Monday, June 27, 2011

دوغلہ پن اور اسکا علاج

دوغلہ پن اور اسکا علاج
مجھے اس حرکت سے سخت چڑ ہے ، بلکہ جتنی چڑ مجھے اس سے شاید ہی کسی اور چیز سے ہو گی ۔ جب میں اپنے معاشرے میں یہ ہوتا دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے بندہ لا لئے لِتر تے ایناں دی آہو آہو سیک چھڈے ۔ بس جی لیکن ایسا نہیں کیا جا سکتا ۔
آجکل ہماری بلاگی دنیا میں بھی دوغلہ پن عروج کو پہنچا ہوا ہے  مثال کے طور پر مجاہدین کو بنیاد بنا کر مخصوص مذہبی فرقوں کو لتاڑنا تو عام ہو چکا ہے ۔ اسکے لیے گالیوں والی سرکار فکرِ پاکستان صاحب کی بھی چند پوسٹیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں اسکے علاوہ آجکل میں ایک نئی سرکار نے ایسی ہی پوسٹ ماری ہے ۔
دوغلہ پن جو دوسرا ہے وہ یہ کہ آپ مخصوص اشخاص کا نام لے کر مخصوص سوچ کو لتاڑیں، جیسا کہ ضیاء الحق کا نام لے کر اپ کسی بھی داڑھی والے کو لتاڑ سکھتے ہیں ، چاہے وہ خود ضیاء الحق کو غلط سمجھتا ہو ۔ اب میری ہی مثال لے لیں ، مجھے ضیاء الحق کے بارے میں اس سے زیادہ پتا نہیں کہ وہ ایک جرنیل تھا جسنے دیگر کی طرح حکومت پر قبضہ کر کے ایک نااہل حکمران کو ہٹا دیا ، وہ خود اہل تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔ لیکن میری داڑھی دیکھ کر مجھے بھی اسکا نام لے کر خوب لتاڑا جاتا ہے ۔  
ایک قسم دوغلے پن کی یہ ہے کہ ہم کریں تو ناچ وہ کریں تو مجرا ، جی ہاں یعنی اگر آپ اپنے موقف پر ڈٹ جائیں اور وہ دینی لحاظ سے جائز ہو تو آپ شدت پسند ہو جائیں گے ، لیکن اگر وہ اپنے موقف پر اڑ جائیں جو کنجر پنے پر ہو تو اسکو براڈ مائینڈنیس اور روشن خیالی کہا جائے گا ۔ یہ بھی ایک دوغلہ پن ہے اور اس میں عموماً نئے نئے امیر جو ڈیفینس میں بنگلہ خریدتے ہیں یا پھر احساس کمتری کے مارے ہوے غریب غربا شامل ہوتے ہیں ۔
دوغلے پن کی ایک اور قسم یہ بھی ہے کہ اگر کوی گالیاں دے رہا ہے کسی ایسے شخص کو جس سے آپ کی عزت پر کوی فرق نہیں پڑتا تو خوب سنیں اور اسکو آزادی اظہار راے کا نام دیں لیکن اگر کوی آپ کی ماں بہن کو گالی دے تو آپ اسکو گالی دیں  ۔
علاج
اسکا علاج مجھے خود پتا کونی تھا ، ایک دن میں بور ہو رہا تھا کسی نے کہا اوے شانے کلَا ہے ، میں نے کہا کیا ؟؟؟ کالا نہیں ہوں یار سانولہ ہوں ، اس نے کہا نہیں میرا مطبل تھا تو اکیلا ہے ۔ میں نے کہا ہاں ، اسنے کہا کوی لڑکی پھسا لے چیٹ روم میں جا کر ۔
میں نے اسکے مشورے کو سراہا اور ایک چیٹ روم مین چلا گیا ۔ لیکن کمبخت وہ مسلمانوں کا نکلا وہاں چل رہی تھی لڑائی جیسا کہ کسی بھی پاکستانی گروپ میں ہوتی ہے ۔ اور لڑائی ہو اور میں وہاں بیٹھ کر چسکے نہ لوں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ تو جی میں بیٹھ گیا وہاں ، اور دیکھنے لگا ۔
ایک شخص دوسرے کے بارے میں کہتا تھا کہ یہ صحابہ کو گالیاں بکتا ہے ، تمہیں پتا نہین صحابہ کون تھے ، کیا تھے ۔ اور ہو گیا فضائل بتانے ۔ دوسرے نے کہا اگر بکتا ہے تو کیا تجھے کیا تکلیف اسکو خود گناہ ملے گا تجھے کیا۔
وہاں جی ایک میرے جیسا بھی بیٹھا تھا جو صرف سن رہا تھا ۔ اسنے چھال ماری اور جو کہتا تھا کہ تمہیں کیا ، اسکی ماں بہن ایک کر دی جی ۔ جواب میں اس نے اسکی ماں بہن ایک کر دی ۔ پھر وہ چھال مارنے والے نے دوسری چھال ماری اور کہا جب وہ اس ماں کو گالیاں دیتا تھا جسکو قرآن نے ماں کہا (یعنی حضرت عائشہؓ ) تو تیری بولتی بند تھی ، تو قیامت والے دن حساب کی بات بتاتا تھا ۔ جب میں نے تیری اس ماں کو گالی دی جسکو تیرے باپ نے تیری ماں کہا تھا تب تیرے سے رہا کیوں نہیں گیا ؟؟؟؟
بس اس دن میں سمجھ گیا کہ دوغلے پن کا یہ ہی علاج ہے ۔

