ایمان اور عقلیات
عقل کی دو قسمیں
عقل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو سلیم، صحیح اور متوازن ہے ۔ یہ تو وحی و نبوت کی معجزہ طرازیوں کو تسلیم کرتی ہے۔ دوسری وہ جو سقیم، کج اور غیر متوازن ہے۔ اس کا کام شکوک و شبہات پیدا کرنا اور الحاد و زندقہ کے جراثیم کی پرورش کرنا ہے اور ہم جب عقلیات کا ابطال کرتے ہیں یا اس کی شہادت کو مشکوک ٹھہراتے ہیں تو اس سے مراد و دوسری قسم ہوتی ہے پہلی نہیں۔
اسی بات کو ہم ان الفاظ میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب عقلِ معقول اور عقلِ غیر معقول میں اختلاف پیدا ہو تو ہم عقلِ معقول کو غیر معقول پر ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔
مشروط بہ عقلیات ایمان
مشروط بہ عقلیات ایمان درحقیقت ایمان ہی نہیں کیونکہ ایمان جزم و یقین چاہتا ہے اور عقلیات تشکیک مشروط ایمان ، درحقیقت ایمان ہی نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ عین ممکن ہے کہ جس شے کو تم معقول سمجھ رہے ہو ، وہ دوسروں کے نزدیک معقول نہ ہو ۔
پھر اگر ایمان کی فطرت، مزاج اور اثرات پر غور کیا جاے تو وہ جس نوع کا جزم، یقین اور استواری چاہتا ہے ، وہ ایسے عقلیات سے حاصل ہونے والا نہیں کہ جن میں یقین و انضباط کا امکان ہی نہیں ۔
ایمان اگر عقیدے کا ایک خاص سانچہ چاہتا ہے، ایک متعین اذعان کا متقاضی ہے اور ایک منضبط طرزِ فکر کا مطالبہ کرتا ہے تو اس غرض و غایت کو ان عقلیات کے ذریعے کیسے پانا ممکن ہے جو آج کچھ ہیں، کل کچھ۔ عقلیات تو ایک جنس سے تعبیر ہیں اور کون کہہ سکتا ہے ، آئندہ چل کر اس کے تحت کیا کیا انواع ظہور پذیر ہو سکتی ہیں اور اعتراضات و شکوک کی کن نئی نئی سورتوں کی یہ تخلیق کر سکتی ہے۔ ان حالات میں اگر ایمان کو اس غیر منضبط اور غیر محدود جنس کے ساتھ وابستہ قرار دیا جاے گا کہ جس کا مستقبل واضح نہیں اور جس کے امکانات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تو ایسی صورت میں جزم و ایقان میں محکمی و استواری کس طرح پیدا ہو سکتے گی جو کسی طرح کی شرط و قید کو گوارا کرنے والی نہیں۔
ایک آدمی اس وقت تک صحیح معنوں میں مومن نہیں ہوتا اور اس وقت تک ایمان میں جزم و استواری کی نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا ایمان غیر مشروط اور معارضہ و تناقض کی ہر ہر خلش اور خود سے آزاد نہ ہو۔
غرض یہ ہے کہ وہ حضرت جو بشرط دعم معارضہ عقل ایمان کے دعویدار ہیں ، یہ صحیح معنوں میں لذت ایمان سے بہرہ یاب نہیں۔ منطقی حثیت سے ان کی حثیت ایسے شخص سے مختلف نہیں ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ پر ایمان تو رکھتا ہوں مگر صرف اسی حد تک جس حد تک میرے والدین اجازت دیں یا جس حد تک میرا پیر و مرشد اعتراض نہ کرے۔
عقیدہ و الٰہیات کے حقائق کی تشریح کا تعلق دراصل اس چیز سے ہے کہ کوی شخص ایمان کے کس درجے پر فائز ہے ، یا وہ کس حد تک قرآن کے لفائف بیان سے آگاہ اور اس کے ذوقِ استدلال سے واقف ہے ۔
صحابہ کرامؓ کو ایمانیات میں عقل کی ضرورت کیوں محسوس نہ ہوی؟؟
