Sunday, July 31, 2011

انڈونیشی اور پاکستانی کا فرق

کچھ دن سے میری عادت ہے کہ اخبار پڑھنے کی بجائے تصاویر دیکھ کر بند کر دیتا ہوں ، دل سخت بور ہو گیا اخبار سے ۔
آج اخبار کھولا اور پہلی تصویر کھولی ۔

امی پاس سے گزر رہی تھیں تصویر دیکھتے ہی خوشی خوشی آئیں اور خوشی سے کہا ، "انڈونیشین ہوتی ہیں ایسی " اور نیچے کیپشن پڑھ کر کہنے لگیں " ہاں انڈونیشین ہی ہیں ، میں نے کہا تھا نہ "
میں دوسری تصویر پر گیا اور امی کو دکھا کر کہا " اور ایسی ہوتی ہیں پاکستانی" امی نے ناگوار سی آواز میں کہا ، " ہاں یہ ہے پاکستانی" ۔


Friday, July 29, 2011

خدا ،سائنسی قوانین ، متشابہات اور دہریے کی جہالت

 
 
          میں کافی عرصے سے ایک ہی بات کو مختلف الفاظ کے جوڑ توڑ سے آپ سب تک پہنچانے  کی کوشش کر رہا ہوں جو کہ کچھ ایسے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی جو اپنے آپ کو عقلِ کلُ سے کچھ کم نہیں سمجھتے ، اسی بات کو عام فہم انداز میں لکھنے کی دوبارہ کوشش کرتا ہوں کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی عقل اس کے علم  اور تجربہ پر مبنی ہوتی ہے۔ شائد اسی لیے ہمارے پاکستانیوں میں ایک بات مشہور ہے کہ اگر کوی کم عمر غلطی کرتا ہے تو اسکو عقل کی کمی کا کہہ کر معاف کر دیا جاتا ہے کہ "چلو ابھی بچہ ہے عقل کم ہے" یعنی جوں جوں عمر بڑھے گی مزید علم اور تجربہ حاصل ہو گا مزید عقل حاصل ہو گی ۔
 
لہذا  جب ہم یہ مانتے ہیں کہ عقل علم اور تجربہ پر مبنی ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ علم میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور انسان مزید عقل حاصل کرتا رہتا ہے ، اس چیز کو سمجھنے کی کوشش کے لیے میں سب سے نزدیکی مثال پیش کرنا چاہوں گا اپنے میٹھے اور پیارے بزرگ اجمل چاچا کی جو اس عمر میں بھی بہت سی چیزوں کے بارے میں لا علمی اور کم علمی کا دعویٰ کر کے سیکھنے کی بات کرتے ہیں ۔ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ انسان ہمیشہ بہت سی چیزوں سے لا علم رہتا ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بہت سے ایسے سوالات ہو سکتے ہیں جنکا جواب کسی انسان کے پاس موجود نہ ہو ، اسی لیے کسی سوال کے جواب کا نا ہونا کوی بڑی بات نہیں ۔
 
مثال دیتا ہوں ایک دہریہ سوال کرتا ہے کہ بتاو فزکس اور طبیعات کے قوانین کس نے بنائے آپ ایک شریف اور اچھے مسلمان ہونے کے ناطے وہی کہتے ہیں جو آپ کی امی نے آپکو سکھایا تھا یعنی ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لہذا فزکس اور طبیعات کے علم سے لا علم ہوتے ہوے آپ بڑے بڑے ماہرین فزکس و طبیعات کے نام لے کر بتانے کی بجاے کہ فلاں قانون فلاں ماہر نے بتایا فلاں ، فلاں ماہر نے بتایا آپ اپنی امی کی سکھائی ہوی بات دہرا دیتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق مالک اللہ ہے لہذا فزکس کے قوانین کو بھی اللہ نے ہی بنایا، دہریہ گوہرِ مقصود حاصل کر کے بڑا خوش ہوتا ہے اور جوش میں آکر آپ پر ایک اور سوال داغ دیتا ہے
 
دہریہ : بہت اچھے یعنی تم مانتے ہو کہ فزکس اور طبیعات کے قوانین تمہارے خدا نے بنائے ؟
 
معصوم مسلمان: جی سر
 
دہریہ : یعنی تمہارے نزدیک  ہر چیز کا کوی نہ کوی خالق موجود ہے ؟
 
معصوم مسلمان : جی سر
 
دہریہ : اچھا اگر ہر چیز کا خالق ہونا ضروری ہے تو پھر بتاو تمہارے خدا کا خالق کون ہے ؟
 
معصوم مسلمان : سر خدا کو کسی نے تخلیق نہیں کیا وہ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا
 
دہریہ : اچھا بتاو ابد کے بعد کہاں جائے گا ؟
 
معصوم مسلمان : سر ابد مخلوق پر ہوتی ہے خالق پر نہیں
 
دہریہ :( جواب نہ ہونے پر بیزار ہوتے ہوے ) اچھا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہر چیز کا خالق موجود ہو اور خدا کا خالق نہ ہو
 
معصوم مسلمان: (جواب دیتے ، دیتے تنگ آگیا تو سوال کرنے پر آگیا) اچھا سر آپ یہ بتائیں کہ کیا مرد کسی بچے کو جنم دے سکتا ہے نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھنے کے بعد ؟
 
دہریہ:( سوال سے پریشان ہوتے ہوے) فلحال اسکا ممکن ہونا  نا ممکنات میں سے ہے ، کیونکہ یہ مرد کی صفات کے خلاف ہے
 
معصوم مسلمان: بس اسی طرح خالق کا تخلیق ہونا ناممکن ہے کیونکہ یہ خالق کی صفات کے خلاف ہے  کیونکہ خدا وہ ہے جسے کسی نے پیدا نہیں کیا ۔
 
دہریہ : لمبی خاموشی
 
معصوم مسلمان: اچھا سر یہ بتائیں کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ کسی چیز کا کوی خالق نہیں تو  یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ؟
 
دہریہ : (لمبی لمبی سائنسی بونگیا مارتے ہوے جو یہ بتاتی ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ خود بہ خود  ہر چیز وجود میں آگئی)
 
معصوم مسلمان: اچھا تو بتائیں پھر گندم خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟ پاکستان کے گاوں کے لوگوں کی تو بات نہ کریں شہری بجلی کے نہ ہونے سے پریشان ہیں وہ خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟
 
بتائیں سڑکیں خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟
 
بتائیں کہ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بن جاتا پاکستانیوں کے مسائل حل ہو جائیں ؟
 
 
دہریے کے پاس کوی جواب نہیں لیکن وہ ابو جہل کی طرح اپنی ضد پر بھی اڑے گا لہذا سائنس کو اپنے بونگیوں کے دفاع کے لیے الٹے سیدھے شوشے چھوڑ کر استعمال کیا جائے گا جن کا نہ کہ کوی سر ہے نہ پیر۔
اس ساری بات کا مدعا  اپنے پہلے پرا گرافس میں کی ہوی بحث کو ثابت کرنا تھا کہ انسان کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنکا اسکو علم نہیں چناچہ انکے بارے میں کیے جانے والے سوالات کا جواب بھی موجود نہیں ، یہ ہی بات سائنس بھی کرتی ہے اسکو حقیقی مثال سے سمجھیں۔
 
ہمارے ایک انگریزی کے استاد ہوا کرتے تھے مسٹر بو مین  ایک دفعہ وہ بتانے لگے کہ انکی دادی کے زمانے میں جہاز نہیں اڑا کرتے تھے اور وہ کہا کرتی تھیں کہ انسان کبھی بھی ہوا میں اڑنے کے قابل نہ ہو گا ، اور انکے بڑھاپے میں جہاز اڑنا شروع ہو گئے اور وہ دیکھا کرتی تھیں ہواوں میں جہازوں کو اڑتے ہوے ۔  اب ایک زمانہ تھا کہ انسان کو علم ہی نہ تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے لیکن  اب نہ صرف معلوم ہے بلکہ اتنی حد تک آگاہی ہے کہ اگر کوی ایک پلین کریش ہو جائے تو اسکی الف سے لے کر ی تک مکمل تحقیق کی جاتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور آئندہ کس طرح ایسا ہونے سے بچا جا سکتا ہے ؟
 
لیکن اتنی ترقی کے بعد بھی انسان کوی ایسی مشین نہیں بنا سکا جو اسکو وقت کا سفر کروا سکے یا پھر اسکو اس گلیکسی سے ہی باہر لیجا سکے ۔ کیا اس کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوی مخلوق بستی ہے ؟؟؟ سائنس اور دہریوں کے پاس اس سوال کا بھی کوئی واضح جواب نہیں ، بہرحال میری بات کا مدعا یہ ہی ہے کہ ہزاروں چیزیں ایسی ہیں جنکا انسان کے پاس کوی جواب موجود نہیں  اور مستقبل میں بھی ہزاروں چیزوں کا جواب نہ ہونا ممکن ہے ۔
 