اور مجھے پتا ادھر کوی کمنٹے گا نہیں ، وجہ علاج والے پیرا میں ہے ، اور یہ بھی ایک دوغلہ پن ہے ۔ 
پس ثابت ہوا کہ یہ دنیا دوغلے لوگوں سے بھری پڑی  

15 comments:

  1. دوغلہ پن کا خاتمہ ممکن نہیں!!۔

    ReplyDelete
  2. زبردست لکھا ہے۔
    ماشا اللہ
    شاید یہ دوغلہ پن "تقیہ" کے مسئلہ کو حق سمجھنے کی وجہ سے ہو، کہ خود کو مسلمان بھی شو کرو اور منافقوں کی طرح مسلمانوں اور انکے عقائد کو ہٹ بھی کرو۔ یہ دوغلہ پن عالمی بیماری ہے یہ لوگ صرف اپنی بات کو ہی رائج کرنے کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں

    http://1.bp.blogspot.com/-SCH2Ew66quw/TghhZ76sGkI/AAAAAAAAC0A/WxaLxBoY0L4/s640/attack.jpg۔

    ReplyDelete
  3. زبردست لکھا ہے۔
    میرا بھی آجکل دل کررہا ہے کہ اظہار آزادی کا حق استعمالوں اور گالیاں دوں۔
    بھاڑ میں گئے اخلاق میاں۔۔۔۔۔وہ بکواس کریں تو مختلف سوچوں کا ہونا معاشرے کیلئے ضروری ہے۔
    ہم اپنی سوچ لکھیں تو۔۔۔۔۔۔جاہل اجڈ گدھے ۔۔۔دہشت گرد دقیانوس۔
    کچھ کرنے سکنے کی صلاحیت نہیں۔۔۔۔۔۔۔ہمیں تو کرنا ہی آتا ہے اور کرنے کے زور میں ہی جی رہے ہیں۔۔۔ہیں جی

    ReplyDelete
  4. ہمیں ذاتی طور پر نفاست اور متانت کے ساتھ کیا گیا طنز بھی پسند ہے، پھر خواہ اس کا نشانہ ہم خود ہی کیوں نہ ہوں۔

    حال میں ہوئی بلاگستانی سرگرمیوں نے کئی احباب کے دلوں کو ٹھیس پہونچائی ہے۔ کچھ احباب جن کی رواداری اور صبر و تحمل کا پیمانہ زیادہ گہرا ہے انھوں نے سلجھے انداز میں اپنی بات رکھی جبکہ بعض احباب کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت رہا۔

