Friday, April 1, 2011

تاریک خیالیوں کا اسلام

مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ کی تفسیر سے ایک واقعہ میں اپنی گزشتہ پوسٹ میں دکھا چکا ہوں، تاریک خیالیے ہمشیہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ مولویوں نے پاکستان کا یہ کر دیا وہ کردیا، چونکہ تاریک خیالیوں کو مولویوں اور مولویوں کے اسلام سے بڑی چڑ ہے اسی لیے اس پوسٹ میں چند ایسے واقعات نقل کروں گا جنسے مولویوں کے بغیر تاریک خیالیوں کا اسلام نظر آے گا ۔

صدر ایوب خاں اور اسلام

۔صدر ایوب خاں ایک نام نہاد روشن خیالیہ تھا آئیے دیکھتے ہیں مولانا سرفراز خاں صفدرؒ کا اسکے زمانے میں کیا تجربہ رہا۔

"صدر ایوب خان کے زمانے میں عائلی قوانین کے ذریعے کچھ چیزیں خلاف شرع نافذ ہوئیں، جو ابھی تک نافذ ہیں۔ ان میں ایک شق یہ بھی تھی کہ مطلقہ غیر حاملہ کی عدت نوے دن ہے۔ ہم نے ملاقات کی کوشش کی۔ علماء کا ایک وفد تیار ہوا کہ اس کو بتائیں کہ یہ جو تمہارا حکم ہے، اس کی ایک شق قرآن کے خلاف ہے اور ایک شق اجماع کے خلاف ہے تو اسلامی ملک میں ایسا کام کرنا جو قرآن اور اجماع امت کے خلاف ہو، صحیح نہیں ہے ۔ لیکن اقتدار اقتدار ہوتا ہے ، اس کا نشہ بہت برا ہوتا ہے۔ ایوب نے کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے ۔ دودن کے بعد جاپان سے ناچنے والوں کا ایک طائفہ آیا جس میں کچھ عورتیں اور کچھ مرد تھے۔ ان کو ایوب نے وقت دے دیا۔ مولانا غلام غوث ہزارویؒ بڑے جرت مند آدمی تھے ۔ انہوں نے ایوب کو کھڑکا دیا کہ علماء کے لیے تو تیرے پاس وقت نہیں ہے اور ان ناچنے والوں کے لیے تیرے پاس وقت ہے۔ اس وقت ایوب نے حقارت سے "ملا" کا لفظ استعمال کیا تھا تو مولانا ہزارویؒ نے مسٹر کرنٹا کا لفظ استعمال کیا جو کافی دیر تک چلتا رہا، لیکن وقت نہ ملا۔ پھر ہم نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے حاجی اللہ دتہ صاحب مرحوم، حاجی ملک اقبال صاحب مرحوم اور صوفی نذیر احمد صاحب مرحوم اور میر محمد شفیع صاحب اور ہم نے ایک وفد تیار کیا۔ اس وقت چودھری صلاح الدین صاحب، حامد ناصر چٹھہ کے والد، یہ قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ ہم وفد کی شکل میں ان کے پاس گئے اور ملاقات کی اور ان کو کہا کہ دیکھو ، ہماری براہ راست ایوب خاں تک رسای نہیں ہوی اور ایک غلط کام ہوا اور اس کی تردید کوی نہ کرے تو ساری قوم گناہ گار ہوتی ہے۔ آپ ہمارے قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ یہ ہماری بات وہاں تک پہنچا دیں، تاکہ ہم بھی گناہ گار نہ ہوں اور ہماری پبلک بھی گناہ گار نہ ہو، کیونکہ غلط چیز کی تردید فرض کفایہ ہے جس طرح تبلیغ فرض کفایہ ہے ۔ اگر کچھ لوگ تبلیغ کریں تو باقی لوگ گناہ سے بچ جاتے ہیں اور اگر کوی بھی نہ کرے تو سارے گنہگار ہوں گے ۔ اسی طرح اگر باطل چیز کی تردید نہ کی جاے تو سب گنہگار ہوں گے۔ ہم نے ان کو سمجھایا کہ دیکھو، عائلی قوانین کی ایک شق یہ ہے کہ مطلقہ غیر حاملہ کی عدت نوے دن ہے اور قرآن پاک میں ایسی مطلقہ کا ذکر بھی ہے کہ جس کی عدت سرے سے ہی نہیں۔ مثلا ایک بچی کا نکاح ہوا اور رخصتی سے پہلے طلاق ہو گئی  تو اس پر عدت نہیں ہے ۔ پھر ہم نے اس مسئلے سے بھی آگاہ کیا کہ فقہی مسئلہ ہے کہ بعض عورتوں کے حالات مختلف ہوئے تو شرعی طور پر اس عورت کی عدت اٹھارہ ماہ کے بعد مکمل ہو، جبکہ تمہارا قانون یہ کہتا ہے کہ اس کی عدت بھی نوے دن ہے ۔ پھر میں نے یہ سمجھایا کہ وہ عورتیں جن کو ہر ماہ حیض آتا ہے اور امکان کے درجے مین ان کی عدت نوے دن بن سکتی ہے، یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ تین مہینے مسلسل تیس تیس دن کے ہوتے ہی نہیں، لہذا یہ قانون قرآن اور فقہ کے بلکل خلاف ہے ۔ چودھری صلاح الدین مرحوم نے ہماری بات سمجھی ۔ سمجھ دار وکیل تھے۔ ہماری گفتگو کو انہوں نے نوٹ کیا۔ پھر معلوم نہیں کہ انہوں نے ہماری بات ایوب تک پہنچائی نہ پہنچائی۔

