شوکی اور میں
بابا کی وفات کے بعد پاکستان کی بہت یاد آرہی ہے ، میں نے دو دن پہلے کوی تقریباً تین سال بعد پاکستان فون کیا اور سب سے ہی بات ہوی ، حمیدہ کی وفات کے بعد سے میرا دل مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا ، اسی لیے میں نے کبھی کسی کو فون نہیں کیا نہ ہی کوی رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔ بہت سے لوگوں نے کاشف کے زریعے مجھے پیغام پہنچایا کہ فون کر لیا کرو لیکن میں نہ کبھی دھیان نہیں دیا ، سچ تو یہ ہے کہ میں دھیان دینا چاہتا ہی نہ تھا ۔ ایک دفعہ تو شوکی نے فون کر کے میرے بارے میں کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کیے تھے اور کاشف سے کہا تھا کہ اس ٹوں ٹوں ٹوں کو کہیں کہ کبھی فون ہی کر لیا کر ، لیکن میں نے پھر بھی کسی کو فون نہ کیا ۔
شوکی کا اور میرا رشتہ بھی بڑا عجیب تھا وہ مجھ سے فاصلہ رکھتے ہوے بھی بہت محبت کرتا تھا ، شاید اسکی وجہ ہماری عمروں کا فرق تھا ۔ شوکی مجھ سے کئی سال بڑا ہے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو مجھے اماں کے بعد شوکی کے ساتھ ہی سونا پسند تھا ، اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ اماں اور بابا کے بعد وہی واحد شخص تھا جسکے پاس میں خود کو محفوظ تصور کرتا تھا ۔ عبدالمعیض کی طرح وہ پکڑ کر میرے گال نہیں کاٹتا تھا نہ ہی مجھے ہواوں میں اچھالتا تھا ، لہذا مجھے کبھی اس سے کسی قسم کا ڈر محسوس نہ ہوا۔ مکمل واقعہ تو مجھے یاد نہیں لیکن ایک دفعہ میں نے اماں سے روتے روتے شکایت کی تھی کہ شوکی نے مجھے اپنے ساتھ سونے سے انکار کر دیا تھا میں نے اماں کو روتے ہوے بتایا تو انہوں نے ڈانٹنے کے انداز میں شوکی سے وجہ پوچھی تو اسنے بتایا کہ میں سوتے میں اپنے دانت رگڑتا ہوں جسکی وجہ سے کافی آواز پیدا ہوتی ہے اور اسکی نیند خراب ہوتی ہے ، لیکن چونکہ میں اماں کا بہت لاڈلہ تھا لہٰذا ہار شوکی کی ہی ہوی ۔
میں نے کبھی شوکی کو اپنی عمر کے لحاظ سے جو لڑکے کرتے ہیں وہ کبھی کرتے نہ دیکھا ، مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی محلے کے لڑکوں کے ساتھ اسکو کرکٹ کھیلنے جاتے دیکھا ہو۔ محلے میں بھی شاید وہ ایک دو دفعہ ہی کھیلا ہو گا ۔ اس زمانے میں پانی والی پستول بہت چلتی تھی اور شوکی دو خرید کر لایا تھا ، ایک اپنے لیے اور ایک میرے لیے اور مجھے شوکی کے ساتھ جنگ کرنا بھی اچھی طرح یاد ہے ۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب شوکی بابا کو کھانا دینے جا رہا تھا اور میرے رونے پر اور اماں کے اصرار پر اسنے مجھے بھی سائیکل پر بٹھا لیا ۔ راستے میں ایک جگہ پنجرے میں سانپ بند کر کے رکھے ہوے تھے ، میرے اصرار پر شوکی نے وہاں سائیکل روک کر مجھے سانپ بھی دکھائے ۔ وجہ جگہ تھوڑی سنان تھی اور گرمیوں کے دن تھے اور میرا خیال ہے کہ شوکی مجھے اس جگہ لیجانے سے تھوڑا ڈر رہا تھا شاید خوفناک صورت والے اور بڑی بڑی مونچھوں والے آدمیوں کی موجودگی کی وجہ سے ۔