    ہمارا دوغلہ پن یہ ہے کہ جب ہم خود کو اردو سیارہ کی نظامت کا ایک پرزہ سمجھتے ہیں اس وقت ہم اپنا مذہب، اپنا مسلک، اپنی قومیت، اپنی دوستیاں، اپنے مراسم، اپنی رشتہ داریاں اور اپنی علمیت یا جہالت سب کچھ طاق پر رکھ دیتے ہیں۔ کئی دفعہ ہمیں بھی بلاگران کے مراسلوں سے حد درجہ ذاتی صدمہ پہونچتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھائیں۔ اگر آپ اس دوغلے پن کو ہمارا گناہ سمجھتے ہیں تو ہمیں آپ کی فکر سے کوئی شکایت نہیں۔

    چونکہ اردو بلاگستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس لئے بعض احباب کے ذہنوں میں شاید یہ خیال گھر کر گیا ہے کہ اردو سیارہ کا قیام اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے کیا گیا ہے۔ اور اردو بلاگستان میں پاکستانی احباب کی اکثریت ہے اس لئے غالباً اکثر احباب کا یہ گمان بھی ہو کہ اردو سیارہ پاکستان کے قومی نظریات کا ترجمان ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اردو سیارہ کسی بھی قومی، مذہبی، مسلکی اور سیاسی آلودگی سے پرے محض اردو زبان کی ترویج و ترقی کے خیال سے قائم کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سبھی کو اپنے سیاسی، سماجی اور مذہبی آراء و نظریات کی اشاعت کی آزادی فراہم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

    ذاتیاتی حملوں اور نظریاتی جنگ میں یقیناً فرق ہوتا ہے۔ آپسی تنازعات پر سیارہ کوئی قدم تبھی اٹھاتی ہے جب بات نازیبا کلمات تک جا پہونچے۔ اردو سیارہ پر گالم گلوچ، نازیبا کلمات، فحش مواد اور پائریسی وغیرہ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جبکہ نظریاتی فکر کے اظہار کی آزادی دی جاتی ہے۔ ورنہ دوغلے پن کی صورتحال کچھ یوں ہوگی:

    - وہ سبھی بلاگ جو خدا کے وجود کو مانتے ہیں وہ خارج کر دیئے جائیں گے کیوں کہ ان سے خدا پر یقین نہ رکھنے والی ایک بڑی تعداد کے نظریات کی نفی ہوتی ہے۔ اور اس کے بر عکس۔
    - وہ سبھی بلاگ جو خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں ان کا بلاگ سیارہ سے خارج ہو جائے گا کیوں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اربوں خداؤں کے وجود پر یقین رکھتی ہے۔ اور اس کے بر عکس۔
    - بتوں کے انکاری بلاگ بت پرستوں کے نظریات کے منافی ہونے کے باعث اپنے انجام کو جا پہونچیں گے۔ اور اس کے بر عکس۔
    - ایک طرف قران کو اللہ کا کلام نہ ماننے والے بلاگ نشانہ بنیں گے تو دوسری جانب دیگر آسمانی کتابوں میں تحریف کا دعویٰ کرنے والے بلاگ بھی۔
    - جہاں پاکستانی حکومت و سیاست کو برا بھلا کہنے والے بلاگوں کے دن گنے جا چکے ہوں گے وہیں ہندوستان و امریکہ سمیت دیگر ممالک کی مخالفت کرنے والے بلاگ بھی سیارہ میں اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔
    - اور تو اور ایک ہی ملک میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے حامی ایک دوسرے کے لئے اس قدر تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ بیک وقت سبھی کا اخراج کرنے کی بابت سوچنا ہوگا۔
    - و علیٰ ہٰذا القیاس یہ فہرست کافی طویل ہو سکتی ہے۔