(ذخیرۃ الجنان جلد ۲ صفحہ ۲۱۳ تا ۲۱۴)

روشن خیالی عقیدہ

بہت عرصہ ہوا کہ جھنگ شہر میں میری تقریر ہوی جو معجزات اور کرامات کے بارے میں تھی۔[ اس کے بعد گکھڑ میں میرے گھر پر] دو گاڑیاں آئیں۔ ان میں ایک عورت تھی اور باقی سب مرد تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے بچوں سے کہا کہ باہر دیکھو کون آیا ہے۔ کہنے لگے، باہر ایک عورت پردے والی ہے اور باقی سب اس کے ساتھ مرد ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کو بیٹھک میں بٹھا دو اور ان کو پانی وغیرہ پلاو۔ گرمی کا زمانہ تھا۔ ان کو بیٹھک میں بٹاھایا اور پانی وغیرہ پلایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ سب کہاں سے آئے ہین۔ کہنے لگے کہ جھنگ شہر سے۔ وہ عورت اس وقت ہیڈ آفیسر تھی یعنی ہسپتالوں کی انچارج تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں، ایک نے کہا کہ میں وکیل ہوں، ایک نے کہا کہ میں انجنیر ہوں۔ وہ سب بہن بھای تھے۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ لوگ میرے رشتہ دار نہیں ہیں۔ ان سب کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے! وہ عورت کہنے لگی کہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہمارے ایک بھای نے خود کشی کی ہے اور ہم نے اسکو زندہ کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کو مذاق کرنے کے لیے کوی اور ضلع نہیں ملا؟ آپ نے ضلع جھنگ طے کیا، پھر ضلع لائل پور طے کیا، پھر آگے شیخوپورہ طے  کیا اور گوجرانوالہ آئے ہو مذاق کرنے کے لیے! کہنے لگی کہ خدا کی قسم، ہم مذاق نہیں کر رہے۔ ہم سچ کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے بھای کو زندہ کر دیں۔ میں نے کہا کہ میرے والدین میرے سامنے فوق ہو چکے ہیں، اتنے عزیزوفات پا چکے ہیں، اگر میرے پاس کوی ایسی طاقت ہوتی تو میں ان کو کیوں مرنے دیتا؟ اگر مر بھی گئے تو میں ان کو زندہ کر دیتا۔ عورت بہت تیز تھی۔ کہنے لگی کہ دیکھو، مردوں کو زندہ کرنے کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس معجزہ تھا۔ اور بھی بہت سے ولیوں سے ثابت ہے۔ کہنے لگی کہ آپ نے ایک تقریر کی تھی، اس میں معجزات اور کرامات بیان کیے تھے۔ آپ دعا کریں، ہمارا بھای زندہ ہو جائے۔ میں نے کہا کہ  دیکھو، اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، چاہے تو سارے مردوں کو زندہ کر دے، لیکن میرے پاس ایسا کوی کام نہیں ہے۔ پھرمیں نے کہا کہ اتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں، لیکن عقیدہ نہیں ہے، عقیدے کچے ہیں۔

(خطبات امام اہلسنت جلد ۳ صفحہ ۲۴۹ تا ۲۵۰)