شوکی ہر طرح سے میرا خیال رکھنے کی کوشش کرتا تھا ، مجھے بچپن میں سکے اور پرانی کرنسی جمع کرنے کا بہت شوک تھا ۔ اس زمانے میں میں دو روپے والے سکے جمع کر رہا تھا میرے پاس انیس سو چھیانوے والے دو سکے موجود تھے جبکہ انیس سو ستناوے والا کوی نہ تھا ، میں ادھر ادھر دیکھتا ہوا باہر گیا جہاں شوکی اپنے چند دوستوں کے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ میں نے جا کر شوکی کو اپنا مدعا سنایا تو اسکے ایک دوست نے کہا کہ ہاں ہاں مونچھ لے پیسے مونچھ لے ، شوکی کو یہ بات شاید پسند نہ آی ، مجھے اسکے الفاظ ابھی تک من و عن یاد ہیں ، اسنے کہا تھا کہ "اگر ہمارے پیسے ہمارے بھائی کے لیے ہی نہیں تو کس کام کے" یہ کہتے ہوے اسنے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر جتنے سکے تھے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیے ، اور میں اسکے دوست کو منہ چڑاتا ہوا چل دیا ۔
جب میں نے پاکستان فون کیا اور شوکی کو بتایا کہ میرے پاس موبائل نہیں ہے لہذا میں اسکو اپنا کوی نمبر نہیں دے سکتا ، اس پر شوکی نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو وہ مجھے ایک سیٹ ٹی سی ایس کر سکتا ہے ۔ جس پر میں نے انکار کر دیا ۔ حمیدہ کی وفات کے بعد شاید میرا وہ تعلق شوکی سے نہ رہے جو تھا لیکن محبت اب بھی باقی ہے ۔
اب ایسا بھی کیا دل چھوٹا کرنا یار ۔ دوست بہت بڑھیا پایا ہے قدر کیجئے گا اسکی
ReplyDeleteمحمد سعید پالن پوری
اب ایسا بھی کیا دل چھوٹا کرنا یار ۔ دوست بہت بڑھیا پایا ہے قدر کیجئے گا اسکی
ReplyDeleteمحمد سعید پالن پوری
محترم سعید پالن پوری صاحب!!
بڑھیا نہیں نہیں ۔۔۔ :) بلکہ اعلٰی ۔۔ حضور اردو کا سلوب ہے ۔ محسوس نہ کی جئیے گا۔
جہاں تک تحریر کا تعلق ہے بہت اچھوتی اور دل کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
محبتیں جو بچھڑ گئیں۔ محبتیں جو روٹھ گئیں۔ محبتیں جسے وقت نے گم کردیا۔ محبتیں جو بدل گئیں۔ محبتیں جنہیں فاصلے کھا گئے۔ محبتیں جن کا سرا ہاتھ سے نکل گیا۔ محبتیں جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ خوش قسمت ہیں۔ اپنے چاہنے والوں سے ٹچ رہا کریں۔ وقت بہت ظالم شئے ہے اور پچھتاوے زندگی بھر ڈستے ہیں۔
سب کو فون کریں۔ میل کریں۔ خط لکھیں۔ اپنے بچپن کے ساتھیوں کو ۔ رشتے داروں عزیزوں کو۔ جاننے والوں کو۔ بستی محلے شہر کے لوگوں کو۔ یقین مانیں دل حوسلے اور عزم ہے بھر جائے گا۔
آپ خوش قسمت ہیں۔اپنی خوش قسمتی کو سستی کاہلی یا قنوطیت کے حوالے مت کریں۔
بھائی ایسے دوست کو تو موبائل چھین کر بھی فون کرنا چاہئے۔
ReplyDeleteسٹریٹ پر جائیں جس کے ہاتھ میں بھی اچھا سا سیٹ نظر آئے نظر اور دم بچا کر اڑا لیں اور دوست کو فون کریں۔
باقی جاوید صاحب نے جو کہہ دیا اس سسے متفق ہوں
مجھے تو کچھ خاص سمجھ نہیں آئی۔ آپ نے اس تحریر میں جو کردار بیان کیے ہیں ان کی وضاحت نہیں کی کس کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ تھا
ReplyDeleteجی ہاں میں سعد بھائی سے متفق ہوں . تحریر سے تو ایسا لگتا ہے کہ شوکی انکل ٹام کا بڑا بھائی ہے. پھر حمیدہ کی بھی وضاحت نہیں کی گئی. نیز اس بات کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ غیر فون نہ کرنے کے اسباب کیا ہیں؟ اب ظاہر ہے یہ کوئی موڈ والا معاملہ تو ہو نہیں سکتا. غیر تو فون کرنا ہی پڑتا ہے چاہے آپکا دل چاہے یا نا چاہے. مجھے لگتا ہے کہ انکل ٹام کے ساتھہ بہت ساری تلخیاں ہیں...