    ان سب کے بعد جو کچھ بچے گا ان میں شاید مرزا غالب اور محلے کے شعراء کی شاعری ہو، کہ علامہ اقبال تو مخالف نطریات کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ یا پھر شاید کچن کارنر اور سلائی کڑھائی کے بلاگ بچیں اور خال خال تکنیکی مضامین والے بلاگ۔ یہی کچھ سرمایا ہوگا اردو سیارہ کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم احباب سے تحریریں لکھتے ہوئے رواداری کا "مشورہ" دیتے ہیں اور قارئیں کو تحمل کی "تلقین" کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سیارہ مسلمان نہیں ہے یعنی اس کی نظروں میں قران کے آسمانی کتاب ہونے یا نہ ہونے کی بابت کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں ایک فرد اسے انسانی کلام کہتا ہے اور روکا نہیں جاتا وہیں بے شمار لوگ جو اس کہنے والے کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ان پر بھی سیارہ نے کوئی قید و بند نہیں لگائی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ قران کو آسمانی کتاب ماننے والے اگر ضرورت محسوس کرتے تو اپنا زور اس کو آسمانی کتاب ثابت کرنے میں صرف کرتے جبکہ بیشتر نے اس بلاگر کو برا بھلا کہنا اور اس بلاگ کا سر کچل دینا اپنے لیئے عین سعادت گردانا۔ اس کوشش میں قران کے ماننے والے اور خود کو مسلمان کہنے والوں میں سے کئیوں نے کس قدر مغلظات اور قابل اعتراض فقرے تحریر کیئے ہیں یہ دیکھ کر "ان کی" اسلامی تعلیمات اور ان کے عقائد و نظریات و جذبات کی خوب ترجمانی ہوتی ہے۔ طرہ یہ کہ سیارہ نے ان کی آواز پر بھی تو کوئی قد غن نہیں لگایا۔ حتیٰ کہ کئی احباب نے اردو سیارہ اور اس کی انتظامیہ کے خلاف عدم اطمینان کا اظہار کیا، ایسی تحریریں بھی پہلی فرصت میں سیارہ پر شائع ہوئیں اور اب تک موجود ہیں۔ یہ نظریاتی جنگ کب ذاتیات سے ہوتے ہوئے اردو سیارہ کے خلاف محاذ آرا ہو گئی یہ بھی خوب دلچسپ قصہ رہا۔ جرم محض اتنا تھا کہ اردو سیارہ نے بعض احباب کے احتجاج کی حمایت نہیں کہ اور جس کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ کیا احتجاج کا تقاضہ یہی ہے کہ انتظامیہ احتجاج کرنے والوں کے تقاضے پورے کرنے سے انکار کر دے تو اس پر پتھراؤ کر دیا جائے؟

    اردو سیارہ تو محض ذریعہ ابلاغ ہے، اور اردو کے فروغ کے خیال سے پوری نیک نیتی کے ساتھ قائم کیا گیا ہے۔ اس میں شمولیت نہ تو کوئی بہت بڑا انعام ہے اور نہ ہی اس سے اخراج کوئی بہت بڑی سزا۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں یہ قاری کی مرضی پر بھی منحصر ہے۔ دوغلہ پن کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ متنازعہ بلاگ کے سیارہ سے اخراج کے بعد اس پر شائع ہونے والی تحریر کے حوالے صف اول کے احتجاج کرنے والے دیتے پھر رہے ہیں۔ ان کے لئے اس کا سیارہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا کیا فرق پیدا کرتا ہے؟

    احباب کو دعوت فکر دی جاتی ہے کہ ایک دفعہ خود کو ایسے کسی غیر جانبدار پلیٹ فارم کے منتظم کے طور پر رکھ کر سوچیں کہ ان کی نظروں میں وہ حد فاصل کہاں ہوگا جس کے ایک طرف ہریالی اور دوسری جانب سرخی ہوگی؟ نیز یہ بھی کہ ان کے وضع کردہ خط سے کون کون خوش ہوگا اور کس کس کو تکلیف پہونچے گی؟