دہریے کے پاس جواب نہ ہونے  کی کوی معقول وجہ موجود نہیں ، وہ زیادہ سے زیادہ یہ ہی شور مچا سکتا ہے کہ  ابھی ہم اس کا جواب حاصل کرنے پر لگے ہوے ہیں ، مستقبل میں اسکا جواب معلوم ہونے کے کتنے مواقعے ہیں یہ بھی معلوم نہیں ، ہزاروں افراد کینسر سے مر گئے سائنسی دنیا اسکا مکمل علاج حاصل نہ کر سکی ، ہزاروں انسان ایڈز  سے مر رہے ہیں دہریوں اور سائنسی دنیا ابھی تک اسکا مکمل علاج تلاش نہیں کر سکی ۔ مستقبل میں کیا نتائج ہیں یہ بھی معلوم نہیں ۔
 
دہریوں کے ساتھ ایک نفیساتی مسلہ ہوتا ہے ، ہر دہریہ کسی بھی مسئلہ میں لا علمی کے باوجود اپنے آپکو علامہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ،ایک بات کو اپنی مرضی سے سمجھنے کا شوق اور کسی مسئلہ پر اپنے اصول لاگو کرنے کا شوق ہر دوسرے دہریے کو ہوتا ہے ۔ ہمارا دہریے سے سوال ہے کہ ہم ہر چیز کو سائنس کی عینک پہن کر کیوں دیکھیں ؟؟؟  کیا یہ ضروری ہے ؟؟؟  مجھے یقین ہے کہ دہریہ اس سوال کا کوی اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر ہو گا ، اس دفعہ بھی دہریے نے قرآن کی آیات کو اپنی سائنس کی عینک پہن کر دیکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ فزکس و طبیعات کے قوانین بھی خدا پر لاگو ہوتے ہیں اور دہریے کی دلیل  سورۃ الاعراف کی آیت نمبر
۵۴ ہے  
 
دہریہ کہتا ہے کہ وہاں یہ لکھا ہے کہ خدا نے عرش پر جلوہ افروز ہوا  اور چونکہ لغت میں عرش بادشاہ کے بستر یا کرسی کو کہتے ہیں ، دہریہ کہتا ہے کہ اگر خدا کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسکو بٹھانے کے لیے کشش کا ہونا بھی ضروری ہے جو اسکو کرسی کی طرف کھینچے نیز یہ کہ خدا تھک بھی جاتا ہے  اسی لیے کرسی پر بیٹھتا ہے ۔
 
دہریے کی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ دہریہ بائبل سے ناراض دہریوں کی زبان بول رہا ہے ،  اور اسی کو قرآن پر اپلائی کرنے کے چکر میں ہے ، بائبل سے ناراض دہریے ہی اس بات پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ خدا تھک جاتا ہے ۔ اس بارے میں معصوم مسلمان کہتا ہے کہ دہریہ نہ تو قرآن کو سمجھا نہ ہی مسلمانوں کے نظریے کو۔ 
اور بغیر سمجھے اعتراض کرنے کے بارے میں عظیم فلسفی و دانشور انکل ٹام نے "لتر لا کے بندے کی آہو آہو سیکنے " کی سزا تجویز کی ہے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے یہ کلام انسان کے لیے اتارا ہے اسی لیے انسان کے سمجھنے کے انداز سے بات کی ہے ۔ اسی لیے ہر جگہ لغوی معنی نہیں لیا جا سکتا ، مثال کے طور پر   چوہدری صاحب ایک کم علم عام  انسان ہیں وہ کہتے ہیں کہ" دہریہ اسلام پر بھونکتا ہے " اگر لغت میں بھونکنے کا مطلب دیکھا جائے تو یہ صفت ایک ایسے جانور کے ساتھ موصوف ہے جسکی چار ٹانگیں اک دُم ہے اور لوگ اسکو کتا کہتے ہیں ۔ بٹ صاحب کہتے ہیں کہ  یہاں پر بھونکنا  لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہوا اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی چونکہ کتے کے بھونکنے کو نا پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے لہذا بٹ صاحب نے دہریے کی بکواس کو کتے کے بھونکنے کی طرح نا پسندیدہ خیال کیا ہے ۔
 
اسی طرح خدا پرست سوال کرتا ہے کہ تھکنا ، بیٹھنا ، جیسی صفات انسانون کے ساتھ موصوف ہیں ، اور ہم نے خدا کو انسان پر کب قیاس کیا ہے ؟؟؟ پہلے تو آپ خدا پرستوں کی قرآنی تشریحات سے یہ ثابت کر دیں کہ خدا بھی انسانوں کی طرح ہیں لہذا جیسے انسانوں کو بیٹھنے کی ضرورت ہے ایسے ہی  خدا کو بھی ۔  مثال کے طور پر ملک صاحب کہتے ہیں کہ مشرف کے بعد زرداری کرسی پر بیٹھا تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ زرداری  حقیقی طور پر کرسی پر بیٹھا ، ہو سکتا ہے کہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے والا کوی دہریہ اسکو حقیقت سمجھے لیکن کوی بھی معصوم مسلمان اس جملے سے زرادری کے امورِ  حکومت کو چلانے پر ہی قیاس کرے گا ۔  اور دوسری بات یہ ہے کہ  یہ آیات متشابہات میں سے ہے ۔
 
 متشابہات کے سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ متشابہ آیتوں میں جو مفہوم پنہاں ہوتا ہے، اور جسے سمجھنے سے ہم قاصر رہتے ہیں وہ کبھی دین کے ان بنیادی عقائد پر مشتمل نہیں ہوتا جن پر ایمان و نجات کی اولین شرط ہو، اللہ نے جن عقائد پر ایمان رکھنے کا ہم کو پابند کیا ہے وہ کھول کھول کر بیان کر دئیے ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک عقیدہ ایسا ہے جسے عقل کی کوئی دلیل چیلنج نہیں کر سکتی۔‘‘متشابہات ’’ وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کا سمجھ میں نہ آنا انسان کی نجات کے لئے چنداں مضر نہ ہو ، اور جس کے جاننے پر کوئی بنیادی عقیدہ یا عملی حکم موقوف نہ ہو، قرآنی متشابہات کے کہ اسلام اور ایمان ان کے سمجھنے جاننے پر موقوف نہیں،اگر کوئی شخص ساری عمر متشابہات سے بالکل بے خبر رہے تو اس کے ایمان میں فرق نہیں آتا۔
 
          اس لئے کہ ‘‘ متشابہات ’’ سے مراد وہ باتیں ہوتی ہیں جن کا مطلب انسانی سمجھ میں نہ آسکے وہ باتیں نہیں ہوتیں جو عقل کے خلاف ہوں، گویا متشابہات عقل  سے ماورا ء توہوتے ہیں لیکن عقل کے خلاف نہیں ہوتے ، اسلام میں متشابہات کی دو
۲ قسمیں ہیں ، ایک تو وہ جن کا سرے سے کوئی مطلب ہی سمجھ میں نہیں آتا، مثلاً حروف مقطعات کہ الٓمّٓ وغیرہ حروف کا کوئی مفہوم ہی یقینی طور سے آج تک بیان نہیں کرسکا ، دوسری قسم وہ ہے کہ الفاظ سے ایک ظاہری مفہوم سمجھ میں آتا ہے ، مگر وہ مفہوم عقل کے خلاف ہوتا ہے، اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں ظاہری مفہوم تو یقیناً مراد نہیں ہے ، اور اصل مفہوم کیا ہے؟ وہ ہمیں معلوم نہیں ، مثلاً قرآن کریم میں ہے :۔
 
          اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ ،
       ‘‘رحمان عرش پر سیدھا ہوگیا ’’۔
 
ان الفاظ کا ایک ظاہری مفہوم نظر آتا ہے ، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ عرش پر سیدھا ہوگیا ہے ، لیکن یہ مفہوم  عقل کے خلاف ہے ، اس لئے کہ اللہ کی ذات غیر متناہی ہے ، وہ کسی مکان کی قید میں مقید  نہیں ہوسکتی ،  اس لئے جمہور اہل ِ اسلام یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا ظاہر ی مفہوم مراد نہیں ہے ۔ ‘‘ عرش پر سیدھا ہونے سے ’’ کچھ اور مراد ہے جو ہمیں یقینی طور سے معلوم نہیں ،
 
