Monday, June 20, 2011

حمیدہ

حمیدہ
ٹام میں نے تمہیں کتنی دفعہ منع کیا ہے کہ جس جگہ میں پوچا مارتی ہوں تم وہاں نہ پھرا کرو تم پھر بھی باز نہیں آتے ، حمیدہ کو چڑانے کے لیے میں دوبارہ اسی جگہ الٹے قدموں  جاتے ہوے کہتا ٹھیک ہے ٹھیک ہے اگر میری وجہ سے تمہاری صفائی خراب ہوتی ہے تو میں ادھر آتا ہی نہیں۔ ایسے موقع پر جہاں اماں ہنستی تھیں وہیں اکثر حمیدہ جھاڑو اٹھا کر مجھے مارنے بھی لپکا کرتی تھی۔ لیکن مجھے اس سے کبھی جھاڑو کھانا یاد نہیں ہاں تھپڑ بہت سے یاد ہیں جو میرے منہ پر وقتی لالی اور اسکے لیے اماں کی ڈانٹ کا سبب بنا کرتے تھے۔ شاید وہ کسی کے اوپر گزرنے کی وجہ سے قد کے چھوٹے رہجانے کے ساتھ ساتھ جھاڑے مارنے سے جُڑی کسی حماقت پر بھی یقین رکھتی ہو جسکا مجھے کبھی علم نہ ہوا۔  کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر آج حمیدہ زندہ ہوتی تو میں اسکے بچوں کو ضرور نصیحت کرتا کہ " بھئی اپنی امی سے بچ کر رہا کرو ، اسکے ہاتھوں کے وزن کو مجھ سے زیادہ کوی نہیں جانتا" ۔
اسکے باوجود بھی کہ حمیدہ کی اور میری عمروں میں بہت بڑا فرق تھا، میں حمیدہ کے ساتھ تو تڑاک کر کے بات کیا کرتا تھا، اسکا یہ مطلب نہیں کہ میرے دل میں اسکی عزت نہ تھی۔ شاید جتنی عزت میرے دل میں اسکے لیے تھی کسی اور کے لیے کبھی نہ تھی۔ میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ اسکو آپی ، باجی ، سسٹر وغیرہ بلاوں لیکن  چند دن سے زیادہ میں اس پر عمل نہ کر سکا، شاید بچپن میں اسکے تھپڑوں کی وجہ سے ہونے والے جھگڑوں نے مجھے اس تکلفی عزت سے بے نیاز کر دیا تھا، حمیدہ نے کبھی بھی اس پر نہ مجھے تنبیہ کی اور نہ ہی بُرا منایا ہاں جب مجھے چند دن آپی، باجی اور سِس کا دورا پڑتا تھا وہ مجھے سراہا ضرور کرتی تھی۔
مجھے یاد نہیں کہ اس وقت میں کتنے سال کا تھا، ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ سارا دن ادھر ادھر آوارہ گردی کیا کرتا تھا ،ہو سکتا ہے کہ چھوٹی کلاس میں ہونے کی وجہ سے مجھے جلدی چھٹی ہو جاتی ہو اور میں باقی وقت آوارہ گردی کر کے گزارا کرتا ہوں، بہرحال حمیدہ ان دنوں ہائی سکول میں پڑھا کرتی تھی۔ ایک دن وہ سکول سے آئی اور میں اسکی کمیض کو پیچھے سے پکڑ کر چھلانگیں مارتا ہوا چلنے لگا اور اسنے ٹھپاک کر کے میرے منہ پر تھپڑ جڑ دیا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اماں نے حمیدہ کی بتائی ہو جائز وجوہات سننے کے باوجود بھی میری ہی سائیڈ لی تھی۔
حمیدہ میری غلط حرکتوں پر باقیوں سے زیادہ سختی کا مظاہرہ کرتی تھی، سکول کا کام کرواتے ہوے مجھے اس سے مار کھانا بھی یاد ہے۔ اکثر میری فرمائش پر جب اماں مجھے روٹی میں آلو ڈال کر رول بنا دیتیں تب بھی وہ میرے ساتھ ساتھ اماں کو بھی ڈانٹا کرتی تھی کہ آپ اسکو یہ رول کیوں بنا کر دیتی ہیں، اسکا خیال تھا کہ ایسے کُتے کھاتے ہیں اور چونکہ ہم انسان ہیں ہمیں انسانوں کی طرح روٹی کھانی چاہیے ۔  میرے لیے عید کے کپڑوں کی فکر اسی کو سب سے زیادہ ہوتی تھی لہذا وہ شاپنگ پر جانے سے ایک ہفتہ پہلے ہی مجھے مطلع کر دیتی تھی کہ فلانے دن ہمیں عید کے کپڑے خریدنے جانا ہے لہذا میں تیار رہوں۔  یہ سچ ہے کہ مجھے خریداری کرنا بلکل بھی پسند نہ تھا لیکن پھر بھی حمیدہ مجھے گھسیٹ کر لے جاتی تھی اور عید والے دن اپنی پسند کے کپڑے مجھ پر دیکھ کر اسکو خاص خوشی ہوا کرتی تھی۔
حمیدہ مجھ سے بہت محبت کیا کرتی تھی ، اسی لیے ڈرائنگ روم میں موجود پکچر فریم میں میری ہی تصویر لگی رہتی تھی، حمیدہ نے نہ تو کبھی میری تصویر کو وہاں سے ہٹنے دیا اور نہ ہی کسی اور کی تصویر لگنے دی۔ مجھے ہر وقت ہڈ حرامی کے طعنے دینے کے باوجود بھی وہ میرے کام خود کیا کرتی تھی،شاید میری ہڈ حرامی کا باعث بھی وہ خود تھی ۔ پاکستان میں مجھے کبھی اپنے کپڑے خود استری کرنا یاد نہیں ہر دفعہ حمیدہ خود ہی یہ نیک کام کیا کرتی تھی۔
حمیدہ کو علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، وہ اکثر میرے پاس بیٹھ کر شکوہ کیا کرتی تھی کہ کوی میرے کالج کی فیس نہیں دیتا ورنہ میں بھی کالج میں داخلہ لے لیتی۔ حمیدہ کو دینی علم حاصل کرنے اور دین پر چلنے کا بھی شوق ہوتا تھا ، اسی لیے وہ اکثر اپنی چادر کو منہ پڑ لپیٹ کر پردہ کر لیا کرتی تھی،  ایک دفعہ اسنے جب چہرہ چھپانا شروع کیا تو ایک دن مجھے کہنے لگی کہ سلو آج ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ بچپن سے اب تک تو ہم تمہیں دیکھتے رہے اب منہ چھپانے کا کیا فائدہ اور میں نے اسکو یہ کہہ کر تسلی دی تھی کہ سلو تو جاہل ہے اسکی باتوں کی طرف توجہ نہ دیا کرو۔  حمیدہ اپنی نمازیں پابندی سے پڑھا کرتی تھی، اپنے دینی علم کے شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ اکثر "خواتین کا اسلام" بھی ادھار اُٹھا لاتی تھی۔