    ReplyDelete
  6. انکل ٹام آج تو کمال کی لکھی ہے۔ واقعی زبردست

    اخری پیرا بہت ہی زبردست ہے

    ReplyDelete
  7. بنیاد پرست نے بھی اچھی لنک شئیر کی ہے

    شکریہ

    ReplyDelete
  8. ابن سعید صاحب:
    چلو میں یہ مان لیتا ہوں کہ اردو سیارہ مسلمان نہیں ہے لیکن اردو سیارہ آپکے بقول ضابطہ اخلاق رکھتا ہے۔

    اور اصول یہ ہے کہ اگر آپ نے کسی کو الزام دینا ہے تو دلیل سے دے سکتے ہو اور مخالف بھی اس کا جواب دلیل ہی سے دے گا۔

    لیکن اگر ایک بندہ صرف الزام تراشی ہی کیا کرئے اور اسکے ساتھ کوئی دلیل بھی ذکر نہ کرئے تو میرے خیال میں مخالف بھی جوابی دلیل کی پرواہ نہیں کرئے گا۔

    کیا صرف اپنی انا کی تسکین کیلئے کسی مذہب کا مذاق اڑانا انصاف ہے؟

    میں یہ مان لیتا ہوں کہ مناظروں میں اس سے بڑے بڑے الزامات مذاہب پر عائد کئے جاتے ہںں لیکن جناب وہ مناظرہ ہوتا ہے اور وہاں آپ نے دلیل سے اپنا الزام ثابت کرنا ہوتا ہے ۔

    یہ نہیں کہ مفت میں الزامات لگا کر قوانین کا مذاق اڑا کر کسی مذہب کی اہانت کی کوشش کی جائے۔

    آپ جناب مکی کے بلاگ پر ایک نظر دہرائیں ،کہںڑ بھی آپکو علمی دلی نظر نہیں آئے گا اور نا ہی کسی مخالف کے دلیل کو وہ سنتا ہے ،بس اسکی زیادہ سے زیادہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ اور اسکے حدود کو پامال کیا جائے۔
    ایک شخص قران مجید کو کتاب اللہ نہیں مانتا ، چلو یہی اسکا عقیدہ ہے لیکن اسکو اگر یہ عقیدہ عوامی مقامات میں ظاہر کرنا ہے تو اسکو ایک علمی دلیل بھی ساتھ بیان کرنا ہوگا، پھر اگر کوئی اسکے دلیل کو توڑ سکے تو ٹھیک ورنہ یہ اپنی بات پر قائم ۔

    لیکن اگر ایک بندہ قران مجید کی بے جا بے حرمتی کرئے اور بغیر کسی وجہ اور کسی دلیل کے یہ کام کرئے تو میرے خیال میں یہ بندہ قانونی مجرم ہوگا۔

    بغیر کسی علمی اور ٹھوس ثبوت کے کسی مذہب یا شخصیت پر الزام لگانا انصاف نہیں ہے۔

    ReplyDelete
  9. @برادرم درویش خراسانی:

    بہت ممکن ہے کہ ہم آپ کے غم و غصہ میں برابر کے شریک ہوں۔ پر ہمیں کسی کی طرفداری پر مجبور نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ متنازعہ بلاگ صاحب بلاگ کی درخواست پر فی الوقت اردو سیارہ کا حصہ نہیں ہے۔

    ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کے مذکورہ اصول کی بنیاد کیا ہے اور اس اصول کے اصول ہونے کی بابت آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔ اور در اصل ہمیں یہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ الزام تراشی کرنے اور عمومی مقامات پر کسی قسم کا عقیدہ رکھنے کے لئے کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں۔ دلیل کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب الزام منوانا ہو یا اپنے عقیدہ کو سچ ثابت کرنا ہو۔ اور ہمیں نہیں لگتا کہ انھوں نے ایسی کوئی کوشش کی ہو اور ایک ایک کو مبصر کو پکڑ کر قائل کرنے کی کوشش کی ہو۔ ذاتی طور پر متنازعہ بلاگ کی کسی تحریر نے ہمارے ایمان کو متزلزل نہیں کیا۔