          مسلمان مذکورہ آیت میں یہ کہتے ہیں کہ اس کا ظاہری مفہوم یعنی ‘‘ خدا کا عرش پر بیٹھنا ’’ ہر گز مراد نہیں ہے ، کیونکہ وہ عقل کے خلاف ہے ، گویا وہ خلاف ِ عقل بات کو عقیدہ نہیں بناتے ، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس کی صحیح مراد ہمیں معلوم نہیں ہے ،
 
          دوسرے الفاظ میں مسلمان قرآن ِ کریم کی جن آیتوں کو ‘‘ متشابہ ’’ قرار دیتے ہیں اُن کے بارے میں اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ ان آیتوں میں حقیقۃً جو دعویٰ کیا گیا ہے وہی ہم نہیں سمجھ سکے،لیکن جو دعویٰ بھی ہے وہ عقل کے مطابق اور دلیل کے موافق ہے ۔
 
پس ثابت ہوا کہ دہریے کہ اعتراض کی بنیاد ہی تھوک  کے  سیمنٹ سے بنی ہوی تھی لہذا اسکے "ممکنہ امکانات بھی"  اور جب بنیاد ہی گر گئی تو دسویں منزل پر الو کیسے بولیں گے ؟؟؟


اور آخر میں سنیں کہ قرآن کیا کہتا ہے 

اور آخر میں سنیں قرآن کیا کہتا ہے 



هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ (سورۃ ال عمران، 7)

وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معنیٰ معلوم یا معین نہیں) سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے الله کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں

Tuesday, July 26, 2011

پاکستانیوں کا احساس کمتری اور انکل ٹام کی بے ربطگیاں

انسان اکثر باتیں اور فلسفیانہ یبلیاں اپنے ماحول سے متاثر ہو کر کہتا ہے قطع نظر اس سے کہ اسکا ماحول اس پر کس قسم کا تاثر قائم کرتا ہے ۔ سٹیج اور ناول نگاری کی دنیا کے شیکسپیر کی طرف ایک جملہ کچھ اس طرح سے منسوب ہے کہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم سب اداکار ہیں جو یہاں اپنا کردار ادا کر کے چلے جاتے ہیں،  یقینیاً یہ بات شیکسپیر نے اپنے "سٹیجی ماحول" کے تاثر میں کہی لیکن میرے خیال سے اگر شیکسپیر اس معاشرے میں رہتا جس میں زندہ رہنے پر ہم مجبور ہیں تو ضرور دنیا کو ایک سٹیچ کہنے سے زیادہ اسکو رنڈی خانہ کہنے پر غور کرتا۔ اپنے سخت الفاظ پر معذرت کے ساتھ، لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ دور میں جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں ہر ادارے میں رنڈی کا کردار ضرورت سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اگر ایک جسم فروش فاحشہ کو چند کاغذ کے ٹکڑوں کے عوض  اپنا جسم بیچنے پر رنڈی کا خطاب دیا جا سکتا ہے تو  میرے نزدیک بینک میں کھڑی شارٹ سکرٹ کے ساتھ کھلے گلے والی شرٹ پہنے وہ رسیپشنسٹ بھی اس خطاب کے لیے برابر کی امیدوار ہے ۔  ہم بحثیت انسان معاشرتی پستی میں ایسے گر چکے ہیں کہ عورت سے جسم فروشی کرواے بغیر ہمارے معاشرے کا ہر ادارہ عضو معطل کی حثیت رکھتا ہے ، لہذا مغرب اور اس سے متاثرہ دانشوروں کے نزدیک شعبہ ہاے زندگی میں ہر عورت کو رنڈی بنانے کو نہ صرف ایک ضرورت قرار دیا گیا بلکہ اسکو انسانی نظروں سے نیچے گرانے سے بچانے  کے علاوہ عوام کے لیے سحر انگیز بنانے کے لیے روشن خیالی کا نام دیا گیا۔