مثلاً صحابہ کے مقدس اور پاکباز گروہ کو کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوی کہ وہ توحید باری ، اثباتِ نبوت اور معاد کے مسائل پر استدلال و قیاس کی بوقلمونیوں کی روشنی میں غور کریں، اس لیے کہ انہوں نے آفتابِ نبوت کی جلوہ آرائیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ریاضِ رسالت کی شمیم آرائیوں سے بغیر کسی وساطت کے قلب و ذہن کو مہکانے کی سعادت حاصل کی تھی۔ ان کے نزدیک آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی زندگی ، آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ، کردار و سیرت کی عظمت اور روز مردہ زندگی کی تابانیاں دلائل و براہین تھے، جن کے ہوتے ہوے کسی مصنوعی منطق کی حاجت ہی نہیں تھی۔ یعنی یہ نفوسِ قدسیہ ایمان و عشق کی اس منزل پر فائز تھے، جہاں بقول ابو سلیمان المنطقی کے لم (کیوں) ساقط ہو جاتا ہے ۔ کیف (کس طرح ) باطل ٹھہرتا ہے ۔ ھلاً( کیوں نہیں) زوال و فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور لو (کاش ایسا ہوتا ) کی کوی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ان لوگوں کے نزدیک توحید، نبوت اور معاد کے مسائل علم و ادراک اور قیاس و استدلال یا فکر و تدبر کی طرفہ طرازیوں کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ ان کی حثٰیت ان کے ہاں ذاتی تجربہ کی تھی۔ انہوں نے تعلق باللہ کی لذتوں کو خود آزمایا تھا۔ نبوت کے شواہد کا عملی کونہ صرف بچشم خود دیکھا تھا بلکہ اس سے اپنے کردار و سیرت کے گوشوں کو سجایا اور آراستہ بھی کیا تھا۔ اسی طرح معاد اور حشت کے مبشرات و منذرات کے بارے میں جو ایمان، جس درجہ یقین اور اذعان حاصل تھا، اسے صرف سال و تجربہ ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، علم و ادراک سے نہیں!
عقل و دانش کے مدعیوں کے تناقص پر ایک دلچسپ نکتہ
علامہ ابن تیمیہؒ نے ایک دلچسپ نکتہ کی نشاندہی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ عقل و دانش کے ان مدعیوں کے طرز عمل میں تناقص دیکھئے کہ منطق ، طبیعات یا الٰہیات میں اگر ان کو اپنے پیر و مرشد سے اختلاف ہو اور یہ دیکھیں کہ ارسطو کے کلام میں خلل و فساد رونما ہے، الاسکندر الافرودیسی
(Alexander of Aphrodisiac)
کی شرح میں غلطیاں ہیں، یا فارابی و ابن سینا کے افکار میں تعارض اور الجھاو ہے تو ان مواقع پر ان کی رگِ عقلیت نہیں پھڑکتی ہے اور یہ کہہ کر ان کی لغزشوں سے دست کش نہیں ہو جاتے کہ یہ غلط ہیں بلکہ ان باتوں کی تاویل کرتے ہیں اور یا پھر توقف سے کام لیتے ہین۔ لیکن یہی معاملہ اگر دینیات میں پیش آئے تو ان کی حریت راے فوراً بیدار ہو جاتی ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ قرآن و حدیث کا مرتبہ ہماری عقل کے مقابلے میں کہیں اونچا ، کہیں قرینِ قیاس اور مبنی بر صحت و صواب ہے لہٰذا یہاں بھی بتقاضاے حسن ظن مناسب تاویل یا توقف سے کام لینا چاہیے ۔
تعجب ہے کہ ایک طرف و تابع و متبوع کا رشتہ اس درجہ شدید ہے کہ ایک چیز کو غلط سمجھنے کے باوجود کوی نہیں چاہتا کہ جس سلسلے یا شخص سے اس کا دامنِ عقیدت وابستہ ہے ، اس سے اختلافِ راے کی نوبت آے۔ دوسری طرف کتاب و وسنت اور آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ساتھ لگاو کا یہ حال ہے کہ ہر شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کی محدود اور سمٹی ہوی عقلی صلاحیتیں کہیں کہیں حقائق دینیہ کو سمجھ نہیں پاتیں تو فوراً یہ کہہ کر ان سے منہ پھیر لیتے ہیں کہ عقل و فلسفہ کے پیمانوں سے ان کی تائید نہیں ہو پاتی۔ کیا فکر و عقیدہ کے اس تضاد پر کبھی اس گروہ نے غور کیا ہے ۔
