Sunday, April 17, 2011

پردہ ، معاشرے کے اچھے اخلاق کا ضامن

پردہ ، معاشرے کے اچھے اخلاق کا ضامن
لاہور میں ایک دفعہ میں اور میرا بڑا بھای ایک گلی سے گزر رہے تھے، ایک حسینہ ہمارے آگے آگے جا رہی تھی۔ یہ زمانہ وہ تھا جب میرے بڑے بھای نے نیا نیا جوانی میں قدم رکھا تھا اسی لیے جوانوں والا جوش اور گرمی اس میں خوب خوب موجود تھی۔ تھوڑا سا آگے ہی گئے تھے کہ ایک (شاید کراے کی :ڈ) موٹر سائیکل پر دو جیالے آگئے  اور اپنی موٹر سائیکل آہستہ کر کے حسنیہ کے حسن کی تعریف کرنے لگے۔ حسینہ رک گئی اور تھوڑی بحث شروع ہو گئی ، اتنے میں میرے بھای کی جوانی نے بھی جوش مارا اس نے بھی بیچ میں چھلانگ لگا دی، وہ حسینہ تو چل دی اور وہ جیالے میرے بھای کے ساتھ الجھ پڑے چلو خیر بچ بچا ہو گیا ورنہ ہم دنوں کے ہی منہ سوجے ہوتے ۔
ایک دفعہ میں اپنے دادا کے گھر جا رہا تھا، لاہور کی ایک مصروف سڑک پر، ایک حسینہ تنگ و چست لباس پہنے اکیلی ہی جا رہی تھی، پھر ایک موٹر سائیکل پر دو جیالے آگئے اور اپنی موٹر سائیکل آہستہ کر لی اور حسینہ کے حسن کی تعریف شروع کر دی۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ حسینہ اس سے لطف اندوز ہو رہی تھی یا نہیں ، لیکن پچھلی دفعہ کے تجربے کے بعد میں نے اس دفعہ بیچ میں ٹانگ اڑانا ضروری نہیں سمجھا۔
مشرف نے جب میراتھن کروای تھی، تو سڑک پر سکول کے بچوں کو سائیڈز پر کھڑا کیا گیا تھا، یہ تمام بچے لاہور کے مختلف گورمنٹ سکولز کے تھے اور انہیں میں ، میں بھی شامل تھا، مکمل طور پر تو سب کچھ یاد نہیں اتنا ضرور یاد ہے کہ وہاں کھڑے لڑکوں اور پولیس والوں کی زندگی کا یادگار دن تھا۔ میرا کلاس فیلو "ت شاہ" اس دن باوجودیکہ استاد صاحب نے بڑے جرمانے کی تنبیہ کی تھی نہیں آیا تھا، لیکن جب "بنگالی" نے اسکو ایس ایم ایس کر کے صورت حال کا بتایا تو وہ بھاگا بھاگا آیا تھا۔ بہرحال وہاں پر پولیس والوں نے بی خوب مزے اڑاے تھے خاص طور پر جب "کالیاں" (بقول فیصل قریشی جن کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا) سٹینڈ پر پانی کے لیے رکتی تھیں، تو میں نے خود پولیس والوں کو آگے بڑھ بڑھ کر انکو بوتلیں پیش کرتے دیکھا۔ ماشااللہ کتنی فرض شناس ہے ہماری پولیس۔ ایک پولیس والے کا جھگڑا بھی ہونے لگا تھا ایک لڑکا اپنی بہن کے ساتھ بھاگ رہا تھا ، تھا تو وہ پاکستانی ہی لڑکی بھی پاکستانی تھی ، کچھ ایسا ہوا تھا کہ پولیس والے نے اسکے حسن کی تعریف کر دی تھی، بس جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔  بہرحال اس دن کی سب سے افسوسناک بات تھی کہ مجھے چوبرجی تک آدھا رستہ پیدل جانا پڑا تھا ، اگر وہ گدھا گاڑی والا مجھے لفٹ کی آفر نہ کرتا تو باقی آدھا بھی پیدل ہی جاتا۔