ایک دن میں لائبریری سے گھر واپس آرہا تھا ، میرے مخالف سمت سے ایک جوڑا آرہا تھا ، اچانک وہ لوگ رُکے اور سڑک کے درمیان میں ہی منہ سے منہ مِلا لیے ، بلکل ایسے ہی جیسے میراثی سُر سے سُر ملاتے ہیں ۔اب سائیڈ واک کے درمیان مجھے سمجھ نہیں آٰئی کہ کہاں سے گزروں ، گورے اخلاقی اقدار میں اتنی ترقی کر گئے کہ بس سٹاپ پر بھی اُنکے "پی ڈی اے" سے دنیا تنگ ہو گئی مسلمان تو مسلمان گورے بھی تنگ ہو گئے اور یوٹیوب پر بس سٹاپ پر کھڑے ہو کر "پی ڈی اے" استعمال کرنے والوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ یہ ہمیں "گروس آوٹ" کرتا ہے ۔ بس سٹاپ پر کھڑے ہو کر "پی ڈی اے" سے مزے کرنا کچھ حضرات کو تو کافی جیلس کر سکتا ہے ، اسی طرح مجھے اس بچے کی بیزار صورت بھی یاد ہے جسکے ماں باپ نے اچانک سڑک پر رُک کر نینوں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ملایا تھا اور وہ "کم آن ڈیڈ " کہہ کر اپنے "پی ایس پی" کے ساتھ شروع ہو گیا تھا، ان اخلاقی اقدار سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنے پر "وینکور  کسنگ کپل" کی بھی بڑی واہ واہ ہوئی تھی اسکے تو ابے نے بھی ایسے خوشی کا اظہار کیا تھا جیسے بیٹا ملک فتح کر کے آیا ہو ۔
کل میں کچھ لڑکوں کے ساتھ ایک بیچ کے پاس واک کرتے ہوے گزر رہا تھا  تو اسلم صاحب جیسے نادان شخص کو میں یہ بات سمجھانا چاہتا تھا کہ لوگ پیسے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں ، اور میں نے جوشِ خطابت میں کہہ دیا کہ "لوگ پیسے کے پیچھے ننگا ہونے سے بھی گریز نہیں کریں گے" اب اسلم صاحب کو موقع چاہیے ہوتا ہے دوسروں پر یہ ثابت کرنے کا کہ یہ صاحب اپنی بات کو ثابت نہیں کر سکتے لہذا انہوں نے مجھ سے مثالیں مانگنا شروع کر دیں، اب میری بولتی بند ہونے ہی والی تھی کہ عبداللہ نے "پورن سٹار" کہہ کر میری زندگی بچا لی  اور کہا کہ " وہ پیسے کے لیے ننگے ہو جاتے ہیں"  اچانک ہی سامنے سے ایک حسینہ دو چیتھڑوں میں آتی دکھائی دی تو جہاں سردار کرتار سنگھ نےایک لمبی اور ٹھنڈی آہ بھری ، میرے نظریں جھکاتے جھکاتے ہی عبداللہ نے ایک اور بات کہی " اور یہ بغیر پیسے کے ہی ننگی ہو گئی ہے " ۔
جیسا کہ میں نے اپنی ایک دو پوسٹس میں بتایا ہے کہ شان نامی ایک لڑکے سے میری گفتگو رہی ، وہ بہت چھوٹی عمر کا ہے لیکن میرے سامنے اُس نے سگریٹ پینے کا بھی اقرار کیا ، جس طرح "ویڈ" کے حق میں وہ دلائل دیتا تھا اُس سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اگر کبھی وہ ایک دو کَش اُسکے بھی مار لیتا ہو تو کوی بڑی بات نہیں ۔ جب میں نے اُس سے "ویڈ" کے نقصان کی بات تو اُس نے فوراً جوش میں آکر "ویڈ" کی افادیت پر لیکچر دینا شروع ہو گیا، اس دوران کب اُسکی آواز اونچی ہو گئی اُسکو معلوم بھی نہیں ہوا ۔ یہ ایک انسانی نفسیات ہے ، وہ یہ کہ اکثر انسان تو ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کسی بُرائی میں مبتلا ہوں تو اُسکو برائی ہی سمجھتے ہیں ، بلکہ پتا نہیں کب رات کو جاگ کر اُس پر روتے بھی ہوں گے ۔ جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی بُرائی کو "جسٹیفائی" کرنا چاہتے ہیں ، بلکل ایسے ہی جیسے شان نے کیا ۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب امی ڈرائیونگ لیسنز لے رہی تھیں ، ایک اشارے پر گاڑی رُکی تو تھوڑی دیر میں ایک اور گاڑی اُنکے پاس آکر رُکی اس میں ایک گوری تھی ، اُس نے امی کے نقاب کو دیکھتے ہوے اونچی آواز میں سوال پوچھا کہ "تم یہ چہرہ کیوں چھپاتی ہو؟" گو کہ اشارہ کھلنے کی وجہ سے وہ جواب حاصل کیے بغیر ہی چلی گئی ، انسٹرکٹر نے امی سے کہا کہ پاکستان میں ایسا نہ ہوتا ، امی کا جواب تھا کہ پاکستان میں اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے ، جو عورتیں برقع نہیں کرتیں وہ زیادہ اس طرح کی باتیں کرتی ہیں کہ "برقع پہننے والیاں تو پارکوں میں جا کر برقع پرس میں رکھ لیتی ہیں  وغیرہ وغیرہ"  اسی طرح ایک گروہ کو اس چیز سے خاص تکلیف رہتی ہے ۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ، پاس میں ہی ایک بلاگی آنٹی  نے کہہ دیا کہ " جس کا دل زیادہ جلتا ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر رہ جاتا ہے" گو کہ ہو سکتا ہے آنٹی نے کسی کو بڑبڑاتے دیکھا ہو لیکن میں نے ایسا نہیں دیکھا ، میرے تجربے کے مطابق دو قسم کے لوگوں میں سے پہلے تو وہ ہوتے ہیں جو ایسے موقع سے خوب فائدہ اٹھا کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی گرم کرتے ہیں سردار کرتار سنگھ تو نہ صرف ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے بلکہ ٹانگوں کے علاوہ جسم کے دیگر حصوں کا بھی تفصیلی جائزہ لیتا ہے ۔ کاشف کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کی نظریں ایسی تیز ہوتی ہیں کہ وہ اوپر والا چیتھڑا دیکھ کر یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ اندر والا کس رنگ کا ہو گا ۔ کچھ میرے جیسے ہوتے ہیں جو اپنی نظریں جھکانے کے چکر میں ہوتے ہیں ۔ 
اگر کوی ایسے ملک گیا ہے تو وہ جانتے بوجھتے گیا ہے ، کسی نے اسکو زور زبردستی بھیجا نہیں تھا شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جو سب کے سب "مسلمان" ہیں، حدیث کے مطابق دل میں بُرا جان کر اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح ایمان کے دائرے میں رکھنے کی فکر میں ہیں۔ پاکستانی آنٹیوں کا حال انہی عورتوں کی طرح ہے جنکو میری والدہ کے برقع سے تکلیف ہے اس وجہ سے کہ بجائے میری والدہ انکو برقع کی ترغیب دیں وہ برقع سے اپنے بغض کا اظہار پہلے کر دیتی ہیں ۔ ایک تو وہ گروہ تھا کہ جو دین کی خاطر ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا ، بقول وجیہ الدین صاحب کے یہ اُن لوگوں میں سے ہیں جو یہ سُن کر آئے تھے کہ "اُدھر کلیم کر کے زیادہ زمین مل جائے گی " کراچی میں کواٹروں پر ہونے والے قبضوں کے کچھ قصے میری نانی اماں نے بھی مجھے سنائے ہیں ۔ اگر کوی شخص ایسی بات کرے تو مجھ کو وجیہ الدین صاحب کی بات سمجھ میں آتی ہے ۔
میرے دادا کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا پاکستان کے بننے سے پہلے ، جو کہانیاں میرے دادا سناتے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ کافی صاحبِ حثیت لوگ ہوا کرتے تھے ، میرے دادا کو زیادہ تو یاد نہیں لیکن ٹانگیں دبواتے ہوے انہوں نے مجھے اپنے سفید گھوڑے کا ضرور بتایا تھا جو تالاب میں گھٹنوں تک پانی میں جا کر پھر پانی پیا کرتا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد انکو غربت بھی دیکھنی پڑی ، لیکن میرے والد صاحب آج بھی پاکستان کے وجود کا سختی سے دفاع کرتے ہیں ۔ وجہ یہ ہی ہے کہ اُن لوگوں نے ہجرت  زمین جائیداد کے لیے نہیں کی تھی ، بلکہ ایک بڑے مقصد کے لیے کی تھی ، چونکہ پاکستان کا مقصد لا الہ الا اللہ تھا اسی لیے وہاں پر خواتین کو اخلاقی پاسداریوں کا سبق دیا جاتا ہے  کہ جس مقصد کے لیے قربانیاں دی تھیں اسکو تو پورا ہونے دو ، کینیڈا میں لب سینے کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم نے کینیڈا کو مذہبی سے زیادہ معاشی سہولت کے لیے اپنایا ہے اور نہ ہی یہ اسلامی ملک ہے کہ یہاں اسلامی قوانین کو لاگو کرنے کی بات کی جائے  ، لہذا یہاں مقصد ہی اور ہے ۔ لیکن بات تو یہ ہے کہ سوال آپکو ہم سے نہیں کرنا تھا ہمیں آپ سے کرنا تھا ، کہ چلیں آپ کے بڑوں نے ہجرت کر کے غلطی کی ، آپ لوگ پاکستان سےچلے کیوں نی جاتے ؟؟؟ اگر آپ کو ننگ پنے میں رہنے کا اتنا ہی شوق ہے تو یورپ کے کسی ملک میں یا تھائی لینڈ کی کسی "گلی" میں ایک فلیٹ خرید لیں زندگی اچھی گزرے گی  اور اگر آپ کو وجودِ پاکستان سے ہی تکلیف ہے تو ممبئی کے ریڈ لائٹ ڈسٹرک میں شاید آپ کی ہی کمی ہے ۔
ایک فقیر صاحب کو تکلیف ہے کہ پاکستان میں یہ کام چھپ چھپا کر کیوں ہوتے ہیں؟ یعنی انکی خواہش ہے کہ  پاکستان میں یہ کام بلکل اسی طرح سڑکوں پر سرِ عام ہونے چاہیں تاکہ پاکستانی عوام اور قوم منافقت کے ٹھپے سے بچ جائے ۔ لگتا ہے موصوف کا تعلق ننگی ٹانگیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی گرم کرنے والے لوگوں کی قسم سے ہو تبھی جناب چھپا چھپی کرنے کے مخالف ہیں ، میرے خیال سے یہ ہی وہ لوگ ہیں جن  کی وجہ سے پاکستان میں پبلک پلیسیز پر گندی بدبو آتی ہے ۔ خیر یہ انہی لوگوں کی مہربانی ہے کہ اب پاکستان بھی مغرب کے رنگ میں ڈھلتا جا رہا ہے ۔بات ہے ایک چیز کو گناہ سمجھنے کی اور اسکو برا سمجھ کر کرنے کی ، یہ ہی بات میں کہتا ہوں کہ آپ جو یہ بات کرتے ہیں ، یہ اسی بات کی دلیل ہے کہ گو پاکستانیوں کے ایمان کمزور ہیں اور وہ یہ گناہ اور برائیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن وہ بہرحال ان چیزوں کو گناہ اور برائی ہی سمجھتے ہیں ۔
جب میں کینیڈا نیا نیا آیا تو بہت سی چیزیں میرے لیے نئی تھیں، اور مجھے معلوم نہ تھا کہ انکے ساتھ کیسے ڈیل کرنا ہے ، مثال کے طور پر میری عادت ہے کہ جب مجھ پر کچھ سوچ طاری ہوتی ہے تو میں سب کچھ چھوڑ کر اس سوچ میں گُم ہو جاتا ہوں ، مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میں کہاں بیٹھا ہوں اور کیا کر رہا ہوں ۔ ایک دفعہ میں لائبریری میں کمپیوٹر استعمال کر رہا تھا ، اور مجھ پر اچانک سوچ طاری ہو گئی اب میں اپنی سوچ میں گُم ہو گیا لہذا مجھے صحیح طرح یاد نہیں کیا ہوا تھا لیکن مجھے کچھ اونچی آواز سنائی دی تھی اور اُسکے بعد کاشف مجھے جھنجھوڑ کر کہہ رہا تھا اُسکی طرف نہ دیکھ ، کاشف کے جھنجھوڑنے کے بعد میں خیالی دنیا سے واپس آچکا تھا بعد میں معلوم ہوا کہ میں اپنی سوچوں میں گُم تھا اور جس طرف میرا منہ تھا اُس طرف ایک موٹا تازہ کالا بیٹھا تھا ، اُسکو یوں لگا جیسے میں اُسکو گھور رہا اور اور وہ کہہ رہا تھا " وٹ دا ایف آر یو سٹیرنگ ایٹ" ۔ گو کہ اخلاقیات صرف شراب پینے اور زنا کاری تک ہی محدود نہیں ہے لیکن "ایف" کا لفظ یہاں ایسا ہی عام ہے جیسے پاکستان میں "ب چ" ،لیکن چونکہ آپ احساس کمتری کے مارے ہوے "ذہنی فقیر " ہیں لہذا آپکو گورے کی اس حرکت پر اخلاق  یاد نہیں آئیں گے ۔
بات ہوئی تھی اخلاقی پستی کی ، سچ بتاوں تو اخلاقی پستی ہر جگہ لیول کے حساب سے ہوتی ہے ، اور معیشیت کے مطابق عوام کے اخلاق ہوتے ہیں ، ورنہ حکومتی عہدیدار تو کینیڈا میں بھی اپنی ٹیکسی کا خرچہ بھی حکومتی جیب سے نکلواتے پکڑے گئے ہیں ۔ پاکستانی عوام کے بارے میں اگر کہا گیا ہے کہ ٹریفک سگنل پر کھڑے ہو کر دیکھ لو تو آپ کو بھی دعوت دی جاتی ہے ، یہاں اگر عوام کے اخلاق اتنے ہی اعلیٰ ہیں تو انہوں نے دکانوں میں کیمرے شو مارنے کے لیے لگا رکھے کیا ؟؟؟ بلکہ یاد آیا کہ یہاں جتنے بڑے بڑے سٹور ہوتے ہیں ان میں ایک انڈر کور سکیورٹی آفیسر بھی گھوم رہا ہوتا ہے ، اگر آپ کسی چیز کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے پیچھے دروازے تک کوئی بندہ آتا رہا تو بچ کر رہنا کہیں وہ آپ کی تلاشی کا وارنٹ نہ نکال لے ۔ ورنہ اگر ادھر بھی سکون نہیں تو کسی ایسی دکان میں گھس جانا جدھر کیمرا نہیں لگا ہوتا ، آپ کو جگہ جگہ شلیف پر کھلے ہوے ڈبے ملیں گے ، سیلز مین بتائے گا کہ کوی کسٹمر چیز نکال کر جیب میں ڈال کر خالی ڈبہ ادھر رکھ گیا ، پیسے تو دیے نہیں اس نے لیکن چونکہ وہ پاکستانی اور مسلمان نہیں تھا اسی لیے ہم اسکے اخلاق پر انگلی نہیں اٹھائیں گے ، ورنہ کچھ تو ایسے شیر دل بھی ہوتے ہیں کہ آدھی چاکلیٹ کھا کر باقی وہیں رکھ جائیں ۔