اس دن میں پتا نہیں کیوں بہت خوش تھا، ملنڈا سے جان چھڑا کر میں سکول سے باہر نکلتے ہوے مُسکرا رہا تھا جب میں نے مخالف سمت سے کاشف کو آتے ہوے دیکھا۔   میرا خیال تھا کہ یہ اپنی کلاس سکپ کر کے آوارہ گردی کرتا رہا اوراب شاید اپنی سہیلیوں کو باے باے کہنے جا رہا ہے ، یا اسکی کسی سہیلی کا کوی مسئلہ ہو گیا ہے جسکی وجہ سے یہ اتنا تیز تیز چل رہا ہے ، یا شاید کوی لڑائی ہونے والی ہے جسکی وجہ سے اسکے چہرے پر اتنی سنجیدگی ہے۔ لیکن وہ دوسری طرف جانے کی بجاے سیدھا میری طرف ہی آیا ، اور مجھے کندھے سے پکڑ کر کہنے لگا کہ مجھے ابھی ابھی شوکی کا فون آیا ہے کہ حمیدہ فوت ہو گئی ، تو ایسا کر سیدھا سیدھا گھر جا اور میں شاک کی کیفیت میں ہی گھر کی طرف چل دیا مجھے نہیں علم کہ میں اس شاک کی کیفیت سے کب نکلا ، شایدمیں ابھی بھی اسی شاک کی کیفیت میں ہی ہوں۔
اب جب کبھی ماضی کی یہ یادیں مجھے تنگ کرتی ہیں تو بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
میرے اپنے جاننے سے پہلے حمیدہ مجھے جانتی تھی، اپنی تام تر خامیوں کے باوجود وہ ایک آئیڈیل بہن تھی جسکی کوی بھائی خواہش کر سکتا ہو۔  عامر بتاتا ہے کہ فوت ہونے سے پہلے اسنے اپنی مستقل نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل کی بھی کثرت کر لی تھی۔ اللہ تعالیٰ اسکی مغفرت کریں اور اسکے گناہون کو نیکیوں میں بدل دیں اور اسکو جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائیں۔