جیل میں عید کی نماز اور عید کی اذان

نوٹ : یہ واقعہ ۵۳ کی تحریک ختم نبوت کا ہے جب علماء کو جیلوں میں قید کر دیا گیا تھا۔

"جیل میں میرے (یعنی مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ کے ) استاد محترم حضرت مولانا عبدالقدیر بھی تھے۔ عید کا دن تھا۔ افسر ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ عید کی نماز پڑھائیں۔ ہم نے کہا کہ جی، جیل کے اندر نہ جمعے کی نماز ہے اور نہ عید کی نماز۔ جمعے کے لیے شرط ہے ازن عام، لوگ آجاسکیں۔ جیل میں ہم بی کلاس میں تھے اور دوسرے سی کلاس میں تھے ۔ ہم ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے تھے۔ ادھر اذن عام کا یہ عالم تھا کہ ہم سب کا ایک ہی جرم تھا، وہ بھی ختم نبوت کی تحریک میں آئے تھے اور ہم بھی ختم نبوت کی تحریک میں آئے تھے، لیکن ہمیں ان سے ملنے کی اجازت نہین تھی اور انھیں ہم سے ملنے کی اجازت نہین تھی۔ ہم نے جمعہ نہیں پڑھا ، عید بھی نہیں پڑھی۔ جہاں جمعہ نہیں وہاں عید نہیں۔ مولانا عبدالقدیر اوپر چڑھے تھے اور میں نیچے تھا۔ مولانا نے فرمایا۔ میاں! جلدی آو۔ یہ انکا تکیہ کلام تھا۔ بڑی لمبی چوڑی جیل تھی۔ میں دوڑا بھاگا سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر گیا۔ سامنے منظر نظر آتا تھا۔ فرمایا، میاں! دیکھو کیا کر رہے ہیں۔ عید کا دن تھا۔ افسر بھی خاصے تھے۔ سنٹرل جیل تھی۔ کئی علاقوں کے قیدی اور افسر بھی تھے۔ تو ادھر عید کے لیے اذان ہو رہی تھی۔ مولانا صاحب نے کہا کہ میاں دیکھو۔ فرمانے لگے کہ قیدیوں پر ہمارا کوی شکوہ نہیں۔ کوی چور ہے، کوی ڈاکو ہے، کوی قاتل ہے، کوی کچھ ہے ، کوی کچھ ہے۔ افسوس ان افسروں پر ہے جو دو سو سے زیاد ہیں، جیل کے سنٹرل آی جی بھی موجود تھے۔ افسوس ان پڑھے لکھے افسروں پر ہے جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ عید کی نماز کے لیے اذان نہیں ہوتی ۔

(خطبات امام اہل سنت جلد ۲ صفحہ ۲۴۹ تا ۲۵۰)

 کیا عورت انسان نہیں؟

تاریک خیالیوں کا ایک یہ بھی شعبدہ ہوتا ہے کہ جہاں کہی دین کی کوی بات انکی اپنی کھوٹی سمجھ میں نہ آے اس پر بھی مولویوں کو طعنے شروع ہو جاتے ہیں ، سمجھتے خود غلط ہیں اور طعنے مولویوں پر ایسے بہت سے کمنٹ اور مضامین بھی آپنے دیکھے ہوں گے ، مولانا سرفراز خاں صفدر صاحبؒ نے بھی تفسیر کے دوران سورۃ بقرۃ کے تحت اسی قسم کا ایک واقعہ سنایا جو حاضر خدمت ہے۔