ہر ایک نے اپنی اپنی حثیت کے مطابق قانون کو رنڈی بنایا ہوا ہے ، ہاں رنڈی سے مجھے یاد آیا کہ آپ کبھی ادھر کی رنڈیوں کا انٹرویو سیشن تو ضرور کریں ، کچھ تو آپ کو ایسی سٹوریا بھی سنائیں گی جب انکو ایک ہی دن "ہول سیل" میں بزنس کرنے کی آفر ہوئی اور لوگ مال خرید کر بھاگ گئے اور بعد میں موٹل کا بل بھی ان کو ہی بھرنا پڑا ، لیکن اسکے جواب میں آپ مجھے کارو کاری اور ونی جیسی کہانیاں سنائیں گے جو ایک صدی میں ایک ہی دفعہ ظہور پذیر ہوتی ہے ، چونکہ اسکے ظہور کی وجہ سے "این جی اوز" کو پیسے کھانے کا موقعہ ملتا ہے اسی لیے میڈیا پر مہم چلا کر خوب انویسٹ منٹ کی جاتی ہے ، لیکن یہ بیچاریوں کے ساتھ جو ونی اور کارو کاری ایک ہی دن ہو جاتی ہے اسکی کسی کو خبر نہیں ۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ جس طرح مغرب میں ہر عورت کو چاہے پیشے کے اعتبار سے وہ "ہوکر" نہ ہو ، رنڈی بنایا ہوا ہے اس سے آپکی فکر کا محور پاکستان بلکل محفوظ ہے ۔
عرب شیخ کے پاس پیسہ ہے ، وہ عرب ہے ، اسکا عرب ہونا اسکے ماتھے پر ولی اللہ ہونے کی مہر ثبت نہیں کرتا ، آپ جیسے جاہل و اجہل پاکستانیوں کی طرف سے موصول ہونے والی ایسی مثالوں سے ایک لطیفہ یاد آیا کہ ایک "فقیر" پاکستان سے  سعودیہ حج کرنے گیا ، وہاں کسی دکان پر کچھ خریدنے لگا تو دکان دار سے لڑائی ہو گئی اس نے خوب گالیاں دیں" تیری ماں دی ، تیری بہن دی ، تیری فلاں تے ڈھمکان" جواب میں عرب نے بھی خوب عربی میں گالیاں دیں، یہ بندہ پاکستان واپس آکر لوگوں کو بتاتا پھرے کے عرب تو بڑے نیک ہوتے ہیں ، میں اسکو گالیاں دیتا تھا وہ مجھے قرآن سناتا تھا ۔ یہ ہی حال آپکا ہے ، بھلا جس شخص نے اپنے حرم میں دوسو عورتیں رکھی ہوں اسکو اچھا مسلمان سمجھے گا ہی کون ؟؟؟؟ اور آپ بھی ہمیں بتائیے گا کہ وہ کونسا ملک ہے جہاں ایک ہی شخص کو دو سو عورتیں حرم میں رکھنے پر محکمہ بہبود آبادی کچھ نی کہتا ۔ چلیں اسنے تو ان عورتوں کو پھر بھی اپنے حرم میں رکھ لیا انکی کچھ نہ کچھ زندگی پھر بھی بچی رہی ، لیکن یہاں آپ کے پسندیدہ مغرب میں جو عورت کو ایک سگریٹ  اور پیزا کے سلائس کے بدلے اپنے حرم کی زینت بناتے ہیں ان پر کوئی فتویٰ نہیں ؟؟؟ صرف اسی لیے کہ انکی چمڑی گوری ہے ؟؟؟ یا اس لیے کہ وہ انگریزی بولتے ہیں۔۔۔
جنت میں اسنے جانا ہے جسنے خاتم النبین کا کلمہ پڑھا ہے ، جو پکا مسلمان ہے اور یہ بات ہمیں پہلے بتا دی گئی ہے ، اسی لیے پہلے بھی یہ ہی کہا تھا کہ جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی جنت کے باغوں میں گزارے گا وہ ہی سب سے اچھا اور صاف ستھرا ہے ، اور جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی وادیوں میں کوڑے کھائے گا وہ نہ صرف وہاں برا ہو گا بلکہ یہاں بھی برا ہی ہے ۔ 