ReplyDeleteجاوید بھائی ! یہ معاملہ زبان کا نہیں بولی کا ہے. انڈیا میں اچھی کوالٹی کے لئے بڑھیا ہی بولا جاتا ہے حتیٰ کہ کراچی کے کچھ علاقوں میں خاص طور پر کپڑے کے تاجر یہ لفظ ضرور بولتے ہیں. یہ لفظ عجیب نہیں بلکہ مستعمل ہے.جیسے اس کی ضد کے لئے گھٹیا ہمارے یہاں عام بولا جاتا ہے.
عجيب مخمصے ميں ڈال ديا ہے آپ نے ۔ آدمی پرديس ميں ہو تو وہ لوگ بھی ياد آتے ہيں جن سے کبھی بات نہ کی تھی ۔ پھر ايسی کيا بات ہوئی کہ گھر والوں سے بھی ايک قسم کی قطع کلامی
ReplyDeleteاللہ سب کی مشکليں آسان کرے
انکل ٹام مجھے نجانے کیوں آپ سے محبت سی ہوتی جا رہی ہے۔
ReplyDeleteپہلے تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ آپ نے تین سال بعد گھر فون کیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
اتنی بھی کیا مجبوریاں ہیں جو آپ فون نہیں کر سکتے ۔ خیر یہ تو آپ کے ذاتی معمولات ہوگے۔
باقیوں کی طرح میری بھی مشورہ یہی ہوگا کہ آپ سب سے رابطے میں رہا کریں اس سے بہت سکون ملتا ہے مجھے یہاں آئے ہوئے دو سال ہوئے ہیں اور میرا نہیں خیال کہ کوئی دن ایسا گزرا ہو جب میری گھر والے سے یا دوستوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی رابطہ نا ہوا ہو ایس ایم ایس ، میل ، فون وغیرہ پر رابطہ رہتا ہی ہے اور مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ میں پاکستان میں ہی ہوں
جاوید بھائی زبان کے تعلق سے تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ میں اردو داں نہیں ہوں بلکہ گجراتی ہوں۔ میں نے جو استعمال کیا تھا وہ بطور بولی کے استعمال کیا تھا جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے اشارہ بھی کیا ہے۔ اور یہ میں نے یہاں سے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ کہ فلاں کا بہت بڑھیا رشتہ آیا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو اب اہل لسان فیصلہ کریں گے کہ اس لفظ کا اس جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں البتہ آپ کا اس بات پہ شکریہ کہ آپنے اس سے اچھے اور غیر متنازعہ لفظ کی نشاندہی کی
ReplyDeleteمحمد سعید پالن پوری
اچھا دوست واقعی کسی نعمت سے کم نہیں اور جب وہ بھائی نما دوست ہو تو اور قریب ہوتا ہے ، آپ کی بابا کی وفات والی پوسٹ پڑھی تھی اللہ آپ کو صبر دے آمین ۔۔
ReplyDeleteتمام ساتھیوں کے تبصرنے کا شکریہ ،۔
ReplyDeleteسعد بھای اور جواد بھای ، کئی دفعہ کہانی نامکمل معلومات کے ساتھ زیادہ اچھی لگتی ہے ۔