ماخذ
۱۔الرد علی المنطقین
۲۔موافقہ الصحیح المنقول
۳۔الصحیح المعقول لصحیح المنقول
۴۔عقلیات ابن تیمیہ
عقل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو سلیم، صحیح اور متوازن ہے ۔ یہ تو وحی و نبوت کی معجزہ طرازیوں کو تسلیم کرتی ہے۔ دوسری وہ جو سقیم، کج اور غیر متوازن ہے۔ اس کا کام شکوک و شبہات پیدا کرنا اور الحاد و زندقہ کے جراثیم کی پرورش کرنا ہے اور ہم جب عقلیات کا ابطال کرتے ہیں یا اس کی شہادت کو مشکوک ٹھہراتے ہیں تو اس سے مراد و دوسری قسم ہوتی ہے پہلی نہیں۔
ReplyDeleteاسی بات کو ہم ان الفاظ میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب عقلِ معقول اور عقلِ غیر معقول میں اختلاف پیدا ہو تو ہم عقلِ معقول کو غیر معقول پر ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔
یہی ہے سو بات کی ایک بات اور یہی ہے سلامتی والی بات مگر وہ جو دوسروں کو سفہاء کہنے والے ہیں وہ اسکو تمام بیوقوفیوں کی ماں قرار دیتے ہیں
محمد سعید پالن پوری
اس علمی اور تحقیقی مقالے کو لکھنے پر میری طرف سے شکریہ قبول فرمائیں۔ اللہ آپکو اجر عظیم سے نوازے۔
ReplyDeleteآپ نے تابع اور متبوع سے یاد دلایا، میں پچھلی مرتبہ مدینہ شریف گیا تو زیارات کیلئے ایک سعودی بزرگ کی ٹیکسی میں گیا۔ ایک جگہ رکے تو ایک ساتھی مسافر (جو کہ ایک بنگالی تھا) نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا فاطمہ کی قبر کدھر ہے؟ ٹیکسی والے نے حیرت سے پوچھا کس فاطمہ کی قبر؟ بنگالی نے کہا محمد کی بیٹی فاطمہ- ٹیکسی ڈرائیور نے کہا بھائی کہو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزھراء کی قبر کہاں ہے؟
بنگالی نے کہا میں نے کچھ غلط نہیں کہا میں ایسے ہی پوچھوں گا تجھے بتانا ہے تو بتاؤ نہیں بتانا تو نا بتاؤ۔
اب میں درمیان میں پڑا، میں نے کہا بنگالی بھائی، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جگر گوشہ ہیں، جنت میں عورتوں کی سردار، سیدنا علی حیدر کرار کی زوجہ، حسنین جو کہ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہونگے کی ماں ہیں۔ انکا اتنا عظیم رتبہ ہے تم احترام سے نام کیوں نہیں لیتے، جواب میں اس بنگالی نے (یہ شاید پہلا بنگالی تھا جو پاکستانی کے گلے پڑا ہوگا) مجھے بھی سینگوں پر اُٹھا لیا۔ میں نے بنگالی سے پوچھا تیری بیوی کا کیا نام ہے؟ بندہ سمجھدار تھا میرا چھپا ہوا مقصد سمجھ کر مجھ سے دور جانے لگا تو میں نے پھر پوچھا بنگالی بھائی تیری بیوی کا کیا نام ہے؟ ابھی تو میں نے تیری بیٹی کا نام بھی پوچھنا ہے تجھ سے؟
اسکے بعد ہمارا سارا سفر خاموشی سے گزرا۔
کسی کی بیٹی کا نام پوچھ لو یا بیوی کا نام پوچھ لو تو غیرت (ایمانی) جاگ جائے مگر دین کے شعائر اور حدود پر ایسے گفتگو کریں کہ گھن آنے لگے ان کی باتوں سے۔
محمد سلیم (www.hajisahb.wordpress.com)
علم کی بات نقل کرنے کا شکريہ ۔ جزاک اللہ خيراٌ
ReplyDeleteمنطق کی رٹ لگانے والے عام طور پر غير منطقی باتيں کرتے ہيں ۔ جو شخص يہ نہيں بتا سکتا کہ ديور کے پيچھے کيا ہے ؟ وہ اللہ جو کسی کو نظر ہی نہين آتا پر اپنی منطق کسے چلا سکتا ؟
jazak Allah. bohut achi tehreer hay.
ReplyDeleteماشاء اللہ اچھا اور مفید کالم لکھا ہے
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ اس محنت کو قبول کرئے۔آمین