چیٹا ڈاڈو کھاڈا ٹاپے
ماموں تو جی ہمارے سارے ہی ہمیں بڑا پیارتے ہیں ، لیکن دو مامووں سے ہماری بڑی فرینکنس ہے جی ، ماموں نصیر بھی ان دو میں سے ایک ہیں۔ وہ جی شاید کوی سٹیج ڈرامہ تھا جس میں اس طرح کے بول کہے گئے تھے ، چیٹا ڈاڈو کھاڈا ٹاپے ، ٹاپ او چیٹے ڈاڈو وا، بس جی وہ ایسے مخولیے کلمات بنے کہ ہمارے اور ماموں کے درمیان ہنس ہنسائی کا ڈرامہ مارکہ نشان بن گئے ۔بس پھر جی جب بھی ہم مامے بھانجے ایک دوسرے کو ملتے بات بعد وچ ہوتی پہلے زور زور سے چیٹا ڈاڈو کھاڈا ٹاپے ٹاپ او چیٹے ڈاڈو وا ، کی گردان دہرای جاتی جسکے درمیان اور بعد اونچے قہقہوں کا دور ہوتا اور پھر ہور کچھ ۔ کنیڈا میں پھینکے جانے کے بعد وچ بھی جی جب کبھی ماموں نصیر سے فونو فونی ہونی ہم نے اس پر بھی یہ ہی گردان دہرایا کرنی ۔ اس وجہ سے ڈڈو ہمارے دماغ پر ایسا چڑھا کہ ہم مینڈک بھول گئے اور ڈڈو ہمارا تکیہ کلام سے لے کر ہر چیز بن گیا۔
ہم نے ڈڈو کے نام پر بڑی شرارتیں بھی کی ہیں جن میں سے ایک کا نام ہے "میں کالا ڈڈو ہوں" لیں جی ملاحظہ کریں۔
یہ جی ان دنوں کی بات ہے جب ہم بچے ہوا کرتے تھے اور نئے نئے کنیڈا میں وارد ہوئے تھے ۔ اور جی بچے تو تھے ہی لہذا شرارتوں کا خوب شوق تھا اور اسکو بڑے ذوق کے ساتھ پورا کیا کرتے تھے۔ ہماری حساب کی کلاس ہوتی تھی، اور کاشف اور میں ایک ہی کلاس میں تھے، ہماری کلاس کافی چھوٹی تھی جس میں دو تین لڑکیاں اور چار پانچ لڑکے تھے جن میں سے ایک دو اکثر ہی غیرحاضری کے دورے پر رہا کرتے تھے ۔ ہماری کلاس میں ایک لڑکا ہوتا تھا جسکا نام شاید کے سے کچھ ہوتا تھا خیر جی وہ کالا تھا یہ اسکی خامی نہیں نہ ہی ہمارے ریسسٹ ہونے کی نشانی ہے لیکن کہانی کے مزے واسطے اس لڑکے کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے۔ بس جی اسکو اردو سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ جی اکثر میرے سے اردو سیکھا کرتا تھا اور میں ٹھیک کے ساتھ ساتھ چسکے بازی کے واسطے اسکو کچھ کچھ غلط بھی سکھایا کرتا تھا جی ۔ ایک دن اس کو میں نے " میں ایک خوبصورت لڑکا ہوں" کا انگریزی سے اردو ترجمہ ایسے کیا کہ " میں کالا ڈڈو ہوں" کاشف نے جی ہنستے اور ڈرتے ہوے ہمیں بڑا منع کیا کہ اسکو یہ نہ سکھاوں لیکن جی ہم پھر بھی باز نہ آے ۔ کلاس میں ایک لڑکی دیسی اردو جاننے والی تھی ہم نے اسکی بھی پرواہ نہ کی اور اسکو اچھی طرح رٹوا دیا۔ اب وہ ہر روز ملیں اور ہمیں "میں ایک کالا ڈڈو ہوں" کی گردان سنا کر ثابت کریں کہ انکی یاداشت کمزور نہیں اور ہم سے تلفظ کی غلطیوں کی اصلاح چاہیں۔ کاشف صاحب ہم پر ایک سرد نگاہ ڈالیں اور ہم منہ نیچے کر کے کھی کھی کیا کریں ۔
پہلا جھٹکا ہمیں اس وقت لگا جب ایک دن سکول سے چھٹی پر وہ مجھے ایک جاپانی حسینہ کے ساتھ باہر نکلتے ہوے ملے۔ مجھے جی انہوں نے راستے میں ہی روک لیا کہ پائی کھتے چلے ہو زرا انکی طرف نظرِ کرم بھی کرو ۔ ہم نے پوچھا کیا ہوا انکو سرخاب کے پر لگے ہیں ؟؟؟ اور بھای معذرت کے ساتھ ہم وہ "ہاے ہاے " والے لڑکے نہیں جو لڑکیوں میں شوق نہ رکھیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ ایک پاکستانی شریف زادے ہیں لڑکیوں پر نظر کرنا سکھایا نہیں گیا ۔ اسنے جی ہمیں ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو "آہو آہو پتا مینوں تو کَنا شریف ایں " (ہاں ہاں مجھے پتا ہے تم کتنے شریف ہو) جناب پھر ہمیں کہنے لگے یہ وجہ نہیں وجہ یہ ہے کہ انکو بھی تمہاری زبان آتی ہے ، ہم نے کھسیانہ ہوتے ہوے کہا "ڈڈو یار تنگ نہ کر"۔ اسنے کہا نہیں نہیں تم اس کا امتحان لے سکتے ہو ۔ ہم نے لڑکی سے اردو میں پوچھا کُڑیے کدھر جانے لگی ہو ، کڑی نے لائبریری کہتے ہوے درست جواب دے کر ہمارے آدھے طوطوں کو پھُر پھُر کر دیا ۔ ہم نے جی اپنے بائیں کندھے پر دائیاں ہاتھ رکھ کر کہا ٹامیا پریشان نہ ہو، جاپانی گُڑیا بڑی شانی ہے تُکا صحیح لگ گیا ہو گا۔ ہم نے پھر دوسرا حملہ کرتے ہوے اردو میں پوچھا تمہیں یہ زبان کیسے آتی ہے ۔ اسنے فیر صحیح جواب دیتے ہوے کہا کہ ہمارے ماپے یہ زبان بولتے ہیں آپس وچ اور ساتھ میں انڈیا کی فلمیں بھی ویکھتے ہیں تو بس ہمیں ساری زندگی سنتے سنتے آگئی ، بے شک ہم بول سکتے نہیں لیکن سمجھ پوری پوری آتی ہے ۔
بس جی اسکے بعد وچ ہمیں بھی پوری پوری سمجھ آچکی تھی اسی لیے ہم تو کھسک لیے وہاں سے اور وہ بھی پتلی گلی سے جو کہ ہمارے علاقے میں ہوتی نہیں ہے ۔ خیر جی یہ تو پہلا جھٹکا تھا ، دوسرا جھٹکا ہمیں سال کے آخر وچ لگا جی ، وہ یہ کہ سکول کا آخری دن تھا اور ہو رہی تھی گرمیوں کی چھُٹیاں ، گھر جاتے ہوے سکول کے باہر ہمیں وہ ہی "ڈڈو"صاحب مل گئے پوچھنے لگے میاں گرمیاں کیسے گزارو گے ہم نے کہا دیکھ بھائی ہم ہیں پاکستانی ہم پہلے سے کوی ارادے نہیں بناتے سب قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں جو ہو سو ہو ۔ پھر پوچھا تم کیا کرنے والے ہو ، اسنے کہا میرے ابا جان چاہتے ہیں کہ میں انکے کراٹے کی جِم میں بچوں بلونگڑوں کو کراٹے سکھایا کروں۔ ہم نے پوچھا کیا تم بھی کراٹے شراٹے جانت ہو ، اسنے کہا بڑی اچھی طرح ابا جان نے ہی سکھاے تھے ۔ بس جی وہ دن آخری تھا پھر ہم نے کبھی انکو اردو نہیں سکھائی ۔ اور اگلے سال تک وہ " میں کالا ڈڈو ہوں " مکمل طور پر بھول چُکے تھے ۔
تحریر بہت خوب ہے۔ اگر یہ "جی" کی تکرار سرے سے نہ ہو تو زیادہ بہتر رہے گی۔
ReplyDeleteتعریف کا شکریہ جاوید بھای ، آئیندہ اسکا خیال رکھنے کی کوشش کروں گا ۔
ReplyDeleteمجھے تو اس بات پر حیرت ہوئی کہ اپ کو اس کے کراٹوں سے ڈر لگا ، کیا اس کا کالا ہونا کافی نہیں تھا
ReplyDeleteبلاامتیاز بھای ، اصل میں مجھے صرف اسکی ناراضگی کا ڈر تھا ویسے وہ شریف سا لڑکہ تھا ۔ ہر کالا غنڈہ نہیں ہوتا ۔
ReplyDeleteجی میں صرف ان کے قد کاٹھ اور جسمانی ساخت کی وجہ سے کہہ رہا تھا
ReplyDeleteکسی قسم کا تعصب مراد نہیں تھا
کیا اس لڑکے نے کبھی آپ کو نہیں کہا کہ آپ بھی کالے "ڈڈو"ہو ہاہاہا
ReplyDeleteاکثر ایسا بھی ہو جاتا ہے۔
بلا امتیاز بھای معذرت میں آپ کی بات نہیں سمجھا تھا ، معافی چاہتا ہوں ۔ اصل میں اسکا قد کاٹھ نارمل تھا ۔ اسی لیے اور اسکی شرافت کی وجہ سے بھی مجھے اس لحاظ سے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہ تھی ۔
ReplyDeleteخرم بھای اگر وہ کہہ دیتا تو میں یقیناً مستقبل میں اس سے بہت ہی دوور رہتا ، اور وہ یہ بات کہہ کر مجھے یہ بتا دیتا کہ وہ "ہاے ہاے" والا لڑکا ہے جسکو لڑکیوں میں کوی انڑسٹ نہیں ۔ یہاں کی تہذیب میں ایسا ہی سمجھا جاتا ہے ۔