Wednesday, June 8, 2011

قرآن کا امثال سے دلائل کا کام لینا

قرآن کا امثال سے دلائل کا کام لینا
قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ امثال کی روشنی میں دین کی بہت سی حقیقتوں کو بیان کر دیتا ہے ۔
ولقد ضربنا للناس فی ھذا القرآن من کل مثل ۔ (روم ۸۵)
ترجمہ: اور ہم نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کر دی۔
علامہ ابن تیمیہؒ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اگر ان مثالوں کے سیاق و سباق کو دیکھا جاے اور ان کا منطقی تجزیہ کیا جاے تو معلوم ہو گا کہ یہ کسی نہ کسی دلیل و برہان کو آپنی آغوش میں لیے ہوے ہیں۔
صریح المعقول لصحیح المنقول صفحہ ۱۴ بحوالہ عقلیات ابن تیمیہ صفحہ ۱۶۴
علامہ ابن تیمہؒ کا دعویٰ ہے اور بلکل بجا دعویٰ ہے کہ عدل و انصاف کے پیمانے صرف یونانیون ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ قرآن خود دلائل و براہین کے سلسلے میں ایک میزان اور کسوٹی پیش کرتا ہے ۔ چناچہ قرآن کی اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے :
اللہ الذی انزل الکتاب بالحق و المیزان (شوریٰ :۱۸)
ترجمہ: خدا ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمای اور عدل و انصاف کی ترازو بھی۔
یہ ترازو کیا ہے ؟ جس کے ذریعے حق و انصاف کو باطل و ناحق سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔ قرآن حکیم نے ان اصولوں کی طرف بھی فکر و تدبر کے رخوں کو پھیرا ہے ۔
مثلاً قرآن حکیم نے اس عقلی پیمانے کی نشاندہی کی ہے کہ وہ متماثل چیزوں کا حکم ہو گا اور دو متفرق اشیاء میں حکم و فیصلہ کے اعتبار سے فرق کیا جاے گا۔ بظاہر یہ دو سادہ حقیقتیں ہیں مگر غور کیجیے تو یہ قیاس و استدلال کے دو پیمانے ہیں اور ان پیمانوں سے کتنے ہی مسائل ہیں جو حل ہو جاتے ہیں۔ قرآن نے اس اصول سے خود بھی کام لیا ہے ۔ حشر میں تفاوت اجر وعمل کی توجیہ بیان کرتے ہوے فرمایا ہے :
افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لا یستون ۔(سجدہ :۱۸)
بتائیے ارسطو جب حد اوسط (مڈل ٹرم) کی دریافت پر فخروناز کرتا ہے تو کیا وہ اس حقیقت سے مختلف کوی شے ہے کہ تمام مشترکات کا حکم ایک ہے ۔ یعنی قیاس و استدلال کی استواریاں اُسی وقت قائم رہ سکیں گی جب ہم یہ دیکھیں گے کہ آیا زیر بحث امور میں کوی شے مشترک اور جماع بھی ہے یا نہیں!
الرد علی المنطقین صفحہ ۳۷۱ ، ۳۷۲بحوالہ عقلیات ابن تیمیہ
علامہ ابن تیمیہؒ نے اس سیاق میں بڑے کام کی بات کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن و فکر استدلال کے سلسلے میں کسی لگے بندے طریق کی طرف دعوت نہیں دیتا اور نہ وہ کسی جامد اور بے لوچ عقلی مہاجِ اثبات کو ، ہر ہر صورت میں قطعی و یقینی سمجھتا ہے ۔ اس کے نزدیک عدل اصل شے ہے ۔ جس کی طرف وہ بار بار توجہ دلاتا ہے ۔
ان اللہ یامر بالعدل (نحل: ۹۰)
ترجمہ: اللہ عدل کا حکم دیتا ہے ۔
لہٰذا یہ عدل اگر قیاس و استدلال اور ترتیب مقدمات کی کسی شکل میں منعکس ہوتا ہے تو اخذ کردہ نتائج بھی صحیح ہوں گے اور اگر قضایا میں منطقی ترتیب کے باوجود منعکس نہیں ہوتا تو اخذ کردہ نتائج بھی صحیح نہیں ہو سکتے ۔
الرد علی المنطقین صفحہ ۳۳۳، ۳۷۲،۳۷۳
یہاں تک تو بحث و نثر کا رنگ عمومی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ منفرد اور متعین دلیل کیا ہے ، جس کو قرآن نے اکثر و بیشتر توحید و معاد کے سلسلے میں پیش کیا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہؒ اس دلیل کو "برہان اولیٰ" کے نام سو موسوم کرتے ہیں اور اس کے دو مختلف اطلاق ہیں۔ پہلے اطلاق کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام معنوی خوبیاں اور محاسن جو انسان کے لیے وجہ فضیلت ہو سکتی ہیں، وہ بطریق اولیٰ اللہ تعالیٰ کے حق میں ثابت ہیں، اور وہ تمام عیوب جن کے انتساب سے خود حضرتِ انسان گریزاں ہے بطریق اولیٰ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منسوب کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ قرآن سے اس طریق استدلال کی مثال ملاحظہ ہو۔
وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِلّٰہِ الۡبَنٰتِ سُبۡحٰنَہٗ ۙ وَ لَہُمۡ مَّا یَشۡتَہُوۡنَ ﴿۵۷
اور ٹھہراتے ہیں اللہ کے لئے بیٹیاں وہ اس سے پاک ہے (لائق نہیں) [۸۱] اور اپنے لئے جو دل چاہتا ہے [۸۲]
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸
اور جب خوشخبری ملے ان میں کسی کو بیٹی کی سارے دن رہے منہ اس کا سیاہ اور جی میں گھٹتا رہے [۸۳]
یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ ﴿۵۹
چھپتا پھرے لوگوں سے مارےبرائی اس خوشخبری کے جو سنی [۸۴] اس کو رہنے دے ذلت قبول کر کے یا اس کو داب دے مٹی میں [۸۵] سنتا ہے برا فیصلہ کرتے ہیں [۸۶]
لِلَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوۡءِ ۚ وَ لِلّٰہِ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰی ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۶۰
جو نہیں مانتے آخرت کو ان کی بری مثال ہے اور اللہ کی مثال (شان) سب سے اوپر [۸۷] اور وہی ہے زبردست حکمت والا [۸۸]