    بہر صورت، اگر موصوف اپنے موقف کے حوالے سے تشفی بخش دلائل دینے سے قاصر ہیں تو اس کا مطالبہ انھی سے کیا جانا چاہئے۔ سیارہ سے اخراج کرانے کا نعرہ بلند کرنے کے بعد اردو سیارہ کی انتظامیہ کے تئیں عدم اطمینان کا ظہار کرنے سے کیا حاصل ہو جائے گا؟ بھلا اردو سیارہ کیوں کر مجرم یا ملزم قرار پایا؟ اور بالفرض محال وہ تشفی بخش عقلی دلائل دے بھی دیں تو اردو بلاگستان کے کتنے لوگ ان کے "عقیدہ" پر ایمان لانے کے لئے تیار ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کسی دلیل کا مطالبہ چہ معنی دارد؟ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہوگا کہ لاحاصل گفتگو کے بجائے ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر دیگر بلاگران اپنے "تعمیری" تحریروں کی جانب دھیان دیتے؟ اس حوالے سے افتخار اجمل چاچو کا رویہ قابل تحسین رہا، انھوں نے ایک آدھ دفعہ سمجھانے کی کوشش کی۔ خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلتے دیکھ انھوں نے اس جانب سے اپنی توجہ ہٹا لی اور اپنی معمول تحریروں پر توجہ دینا شروع کر دیا۔

    ویسے کسی کا بلاگ کسی قسم کی قانونی گرفت میں آنے کے قابل ہو تو سیارہ کا مفاد اسی میں ہے کہ اس کو فوراً سے پیشتر سیارہ کی فہرست سے خارج کر دیا جائے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق آپ کے اس مفروضے کی کیا سند ہے کہ ایسی تحریریں قومی قانون کی نظروں میں قابل گرفت ہیں؟

    بہر کیف، برادرم ڈاکٹر منیر عباسی کے بلاگ اور یہاں موجود تبصروں سے احباب پر اردو سیارہ کا موقف واضح ہو جانا چاہیئے۔ اگر نہیں، تو ہم میں مزید وضاحت کی سکت اور فرصت باقی نہیں۔ دیگر کئی تعمیری کام ہیں جو اس سے کہیں زیادہ ضروری ہیں۔

    ReplyDelete
  10. پتا نہیں کیوں دنیا بھر میں نظامت اور ادارت کے اصولوں سے لوگوں کے مذہبی جذبات کا احترام نکال دیا گیا ہے. حالانکہ مذہبی جذبات کا احترام انتہا پسندی کو روکتا ہے. نظامت اور ادارت میں انتظامہ کے اپنی پسندیدگی ، اپنے نظریات اور اپنے مفادات مذہبی جذبات سے کہیں اہم ہو گئے ہیں. مغرب تو یہ سب کچھ مالی اور دیگر فوائد کے لئے ہو رہا ہے. اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ مغربی بیہودہ معیارات کو لاگو کیا جا رہا ہے؟

    ReplyDelete
  11. @Dr Jawwad Khan

    المیہ یہ ہے کہ مذاہب عموماً کسی عقیدے پر متفق نہیں ہوتے۔ ایک بات کسی مذہب میں عین جائز ہے تو دوسرے میں وہی توہین و ہتک کا باعث ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے پہلے تبصرے میں موجود ہیں، جن کے اطلاق کے بعد شاید دس فیصد بلاگ بھی سیارہ میں نہ بچیں۔ لہٰذا مذہبی جذبات کی پاسداری کو پیمانہ کر پانا محال ہے، خاص کر بلاگنگ جیسے آزاد پلیٹ فارم پر۔ یہی سبب ہے کہ عموماً اس کو نظامت و ادارت سے ہٹا کر شرکاء کی رضاکارانہ رواداری کے رحم و کرم پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ حالیہ ایگریگیشن سافٹوئیر میں موڈریشن کے لیئے کچھ زیادہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ ہم کسی بہتر متبادل سافٹوئر کی تلاش میں ہیں جس میں پیغام کے درجہ پر ادارت کی سہولت موجود ہو نیز عوامی پسند نا پسند کے ساتھ ساتھ کسی بھی مضمون کو رپورٹ کرنے کی سہولت بھی ہو۔ ایسے ایک آدھ حل ہیں ہماری نظروں میں جن کا تقابلی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے اپنے تبصرے میں اس بات کو بہت ہی وضاحت کے ساتھ دہرایا ہے کہ اردو سیارہ مذہب، قومیت اور سیاست کا ترجمان نہیں بلکہ یہ اردو زبان سے منسلک ہے۔ اور یہ کہ اس دنیا میں اسلام اور پاکستان کے علاوہ بھی مذاہب اور ممالک ہیں جن میں اردو کا رواج ہے۔ لہٰذا سیارہ کو "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کے ساتھ ٹیگ کرنے پر احباب کیوں بضد ہیں؟