Saturday, July 23, 2011

احساسِ کمتری اور پاکستانی،مسلمان

ہر وقت یہ رونا رویا جاتا ہے کہ ہم پاکستانی اور مسلمان دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن کیوں نہیں ؟  اس کی بہت سی وجوہات میں ایک بہت بڑی وجہ مسلمانوں کے اندر احساسِ کمتری کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔
آج میں چند دوستوں کے ساتھ ایک دوست کی گاڑی میں جا رہا تھا ، عبداللہ جو ہمیشہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتا ہے نے ٹیپ کی آواز کم کرنا شروع کر دی جب ابرار الحق کا پنجابی گانا چلا ۔
وجیہ الدین: کیا ہوا ، آواز کیوں کم کر رہا ہے ؟
عبداللہ: بستی ہو گی ۔
یعنی عبداللہ کے نزدیک گورے لوگ یا دیگر پاکستانی انکو "فاب" کا خطاب دے کر بستی کر سکتے ہیں ۔ یہ کوی اکیلا واقعہ نہیں۔ پچھلے دن میں کاونٹر پر کھڑا تھا کہ ایک صاحب آئے جن سے میری انگریزی میں ہونے والی گفتگو کا اردو ترجمہ کچھ ایسے ہے ۔
صاحب: کیا تمہارے پاس حلال پانی ہے ؟
میں: حلال پانی؟
صاحب: ہاں حلال پانی جو پیتے ہیں
میں: پینے کا پانی وہاں فریج میں رکھا ہوا ہے ۔
صاحب گئے اور ایک بوتل اٹھا لائے میں نے انکو قیمت بتلائی
میں: یہ حلال پانی کا کیا چکر ہے ؟
صاحب: ایک دن میں اس دکان میں آیا تو ایک شخص حلال کھلونے کا پوچھ رہا تھا ۔
میں: حلال کھلونا ؟
صاحب: ہاں حلال کھلونا جس سے بچے کھیلتے ہیں
میں نے یہ ہی واقعہ اتنا ہی امی کو سنایا تھا جب امی نے مجھے کہا ہاں صحیح تو کہہ رہا تھا وہ بھلا کھلونے میں بھی حلال حرام ہوتا ہے کچھ ؟
میں: بلکل امی ، ہوتا ہے اگر کوی ایسی گڑیا ہو جس نے آدھے کپڑے پہن رکھے ہوں تو کیا وہ کھلونا حرام نہیں ہو گا ؟؟؟، یا اسی طرح اگر کسی کھلونے کو بنانے میں حرام اشیاء استعمال ہوی ہوں ۔ یا کسی پر الٹی سیدھی تصاویر بنی ہوں ۔
 میرا جملہ سننے کے بعد امی کا چہرہ یہ بتا رہا تھا کہ انہوں نے اس سے پہلے اس نقطے پر غور نہیں کیا ۔  واپس چلتے ہیں صاحب کے پاس ، اس کے بعد صاحب کا لیکچر شروع ہو گیا ۔
صاحب: دیکھو جناب جب ہم اس ملک میں آئے ہیں تو ہمیں یہاں کے اصولوں کے مطابق رہنا پڑےگا ، ہم ہر چیز میں حلال حرام کے چکر میں نہیں پڑ سکتے ، جو چیز جیسے ملتی ہے ہمیں ویسے ہی لینی ہو گی یہ کیا ہر جگہ حلال حرام کی کل کل لگائی ہوتی ہے ۔  
میں: دیکھیں امی یہ ہے وہ وجہ جس کی وجہ سے مسلمان ایسے پس رہے ہیں ، اب بجائے اسکے کہ وہ اس آدمی کی تحسین کرتا اسکی قدر کرتا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے بارے میں کتنا فکر مند ہے کہ کھلونوں کے بارے میں بھی پوچھ رہا ہے کہ وہ حلال ہیں یا نہیں آگے سے یہ شخص اسکا مذاق اڑا رہا ہے گو کہ یہ سیلز مین نہیں تھا کہ اسکے اس سوال سے تپتا لیکن پھر بھی اس مضبوط ایمان کے مسلمان کی اس حرکت سے اسکو کتنے عرصہ جلن ہوتی رہی ۔ میں نے تو کوی کافر بھی ایسا نہیں دیکھا جو مسلمان کی اس حرکت سے تپا ہو ۔
مسلمان ایسے جانگلوس ہیں کہ کسی جگہ کھانے جائیں گے تو حلال کا پوچھتے ہوے ایسے ڈریں گے جیسے قتل کر کے قاتل پولیس سے ڈرتا ہے، کیا یہاں سبزی خور نہیں رہتے ؟؟ وہ تو کبھی نہیں ڈرے وہ تو ہمیشہ پوچھتے ہیں ، بلکہ کینیڈا کے قانون کے مطابق آپکو حق ہے یہ جاننے کا کہ جو چیز آپ کھا رہے ہیں اسکا منبع کیا ہے ؟
کافر مسلمان سے اچھا ؟
جس پاکستانی کو دیکھو ہر جگہ یہ ہی جہالت کی بات کر رہا ہو گا کہ ہم سے تو اچھے گورے ہیں ، مسلمانوں سے اچھے تو گورے ہیں  کیوں اچھے ہیں جی ؟ وہ اس لیے کہ وہ صفائی کا خیال رکھتے ہیں ۔
چلیں ان کی صفائی کی بھی سنیں، ہمارے یہاں ایک گورا فیملی رہتی تھی ، جنکے بچے بھی اسی سکول میں پڑھتے تھے جس سکول میں میں پڑھتا تھا ، تو ان لوگوں کا ایک گروہ بنا ہوا تھا دوستوں کا جو ہر وقت ساتھ ہی ہوتے تھے ، ان میں یہ گورا فیملی کا بیٹا اور بیٹی بھی شامل تھے ، گو کہ میں ایک الگ تھلگ رہنے والا اور مجمع سے دور رہنے والا انسان ہوں لیکن میرا ایک دوست اس گروہ کا حصہ تھا اسکی وجہ سے مجھے بھی وہ لوگ نہ صرف جانتے تھے بلکہ وہ دوست مجھے بھی اکثر گھسیٹ لیا کرتا تھا ، ایک دن کسی کام کے لیے انکے اپارٹمنٹ جانا پڑا گو کہ میں اندر نہیں گیا تھا لیکن بدبو اتنی زیادہ تھی کے اپارٹمنٹ کے باہر بھی کھڑا ہونا دشوار تھا ، اسکو نہ صرف میں نے بلکہ اس دوست نے بھی شدت سے محسوس کیا ۔
اسی طرح چند دن پہلے میں ، اسلم اور وجیہ الدین صاحب شوارما کھانے گئے ، یہاں زیادہ تر چھوٹی موٹی کھانے کی دکانوں میں سیلف سروس ہوتی ہے یعنی آپ اپنا کھانا خود کاونٹر سے اٹھائیں اور بعد میں اپنا ٹیبل بھی صاف کر کے جائیں ، ہم لوگ اپنا کھانا ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھا رہے تھے ہمارے سامنے والے ٹیبل پر ایک گورا جوڑا بیٹھا تھا ہم لوگ کھانا کھا کر ٹیبل صاف کر کے اٹھے تو دیکھا وہ دنوں غائب تھے اور انکے ٹیبل پر گند ویسے کا ویسے ہی پڑا تھا ، میں نے اسلم کی توجہ اس طرف دلائی اور کھا دیکھو یہ ہیں وہ گورے جنکی ہمیں مثالیں دی جاتی ہیں ۔
کافروں کی صفائی ستھرائی کی کہانیاں بھی عجیب ہیں ، چند دن پہلے ہماری دکان میں ایک کالا بچہ کچھ دن کام کرتا رہا جسکا نام شان تھا ، ایک دن کہنے لگا کہ مجھے واش روم استعمال کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں کا واش روم ایسا ہے کہ استعمال کرنے کو دل نہیں مانتا ۔
شان: تم تو ویسے ہی ادھر کا کچھ استعمال نہیں کرتے اسی لیے تمہیں کچھ اندازہ نہیں۔
میں: میں گھر کے علاوہ کہیں اور واش روم استعمال کرنے سے حتیٰ الامکان پرہیز کرتا ہوں
شان: تو تم سکول میں بھی نہیں کرتے تھے ؟
میں: مجھے سکول میں کبھی واش روم استعمال کرنا یاد نہیں سواے ایک دو دفعہ کے
شان: ہاں ، میرا بھی یہ ہی مسئلہ ہے وہ بہت گندے اور بدبودار ہوتے ہیں ۔
واش روم سے مجھے ایک اور کہانی یاد آگئی یہاں ہر جگہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والا فلش سسٹم بنا ہوتا ہے لیکن ہمارے کالج کے ایک واش روم میں وہ بلکل دروازے کے سامنے تھا ، کہ اگر کوی دروزا کھول دے تو آپ دیکھ سکتے تھے ۔ ایک دن کلاس کے بعد ہم جا رہے تھے کہ راستے میں ایک لڑکے نے روک لیا ، تو ہماری کلاس کے بہت سے لڑکے واش روم استعمال کرنے بھی جا رہے تھے ایک لڑکا باہر نکلا تو پیچھے سے کسی نے اسکو آواز دی اور وہ دروازے کے درمیان ہی کھڑا بات کرنے لگ گیا ، اب میری نظر سامنے پڑی تو جو صاحب پیشاب کر رہے تھے انہوں نے فارغ ہو کر اپنی پینٹ کی زپ بند کرنے کے بعد ہاتھ دھونے کی بھی زحمت گوارا نی کی اور ایسے ہی باہر آگئے اس کے بعد سے میں ہر کورین لڑکے سے ہاتھ ملاتے ہوے ہچکچایا ۔
مجھے پاکستانیوں کی یہ بات سمجھ نی آتی کہ وہ کافروں کو کس بنیاد پر مسلمانوں سے اچھا کہہ دیتے ہیں ؟؟؟ یہ کافر لوگ زنا بھی کرتے ہیں ، شراب بھی پیتے ہیں، حرام کی اولاد بھی پیدا کرتے ہیں   اور جہاں کی گندی گندی حرکتیں ہیں جو یہ کرتے ہیں ، اسکے باوجود بھی یہ ایک اہلِ ایمان سے کیسے اچھے ہو سکتے ہیں ؟؟؟؟ آپ خود سوچیں ایک شخص جو اپنی مقررہ سزا پر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں چلا جائے گا اور ہمشیہ ہمیشہ کی کامیابی اسکی منتظر ہو گی وہ کیسے ایک ایسے شخص سے اچھا ہو سکتا ہے جو ہمشیہ ہمیشہ سے ناکام ہو ؟؟؟