 ان تمام واقعات میں ایک چیز مشترک ہے ، اور وہ ہے جلوہ جو حسینائیں دکھا کر جیالوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ پاکستان میں اس قسم کے ہزاروں واقعات موجود ہیں جہاں حسینائیں اسی طرح اپنی حسین ادئیں اور جلوے دکھا کر جیالوں کو پاگل کر دیتی ہیں ۔ اور جب جیالے انکے پیچھے جاتے ہیں تو ان حسینائوں کے بے غیرت گھر والوں کی غیرت اچانگ جاگ اٹھتی ہے اور وہ لڑکوں کو مارتے پیٹتے ہیں۔ کئی دفعہ  صورت حال قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے ۔ مجھے اپنے محلے کا ایک واقعہ یاد ہے ۔ وہ لڑکی میری ہی کلاس کی تھی، لیکن جب وہ تھوڑی سی بڑی ہو گئی تو بڑے جیالے اسکے آگے پیچھے چکر لگاتے تھے، سننے میں آیا ہے کہ وہ انکو لائین بھی بہت مارا کرتی تھی۔ ایک دن اسکا بھای چھت پر پستول لے کر چڑھ گیا۔
اب دوسری طرف کا واقعہ سنئیں، ایک دفعہ میں اپنی امی کے ساتھ "نو فرلز" جا رہا تھا ، ارادہ سبزی وغیرہ خریدنے کا تھا۔ راستے میں ایک بس سٹاپ پڑتا ہے وہاں پر دو ہٹے کٹے جیالے کھڑے تھے، اور ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے، ہم لوگ ابھی سڑک کے دوسری طرف تھے اور وہ لوگ سڑک کے دوسری طرف۔ ایک بس آئی اور اس میں سے ایک حسینا نے قدم باہر نکالا۔ اور انہوں نے اس پر فقرے کسنے شروع کر دیے۔ میرا خیال ہے وہ کافی دیر سے وہاں کھڑے یہی کچھ کر رہے ہوں گے۔ بہرحال میں تھوڑا محتاط ہو گیا۔ لیکن ہم انکے قریب سے گزر گئے اور انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ 
ہمارے سکول میں "پیرنٹس ڈے" پر ایک دفعہ امی سکول گئیں، ہمارے انگریزی کے استاد تھے "مسٹر بی" انسے ملیں۔ اگلے دن "مسٹر بی" نے مجھے بتایا کہ وہ میری والدہ کو دیکھ کر کافی حیران ہوے تھے ، اور وجہ برقع تھی۔ اسی حوالے سے بات ہو رہی تھی تو میں نے انکو یہی اوپر والی کہانی سنا کر بتایا کہ کیسے ان جیالوں نے ایک برقع والی عورت پر آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔ مسٹر بی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ برقع عورت کی عزت اور وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ 
میری عمر کچھ زیادہ نہیں لیکن میں نے اپنی تھوڑی سی زندگی میں جو بہت سے واقعات دیکھے ہیں ان کے تجربے سے میں یہ ہی سمجھا ہوں کہ اسلام  نے عورت کے لیے جو پردہ کا نظام مقرر کیا ہے اسکے چھوڑنے سے معاشرے کا نظام بہت زیادہ درھم برھم ہو جاتا ہے ۔ میرے ایک تاریک خیال دوست جسکا ایک سنایا ہوا ایک واقعہ میں اپنی ایک پچھلی پوسٹ میں نقل کر چکا ہوں، نے مجھے بتایا کہ وہ کچھ ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھا، اپنا کام ختم کر کے اسنے ٹیچر کو (جو کہ ضرور  ایک خوبصورت حسینہ ہو گی) گھورنا شروع کر دیا، اور گھورتا رہا بہت دیر تک ، پھر ٹیچر نے تنگ پڑ کر اٹھ کر اسکے پاس آئیں اور کھینچ کر اسکو تھپڑ مارا۔ اسنے اپنے گھر جا کر امی کو بتایا اور اگلے دن اسکی امی سکول آئیں، اور اس بات میں کوی شبہ نہیں کہ اس ٹیچر کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ اور میرے خیال سے اسی قسم کے ماحول کا اسکی زندگی پر ایسا اثر ہوا ہے کہ وہ اب ایک "تاریک خیال" شخص ہے ۔
ایک بے پردہ عورت کی بے پردگی کا اثر کیسے چھوٹے بچوں پر بھی پڑتا ہے اسکا اندازہ آپ مذکورہ بالا واقعہ سے لگا چکے ہوں گے ۔

حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ مجھے باوثوق ذریعے سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے دیکھنے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے اور اس پر بھی جس کو دیکھا جائے۔
پردے میں رہنا ، میری بہنا

پردے میں رہنا میری بہنا
آئے جو دکھ ہنس کر سہنا
رسم کی جس نے اوڑھی ردا
اس سے گئی پھر شرم و حیاء
رخ پہ ہوا کے مت بہنا
پردے میں رہنا۔۔۔۔۔۔
جتنا سنورنا ہے سنور
ہاں لیکن اللہ سے ڈر
پردہ تیرا زیور گہنا
پردے میں رہنا۔۔۔۔
کس کے جی میں کیا آئے
اور تو مجرم کہلائے
خود کو لباس وہ مت پہنا
پردے میں رہنا۔۔۔۔

حضرت خالد اقبال تائب صاحب دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.