یعنی اس آیت میں جہاں مشرکین مکہ کو اس بات پر سرزنش کرنا مقصور ہے کہ لڑکیوں کہ پیدائش کی خبر پر ناک بھوں کیوں چڑھا تے ہین، وہاں یہ اصول بیان کرنا بھی مقصود ہے کہ جن خوبیوں کو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو ان کو اللہ تعالیٰ کے لیے بھی بطریق اولیٰ پسند کرو اور جو چیز تمہارے لیے عیب و نقص شمار ہوتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے حق میں بھی عیب و نقس ہی سمجھو۔
الرد علی المنطقین صفحہ ۳۵۱
دوسرا اطلاق اگرچہ اس سے متفاد، ماخوذ یا اسی پر متفرع ہے تاہم اس کی دلالت اس سے کسی قدر مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک حقیقت کو تم نے بر بناے مشاہدہ ایک مرتبہ مان لیا اور اس کے امکان میں کسی انداز کے شبہات کو نزدیک نہیں آنے دیا تو اسی حقیقت کے اعادہ کو بطریقِ اولیٰ تسلیم کر لینا چاہیے ۔
موافقہ الصحیح المنقول صفحہ ۱۶
استدلال کے اس انداز کو قرآن حکیم نے اثبات معاد کے سلسلہ میں اکثر پیش فرمایا ہے :
اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ قَادِرٌ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ وَ جَعَلَ لَہُمۡ اَجَلًا لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَاَبَی الظّٰلِمُوۡنَ اِلَّا کُفُوۡرًا ﴿۹۹
کیا نہیں دیکھ چکےکہ جس اللہ نے بنائے آسمان اور زمین وہ بنا سکتا ہے ایسوں کو [۱۴۹] اور مقرر کیا ہے انکے واسطے ایک وقت بے شبہ [۱۵۰] سو نہیں رہا جاتا بے انصافوں کو بن ناشکری کیے [۱۵۱]
بنی اسرائیل ۹۹
اَوَ لَیۡسَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ ؕ؃ بَلٰی ٭ وَ ہُوَ الۡخَلّٰقُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۸۱
کیا جس نے بنائے آسمان اور زمین نہیں بنا سکتا ان جیسے کیوں نہیں اور وہی ہے اصل بنانے والا سب کچھ جاننے والا [۶۷]
یسیں ۸۱
اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ لَمۡ یَعۡیَ بِخَلۡقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیَِۧ الۡمَوۡتٰی ؕ بَلٰۤی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۳۳
کیا نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ جس نے بنائے آسمان اور زمین اور نہ تھکا انکے بنانے میں [۵۹] وہ قدرت رکھتا ہے کہ زندہ کرے مردوں کو کیوں نہیں وہ ہر چیز کر سکتا ہے [۶۰]
احقاف ۳۳
غرض یہ ہے کہ جب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے نعمتِ وجود سے بہرہ ور کیا ہے تو اب آخرت کے معاملے میں کیا استحالہ درپیش ہے ۔
قرآن کی یہ دلیل ایسی سہل ، ایسی دلنشین اور قلب و ذہن کے وسوسوں کو دور کرنے والی ہے کہ کوی منطقی دلیل اثر آفرینی میں اس کی حریف نہیں ہو سکتی۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ بیک وقت ایسی عام فہم بھی ہے کہ ایک عامی بھی اس سے پورا پورا استفادہ کر سکے اور ایسی حکیمانہ بھی کہ عقل و خرد کے اونچے تقاضوں کو بھی بوجہ احسن مطمئن کر سکے۔ 

2 comments:

  1. اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔

    ReplyDelete
  2. جزاک اللہ خيراٌ
    مجھے جو تھوڑا سا علم ہے اس کے کے مطابق اللہ نے انسان کو مشاہرے والا جانور بنايا ہے ۔ اسی لئے امثال سے بات سمجھائی گئی ہے ۔ اس دنيا کے ماہرين علم کيلئے امثال استعمال کرتے ہيں تو اسی لئے

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.