Thursday, July 14, 2011

اِک سیانے فلسفی کے انکل ٹام کو نصائح

دیکھ ٹامے میری ماں نے کہا تھا کہ بیٹا ، پیسے کے پیچھے نہ بھاگ جب تیرے پاس پیسا آنا ہو گا ، تو خود ہی گھر سے باہر نکلے گا۔ اللہ تیرے لیے رستے نکالنا شروع کردے گا تجھے خود سمجھ نہیں آئے گی کہ کہاں کہاں سے کام نکل رہا ہے کہاں کہاں سے پیسا آرہا ہے ۔
تو پاگل ہے ؟ سالے سود کے ڈر سے دو دو نوکریاں کر رہا ہے ؟ قرضہ چڑھا ہے تو چڑھا رہے تو دیتا رہ دو سو ڈالر کی قسط مہانہ ، مجھے دیکھ ہفتے میں تین دن نوکری کرتا ہوں ، چِل مارتا ہوں بچیوں کے ساتھ ڈیٹ پر بھی جاتا ہوں، دس ہزار ڈالر کی گاڑی رکھی ہوی ہے،  بزنس خرید را ہوں ۔ تو کن چکروں میں پڑ گیا ہے ؟
دیکھ ٹامے یہاں کنیڈا میں کوی کسی کو پوچھتا نئی ہے ، کوی راستہ نئی دے گا تجھے ، (انڈیکیٹر کا بٹن دباتے ہوے ) دیکھ جب تو نے سڑک پہ بھی راستہ لینا ہوتا ہے تو خود انڈیکیٹر دے کر دوسری لین میں گھستا ہے کوی تجھے راستہ نی دیتا ۔ یہاں اپنے راستے خود بنا ۔  کسی سیانے نے کہا تھا ( کس سیانے نے ؟) کہ پتھر ہوتا ہے نہ ، وہ ایک جگہ پڑا رہے تو روز نیچے جانا شروع ہو جاتا ہے ، خود سوراخ بنا لیتا ہے اپنے لیے ۔ کنیڈا میں رینا ہے تو پتھر بنو ۔۔۔
ٹامے جس گھر پیسہ نہیں ہوتا وہاں کل بل چلتی رہتی ہے  لڑائی ہر وقت ، "اوے تو نے دو روٹیاں زیادہ کھا لی ؟" ، "پڑے رہتے ہو ، فلمیں ویکھتے رہتے ہو کام دھندا کوی نی ؟" ، جہاں غربت ہے وہاں ایسا ہی ہے ، دیکھ غریبوں کے بچے نئی پڑھتے ، کوی چرس پینے میں لگا وا ، کوی سکولوں سے پھوٹے مار را ۔ تو امیروں کے بچے دیکھ ، سالے پڑھ بھی رہے ، اونچے اونچے کالجوں میں یونیورسٹیوں میں ، اُن کو پتا کہ پیچھے باپ کا پیسا بولے گا ، بزنس کرتے ہیں پتا ہے ڈوب گے تو کوی خطرہ نئی  ، باپ نے ہمارے لیے کمایا آخر ہمیں ای دینا ہے ۔
ہم سالے رسک نی لیتے ، ہزار باتیں سوچتے ، کبھی پار نی ہو سکتے ۔ ابھی جوانی ہے زندگی کے مزے لینا سیکھ ، ابی سے ان چکروں میں پڑ گیا تو زندگی کب انجواے کرنی ؟ جب بڈھا ہو جائے گا ؟؟؟ تیرے بچے چلائیں گے لیمبرگینی ؟؟؟  
چلے گا میرے ساتھ پارٹی پر ؟؟ بچیاں آئی ہونگی ، ابے یار پچھلی بار ایک لڑکی نے "شیلا کی جوانی" پر ڈانس کیا ۔۔۔۔۔
انکل ٹام: (تنگ پڑتے ہوے ) نئی  یار کل جمعہ ہے بعد میں پھر مزدوری پہ جانا ہے ۔
ع
اس لیے غم عزیز رکھتا ہوں
میری خوشیوں کا خون ہے اس میں

Tuesday, July 12, 2011

دو ہفتوں بعد جِم جانے کی سرگُزشت قسط نمبر ایک

کینیڈا میں دو نوکریاں ایک ساتھ کرنا آپکو ایک مشین کی طرح مصروف بنا دیتا ہے ، بقول وجیہ الدین صاحب کے زندگی "کھوتے ورگی" ہو جاتی ہے ۔ دو ہفتے مسلسل ایک جاب سے دوسری جاب پر جانے سے میری زندگی بھی جدیدیت کے پیروکاروں کے بقول مشینی اور وجیہ الدین صاحب کے بقول کھوتے ورگی ہو گئی تھی ، ایسی زندگی میں ایک چیز جو مُجھے اور بھی اُداس کرتی تھی وہ جم سے غیر حاضری تھی ۔ میں دو ہفتوں سے مسلسل یہ ہی سوچ رہا تھا کہ اپنا جم کا اکاونٹ فریز کروا دینا چاہیے اور اس انتظار میں تھا کہ موبائل فون خرید کر ہی یہ گناہِ کبیرہ سر انجام دوں گا لیکن موبائل فون ملنے کے بعد بھی میرا دل "گُٹکوں گُٹکوں" کرتا تھا، لہذا اپنی کمزور طبیعت کے باعث میں جم میں فون کرنے کی  ہمت نہ کر سکا۔ پرسوں ایک نوکری سے دو دن کی چھُٹی ملتے ہی میں نے ارادہ کر لیا کہ کل جم جاوں گا لیکن اتوار کی رات میں دو بجے کے بعد ہی سو سکا تھا، مجھے اسکا اندازہ نہ ہوا کہ دن میں سخت نیند آئے گی وہ بھی بھوکے پیٹ ، اسی لیے میں نے اپنی جاب نمبر ایک ختم کرتے ہی عبداللہ کو فون کیا اور پوچھا کہ کھانے میں کیا ہے ؟ عبداللہ نے بریانی کی خوشخبری سنائی اور میں بے فکرا ہو کر صہیب کے گھر چل دیا جہاں سب موجود تھے ۔لیکن یہ دیکھ کر مجھے ہلکا سا غصہ آیا کہ ڈبے میں چار چمچ بریانی کے تھے ۔
میں : یار یہ کیا ہے ؟ اور نہیں ہے کیا ؟
عبداللہ : نہیں اتنی ہی ہے ۔
میں: یار تو مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا میں آتے ہوے لے آتا ، میں نے جم جانا تھا اتنی سی کھا کر جاوں گا ؟؟؟
عبداللہ : آئیں بائیں شائیں
میرا دل اُسی وقت ٹوٹ چُکا تھا اور جب کاشف نے میرے سوالوں کے جواب سے زیادہ ایک بکواس سی گیم کو اہمیت دی تو اُن ٹکڑوں کے بھی ٹوٹے ہو گئے، دِل تو میرا یہ ہی کیا تھا کہ یہ پلے سٹیشن تھری اُٹھا کر اس کے سر میں ماروں ، لیکن بقول فلمی شاعر" دِل تو ہے دِل ، دِل کا اعتبار کیا کیجیے"،  لہذا میں گھر کو چلا گیا ۔ کمپیوٹر پر بیٹھ کر احساس ہوا کہ نیند سخت آرہی ہے ، جبکہ میں کسی بھی صورت سونا نہیں چاہتا تھا، میری یہ عادت ہے کہ اگر دِن میں سو جاوں تو رات میں سونا مشکل ہو جاتا ہے اور ساری ترتیب برباد ہو جاتی ہے ۔ جِم جانے کا ارادہ میں بریانی کا ڈبہ دیکھ کر ہی ختم کر چُکا تھا ، اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ جِم جانے سے کچھ دیر پہلے ہی کھائیں تو آپکا پیٹ بھاری ہوتا ہے اور ورزشیں کرتے وقت پیٹ میں درد ہوتا ہے ۔ دُکھتے ہوے پیٹ کے ساتھ ورزش کرنا کم سے کم میرے دِل گُردے کی بات تو نہیں۔ اسی لیے جِم جانے کی بجائے میں کمپیوٹر پر بور ہو ہو کر نیند مٹانے کے لیے شوارمے کی دُکان کی طرف نکل دیا۔ باہر دھوپ کافی گہری تھی ، شوارمے کی دُکان میں شوارما کھانے کے ساتھ ساتھ میرا دل کرتا تھا کہ ابھی اسکو ٹرے میں رکھ دوں اور ہاتھی اور بندر کی مکس آواز نکالتے ہوے اپنے بال نوچنا شروع کر دوں ، ایسا کرنے کی وجہ میرے پیچھے بیٹھیں ایرانی اور لبنانی آنٹٰیاں تھیں، جو اونچی اونچی آواز میں اپنے اپنے ایکسنٹ اور انگریزی میں باتیں کر رہی تھیں۔ اور اگر میں اپنے بال نوچتے نوچتے مرنے کے قریب ہو جاتا تو ضرور اپنے سر سے نکلنے والے خون سے ایک لائن لکھ کر اس خود کُشی کا قصور وار انہی دونوں کو ٹھہرا دیتا ۔
شوارما ختم کر کے باہر نکلا تو موُسم کافی سُہانا ہو چکا تھاسورج بادلوں کے پیچھے چھُپ چُکا تھا اور ہلکی ہلکی ٹھنڈٰی ہوا چلنے لگی تھی ، ایسے موُسم میں ، میں سائیکل کچھوے کی رفتار چلایا کرتا ہوں اسی لیے سپرائٹ کے کین کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا مزا بھی صرف محسوس کیا جا سکتا ہے الفاظوں میں بیان کرنا کم سے کم  میرے لیے تو مُشکل ہے ۔
میری پہلی جاب پر حکومت کی طرف سے آنے والا "نیا بچہ" روز مجھ سے پوچھتا تھا کہ تمہاری گرل فرینڈ ہے ؟ کہاں ہے ؟ وغیرہ وغیرہ تو کل میں نے اُسکو تنگ آکر کہہ دیا کہ یار ہے تو کوی نہیں لیکن تم ایک ڈھونڈ دو ، اسنے پُر تجسس لہجے میں پوچھا
شین: بتاو تمہیں کس قسم کی لڑکیاں پسند ہیں؟
میں: یار یہ تو مجھے بھی پتا نہیں
شین: میرا مطلب ہے کہ گوری ، کالی (وہ خود بھی کالا ہے) ، چائنیز ، انڈین ، پاکستانی وغیرہ وغیرہ
میں: (اُسکو تپانے کی غرض سے) کالی
شین: ارے نہیں یار، واقعی ؟
میں: ہاں یار واقعی

