا
    تم ابھی جانتے نی مجھے
    تنگ ذہن مولوی "نہ" ہوں تو

    ReplyDelete
  3. جہاں ملیں اور جیسے ملیں کی بنیاد پر انکی بینڈ بجانا تمام بلاگروں پر فرض ہے، جو بلاگر انکو جسم کے ایسے حصے پر مارے ، جہاں یہ کسی کو دکھا کر شکایت بھی نہ کر سکیں ، اس بلاگر کو زیادہ ثواب ملے گا۔
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    شہزادہ لگا ہے میرا کاکا۔۔۔ زبردست انکل ٹام۔۔۔ چھا گئے ہو۔۔۔ انہیں وہاں سے مارو کہ انہیں پتا بھی نا چلے کہ کہاں سے اور کس نے ہٹ کیا ہے۔۔۔ آہو۔۔۔

    ReplyDelete
  4. ٹھرکیوں کی یہ دنوں قسمیں آنٹیوں کے عاشق سے بڑھ کر کچھ نہیں، یہ وہ عاشق ہیں جو چاند تارے توڑ کر لانے کو بھی تیار ہوتے ہیں بلکہ جاں بھی قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

    تو آنٹیاں بھی تو ٹھرکی ہوئیں نا۔۔۔۔۔۔۔ایسوں کو پالتی بھی ہیں۔۔۔ویسے انہیں کھلاتی پلاتی کیا ہوں گی؟یا صرف ڈڈوء دکھا دیتی ہیں؟

    ReplyDelete
  5. hmmmmm kafi maloomati post hai aur umeed hai kafi logon ke ilm main izafa ho ga ;)

    ReplyDelete
  6. جانتی تو آنٹی بھی ہوگی کہ یہ ٹھرکی میرے ساتھ کیوں جڑے ہوئے ہیں، میری ہر بات کو وحی الہی کیوں سمجھتے ہیں، آخر میرے پاس ایسی کیا چیز ہے جو ان بنیاد پرست مولویوں کے پاس نہیں۔۔۔۔۔!! ؟
    ویسے دونوں میں سے ایک بات تو ہے ، یا تو آنٹی خود ٹھرکی ہیں یا ان ہوس پرستوں کو ہمارے ہاتھوں پٹوا کر سزا دینے کے لیے اپنے ساتھ چلائے رکھںا ہیں۔
    میں اس قسم کے واقعات کا چشم دید گواہ بھی ہو ، کالج کو ایجوکیشن تھا ، وہاں تو روز ہی ایسے نظارے ہوتے تھے ، یونیورسٹی میں بھی ہماری کلا س میں ایک عدد آنٹی نما دوشیزہ تھی ، اس کا شوہر اٹلی میں ہوتا تھا وہ ادھر ہی کہیں ہاسٹل میں رہتی تھی، عمر اسکی کوئی اٹھائیس تیس سال ہوگی، روز ایسے تیار ہوکر آتی تھی جیسے شادی پر آئی ہو، جسکی وجہ سے بہت سے ٹھرکے اس کے گرد منڈھلاتے رہتے تھے ، وہ لڑکی بھی ان سے بڑی خوش تھی ، اسے اور کیا چاہیے تھے دیار غیر میں مفت کے بھائی اور خادم مل گئے تھے۔ہماری یونیورسٹی کی کلاسیں شام کو ہوتیں تھیں ، اس لیے لیکچر کے دوران اکثر مغرب کی نماز آجاتی تھی۔ ٹیچر دس منٹ کا وقفہ دے دیتا تھا کہ سب آرام سے نماز پڑھ آئیں، وہ ٹھرکی اس وقفے سے فاعدہ اٹھاتے اور آنٹی کی وہی خدمتیں شروع ہوجاتیں جس کا تذکرہ انکل ٹام نے بھی اوپر پوسٹ میں کیا ہے، ایک دن میں نماز پڑھ کر آیا تو وہ سب کلاس کے باہر کھڑے تھے، وہ آنٹی مجھے مخاطب کر کے کہنے لگی، حافظ صاحب آپ خود تو نماز کو چلے جاتے ہیں ان کو بھی لے جایا کریں ( جیسے گلی کی کوئی مائی اپنے بچوں کے بارے میں پریشان ہو کہ نماز نہیں پڑھتے)، میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ،جناب میں تو انہیں کئی بار کہہ چکا ہوں، لیکن ان کے پاس اس ٹائم فرصت ہی نہیں ہوتی، آپ کہا کریں یہ اپنی ماں کی بات ٹال سکتے ہیں آپکی بات نہیں ٹال سکتے۔ میرے ساتھ جتنے بنیاد پرست تھے سارے قہقہے مار کر ہنسنے لگ گئے۔
    بلاگر آنٹی سے بھی میری عرض کہ آپ بھی میری اس بات پر غور کریں اور ان بارہ سنگھوں کو انسان بنانے کی فکر کریں۔
    پر مسئلہ پھر وہیں آجاتا ہے ، اپنا نقصان کون کرے، یہ انسان بن گئے تو انکی لا یعنی اور فضول باتوں کی تعریف کون کرے گا۔

    ReplyDelete
  7. اپنی ماں کی بات ٹال سکتے ہیں آپکی بات نہیں
    ڈائلاگ آف دا ڈے :D :D :D

    ReplyDelete
  8. خاصی معلوماتی تحریر هے
    معاشرتی علوم سے بھر پور

    ReplyDelete
  9. ہا ہا ہا ہا ہا .... بہت اعلیٰ جناب .ٹھرکیوں پر ایک نہایت شاندار ، جامع اور انتہائی معلوماتی پوسٹ ہے.

    ReplyDelete
  10. واہ جی کیا بات ہے۔ آپ نے تو ٹھرکیوں پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے۔ :D

    ReplyDelete
  11. ضیاء بھای:۔ بہت شکریہ

    ڈفر بھای: سر جی آپ کیوں ہمارے آگے پڑتے ہیں ؟

    عمران اقبال:۔ بہت شکریہ سر

    یاسر بھای:۔ آنٹیاں ٹھرکی ہوئیں یا نہیں ، یہ تو آنٹیاں ہی بتا سکتی ہیں۔

    سعد:۔ میرا بھی یہ ہی خیال ہے

    بنیاد پرست:۔ بس یہ ہی زنخار ٹھرکی ہوتے ہیں۔ ویسے آنٹی کو انکی نماز کی فکر دل سے تھی یا آپسے بات کرنا چاہتی تھیں ؟

    خاور کھوکھر:۔ میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آپ نے طنز کیا ہے یا تعریف

    ڈاکٹر جواد خاں:۔ بہت شکریہ سر

    وقار اعظم:۔ ٹھرکیوں سے بحث کرنے کے لیے ٹھرکیوں پر بحث کرنا بھی ضروری ہے ۔

    ReplyDelete
  12. یہ ٹھرکی ٹھری کیا ہے یہ ٹھرکی ٹھرکی
    میں نے صرف آخر قسم پڑھی ہے ٹھرکیوں کی :D
    انکل جی یہ بتایں آپ نے اتنی تحقیق کیسے کر لی

    ReplyDelete
  13. خرم بھای ، اگر آپ بلاگی دنیا میں پڑھتے ہیں اور کمنٹس اور مضامین کا باقائدگی سے مطالعہ کرتے ہیں تو یہ تحقیق کچھ مشکل کام نہیں ، بس آپکو اس میں اپنے چند مشاہدات شامل کرنے کی ضرورت رہتی ہے ۔

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.