9 comments:

  1. اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین

    ReplyDelete
  2. انکل آپ کی یہ شروع سے پڑھ کے میں مسکرا دی کیونکہ میں بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہوں
    مگر آپ کی بہن کی وفات کا پڑھ کر دکھ ہوا اللہ تعالیٰ انکو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین

    ReplyDelete
  3. انکل جی کچھ دنوں سے آپ کو بہت اداس محسوس کر رہا ہوں۔ آپ کی اداسی کا سبب آپ کی تحریروں سے ہی پتہ چل رہا ہے لیکن میرا خیال ہے اس طرح لکھنے سے آپ کا دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا اور آپ کچھ پرسکون بھی ہو جائیں گےاللہ تعالیٰ آپ کو حوصلہ عطا فرمائے آمین اللہ تعالیٰ آپ کی بہن حمیدہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین

    ReplyDelete
  4. اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپکی باجی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں۔ اور آپ کے دل صبر و سکون دے۔

    کچھ کسکیں ایسی ہوتی ہیں جو زندگی بھر بے چین رکھتی ہیں۔ کچھ صدمے اور عزیزوں کی بچھڑ جانے غم بہت نڈھال کرتا ہے مگر انکے لئیے خود قرآن کریم پڑھنے سے۔ صدقہ جاریہ کرنے سے۔ ان کے لئیے ژواب جاری کا بندبست کرنے سے ایسی کسکی ، ایسے صدمے کی شدت کم ہوجاتی ہے۔

    اللہ نے آپ کو گر توفیق دے رکھی ہو تو ان کی طرف سے کچھ غریب بچوں کو پڑھا دیں۔ اللہ آپ پہ بھی راضی ہوگا اور اسکا ثواب آپکی باجی مرحومہ کو بھی ملے گا۔

    ReplyDelete
  5. اللہ مرحومہ پر اپنی رحمت بھيجے
    حميدہ بی بی کو ياد کرنے کا بہترين طريقہ يہ ہے کہ جو وہ چاہا کرتی تھيں مگر مجبوری کے تحت نہ کر سکيں اور جو وہ آپ کو بنانا چاہتی تھيں وہ آپ بن جائيں ۔ ميرا قياس کہتا ہے کہ اُن کی روح تک يہ بات اللہ پہنچا دے گا

    ReplyDelete
  6. انکل
    تو کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ حمیداں کی اتنی محبت آپ کو میسر آئی۔
    باقی وہ جس نے دی تھی اس نے واپس لے لی ۔
    تو جو آپکی تھی ہی نہیں اور آپکو دی گءی اور آپ اس سے اتنے مستفید ہوئے تو اس کے چلے جانے پہ غم کیوں۔
    میں یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ مجھے اندازہ ہے کہ حمیداں کوگئے ہوئے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔

    ReplyDelete
  7. دنیا میں سب چیزوں کا مول ہے پر جو انمول ہیں وہ ہے اپنے خون کے رشتے،
    اللہ تعالٰی "حمیدہ بہن کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطاء فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر ہو"

    آمین ثم آمین

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.