    ReplyDelete
  12. انکل ٹام صاحب
    آپ نے جس اخلاقی مرض کی طرف توجہ دلائی ہے يہ پچھلے 40 سال ميں بہت بڑھا ہے اور مزيد تيزی سے بڑھتا جا رہا ہے ۔ وجہ ظاہر ہے مادہ پرستی اور خودغرضی ہے

    ابنِ سعيد صاحب
    انکل ٹام صاحب کی يہ تحرير اس کی متحمل نہيں ہے ۔ آپ اگر اپنی تفصيلی تشريح ايک پوسٹ کی صورت ميں کرتے تو بہتر تھا ۔ آپ کا چونکہ بلاگ نہيں ہے آپ اُردو سيارہ کے کسی بھی رُکن کے بلاگ کو اس کی اجازت سے استعمال کر سکتے ہيں ۔ ميں حاضر ہوں ۔ اگر آپ مجھے اپنی تشريح مندرجہ ذيل پتہ پر بھيج ديں تو ميں اسے اپنے بلاگ پر شائع کر دوں گا ۔ ميں آپ کی تشريح پر سوالات پوچھنے کا حق ابھی اپنے پاس محفوظ رکھتا ہوں ۔ اُميد ہے کہ آپ اراکينِ اُردو سيّارہ کی خاطر اپنا مضمون ضرور مجھے بھيجيں گے
    iabhopal@yahoo.com

    ReplyDelete
  13. مذید کوئی تشریح باقی ہے؟
    صاف لکھاہے کہ وہ مذید کچھ کرنے سے قاصر ہے

    ReplyDelete
  14. ایسا علاج سب سے پہلے میں نے اپنے ایک اہلحدیث جاننے والے کا کیا تھا۔ ایسی مثالوں سے وہ بڑا قابو آتا تھا۔ کیونکہ باقی باتوں پر اس کے دو ہی جواب ہوتے تھے یہ حدیث ضعیف ہے۔ اور اس کی پیش کردو کو غلط ثابت کرنے کے لئے کتابیں بڑھ کر کرو۔
    ایسا علاج کرنے پر اردو سیارہ ضرور بلاگ خارج کر دیتا ہے اگر آپ ایسا علاج کسی انسان کر کر رہے ہو ویسے اردو سیارہ فٹ پلوٹو یا مشتری ہو جاتا ہے۔ ایسی پالیسی کا فائدہ ہی کیا جو آپ نافذ مکمل طور پر کر ہی نا سکتے ہوں؟
    خیر آجکل میں نے ایسا علاج ایک عورت کا کیا ہے۔ لگتا ہے اس کی اصل دکھتی رگ ہاتھ لگ گئی ہے۔ ذرا کچھ ٹیسٹنگ مکمل کر لوں سب کو دعوت دونگا اس کو دوا دینے کی۔

    ReplyDelete
  15. haq ko haq sab kehte han but batil ko batil kehne ki jurat kisi me nahi or agar koi keh de to samjhne ki istataaat kisi me nahi jub tuk ye weakness insani ravion me rahe gi insan dogla rahe ga

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.