گو کہ میں ایسی حرکتیں پہلے بھی کر چُکا تھا لیکن کسی کالے کے ساتھ یہ میرا پہلا تجربہ تھا ، میرا خیال تھا کہ وہ اس پر خوب تپے گا ، کالے کا تپنا کیسا ہوتا ہے جو لوگ کالوں کو جانتے ہیں وہ اس سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ 

آگے کیا ہوا یہ جاننے کے لیے اگلی قسط کا انتظار کریں۔

Sunday, July 10, 2011

چھ جیبوں والی کالی پینٹ

جب کبھی ہم محبت کا لفظ سنتے ہیں تو ہم میں سے بہت سوں کے ذہن میں ہیر رانجھا ، لیلا مجنوں اور دیگر فلمی کہانیوں کے ہیرو اور ہیروئن یا اصلی زندگی میں ہونے والی اسی قسم کی کہانیایاں یا انکے کردار ذہن میں آجاتے ہیں۔ درحقیقت محبت چند احساسات کا نام ہے جو انسان کے کسی بھی چیز کے ساتھ جُڑے ہو سکتے ہیں اسکے لیے انسان کو ہونا ضروری نہیں، میری کالی پینٹ کے ساتھ جُڑا یہ کوی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کے   ساتھ میری زندگی کے  اور بھی بہت سے واقعات جڑے ہیں جنہوں نے احساسات کی دنیا میں چند ایک کو جنم دیا اسی لیے بھی مجھے اپنی چھ جیبوں والی یہ کالی پینٹ بہت عزیز ہے ۔  مجھے کالے رنگ کے کپڑے پہننے کا شوق ہے لیکن اس پینٹ میں ایک خاص بات تھی جو مجھے ہمیشہ اسے پہننے پر مجبور رکھتی تھی ۔  اب یہ پینٹ میرے پاس نہیں ہے کیونکہ میری امی اس پینٹ سے کافی تنگ پڑ گئی تھیں ، میں اکثر مہینہ مہینہ ایک وہی پینٹ پہنے پھرتا رہتا تھا ، اس کے اوپر دیوار پر کرتے ہوے پینٹ کے دھبے لگ گئے میں  تب بھی اسکو پہننے سے باز نہیں آیا ، حتیٰ کے وہ گھٹنوں کے پاس سے پھٹ گئی میں پھر بھی امی کے ڈانٹنے پر یہ ہی کہا کرتا تھا کہ یہ سٹائل ہے اور فیشن ہے اور آخر کار ایک دن امی نے میری غیر موجودگی میں اُسکو کچرے کو "دان" کر دیا گو کہ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا لیکن دیگر واقعات کے برعکس  اس دن مجھے بہت افسوس ہوا ۔
کل میں اپنے دوست اسلم کے ساتھ جا کر "وال مارٹ" سے اسی سے ملتی جلتی چھ جیبوں والی کالی پینٹ لے کر آیا تو مجھے اُسکی بہت یاد آئی۔

Tuesday, July 5, 2011

جب بارش برستی ہے مجھے وہ یاد آتی ہے

جب بارش برستی ہے
مجھے وہ یاد آتی ہے

جیسے دھوپ کی کرنیں
اور شبنم مُسکراتی ہے
وہ میری یاد میں زندہ
میں اُسکی بات میں مُردہ

میں زندوں میں ہوں مُردہ
وہ مُجھکو یہ بتاتی ہے
جب ساون کے بادل تھے
وہ میرے ساتھ پھرتی تھی

اب مجھ پر دھوپ گہری ہے
وہ مُجھ سے دُور جاتی ہے
اب انکل ٹام تُم بچنا
کہ یہ دُنیا کمینی ہے

تمہارے ساتھ پھرتی ہے
کہ جب کلیاں مہکتی ہیں
اور جب کانٹے برستے ہیں
یہ تمکو چھوڑ جاتی ہے

عظیم شاعر و ادیب انکل ٹام

Monday, July 4, 2011

وہ ہنس کر ٹال دیتی ہے


میری ناراضگی پر جو مجھے راتوں جگاتی تھی
اپنے نرم ہاتھوں سے مجھے کھانا کھلاتی تھی

میرے گیلے بستر پر بھی اُسکو نیند آتی تھی
میں جب جاگ جاتا تھا وہ خود بھی جاگ جاتی تھی

 میں اُسکی آنکھ کی ٹھنڈک ہوں وہ مجھکو بتاتی تھی
وہ میرے لیے جنت ہے یہ بھی سُناتی تھی

اُسکے پیروں سے لپٹ کر بھی مجھے جو نیند آتی تھی
نہ وہ گدے پہ آتی تھی ، نہ بستر میں بھاتی تھی

مجھے جب چوٹ آتی تھی ، میں اُسکے پاس جاتا تھا
اپنی گود میں لے کر مجھے وہ چُپ کراتی تھی

میرے درد کے درماں کے لیے کہانی سُناتی تھی
جس میں بو بکر و عمر کی شجاعت کی داستانیں تھیں

میں جوش میں آکر پھر اُسکو یہ بتاتا تھا
مجھے بھی حیدرِ قرار جیسا جرار بننا ہے

مجھے فاوق جیسا ہی حکمران بننا ہے
مجھے وہ تھپتھپاتی تھی ، سینے سے لگاتی تھی

میں جب اُسکو ستاتا تھا ، مجھے وہ چپت لگاتی تھی
پھر یوں مُسکراتی تھی کہ میں بھی مُسکراتا تھا

وہ آج بھی اپنے مصلے پر ہی بیٹھی ہے
میں جب اسکو یہ بتاتا ہوں کہ میں اسکو ستاتا ہوں

وہ ہنس کر ٹال دیتی ہے ، وہ ہنس کر ٹال دیتی ہے


عظیم شاعر و ادیب انکل ٹام

Sunday, July 3, 2011

خیالِ یار کی بات نہ کر

پچھلے دن عمران بھای کی وال پر کمنٹو کمنٹی میں یار دوست مل کر بار بار خیالِ یار کا لفظ استمال رہے تھے ، یہ الفاظ میرے دماغ میں ایسے اٹکے کہ میں نے ان پر بونگی مار دی ۔ مُلاحظہ فرمائیں۔
خیالِ یار کی بات نہ کر،خیالِ یار نے تنگ کیا
اُسکے اقرار کی بات نہ کر ، جسکے پیار نے تنگ کیا
میں تو انتظار ہی کرتا رہا خیالِ یار میں بیٹھ کر
اُس یار کی بات نہ کر جسکے انتظار نے تنگ کیا
عظیم شاعر و ادیب انکل ٹام