میں بچیوں کو قرآن پڑھا رہا تھا تو ایک بی بی آگئی جو پروفیسر تھی۔ مجھے سے کہنے لگی کہ مولانا، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا کہ بی بی اس وقت بچیاں پڑھ رہی ہین۔ اس نے کہا کہ مجھے ذرا جلدی ہے، میں پوچھنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا، پوچھو کیا پوچھتی ہو۔ کہنے لگی کہ دیکھیے کہ امام ابو حنیفہؒ نے یہ کہا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں اعضا کے قصاص کے سلسلے میں مساوات نہیں، تو کیا امام صاحب عورتوں کو انسان نہیں سمجھتے؟ میں کہا کہ بیٹی، تم نے خود مسئلہ چھیڑا ہے، اب مجھے بھی کچھ بیان کرنا پڑے گا۔ میں کہا، دیکھو مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوی شخص کسی کی داڑھی مونڈ ڈالے تو اس کی پوری دیت یعنی سو اونٹ لازم آتی ہے۔ اب اگر ایک عورت کسی مرد کی ڈاڑھی مونڈتی ہے تو مرد اس کی ڈاڑھی کہاں سے موڈے گا، وہ کہاں ہے ؟ میں نے کہا کہ اچھا، تم نے مسئلہ چھیڑا ہے تو بتاو کہ ایک عورت مرد کے آلہ تناسل کو خصیتین سمیت کاٹ دیتی ہے تو مرد اس کی کون سی جگہ کاٹے گا؟ مرد اگر عورت کے سر کو مونڈ ڈالے اور ہو میرے جیسا ہو جو س منڈواے رکھتا ہو تو تم اس کی کون سی جگہ مونڈو گی؟ میں نے کہا کہ مرد کسی عورت کے پستان کاٹ دیتا ہے تو اب مرد کے پستان کہاں ہیں جو کاٹے جائیں گے؟ تو امام صاحب نے کوی غلط بات نہیں کہی، بلکل صحیح کہا ہے ۔ سب بچیاں جو پڑھتی تھیں، سر نیچے کر کے ہنستی تھیں۔ مین نے کہا کہ مسئلہ بیان کرنا ہے ۔ اس نے پوچھا ہے تو اب مجھے بتانا تو پڑے گا۔

(دورہ تفسیر قرآن، سورۃ بقرۃ، آیت نمبر ۲۸۲)


علماء کی سیاست میں مقبولیت


بہت سے تاریک خیالیے شوشے چھوڑتے ہیں کہ علماء کہ سیاست میں مقبولیت اس وجہ سے نہیں کہ وہ علماء سوء ہیں ۔ آیے دیکھتے ہیں کہ اصل وجہ کیا ہے ۔

۱۹۷۱ء میں جمیت علماءِ اسلام نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور دو حلقوں، گکھڑ، وزیر آباد کے حلقے اور شہر گوجرانوالہ کے حلقے میں استاد محترم مفتی عبدالواحد صاحبؒ کو کھڑا کیا گیا۔ ایک پر صوبائی کے لیے اور ایک پر قومی کے لیے۔ دیہاتی علاقوں میں ہمیں بھی جانا پڑتا تھا کیوں کہ میں اس وقت  جمیعت علماء اسلام ضلع   گوجرانوالہ کا امیر تھا۔ جمیعت کے ساتھ تعلق تھا۔ ۱۹۹۰ کے بعد بڑھاپے اور بیماریوں کی وجہ سے اور کچھ پالیسیوں کی وجہ سے جمعیت کے ساتھ نہیں ہوں اور نہ ہی کسی اور جماعت کے ساتھ ہوں۔ حضرت درخواستی زندہ تھے، میں نے ان کو اطلاع دے دی تھی کہ اب میرا کسی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ تو خیر، الیکشن کے سلسلے میں علی پور کے قریب ایک قصبہ میں پہنچے۔ سورج طلوع ہوے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ چودھری صاحب کے بارے میں معلوم کیا۔ نام انکا ڈائری میں درج ہے، زبانی مجھے یاد نہیں ہے۔ چودھری صاحب آئے اور بڑے خوش ہوے، کیوں کہ مجھے جانتے تھے، میری تقاریر بھی سنتے تھے اور مفتی عبدالواحد صاحب کو بھی جانتے تھے۔ کہنے لگے، آج میرے لیے عید کا چاند ہے اور دو عیدیں ہین، دو بزرگ ہمارے قصبے میں تشریف لائے ہیں، بڑی خوشی کی بات ہے۔ ہمارے ساتھ دس بارہ رضا کار بھی تھے ویگن بھری ہوی تھی۔چودھری صاحب نے پرتکلف ناشتہ کرانے کے بعد پوچھا کہ تم کس لیے آئے ہو؟ ہم نے بتایا کہ الیکشن لڑ رہے ہیں اور مولانا کو اس حلقہ میں کھڑا کیا ہے۔ آپ لوگوں کو اکٹھا کریں تا کہ ہم ان سے بات کریں۔ چودھری صاحب نے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ جب لوگ اکٹھے ہوے تو ہم نے تقریریں کیں۔بعد میں چودھری صاحب نے کہا: علماء کرام جی! اگر ناشتے میں کوی کمی ہوئی ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ دوپہر کا ک کھانا تم نے یہیں کھانا ہے۔ انشااللہ کھانے پینے کی کمی کو پورا کریں گے، مگر ووٹ ہم میں سے کوی ایک بھی تمہیں نہین دے گا۔ ہم بڑے حیران ہوے کہ چودھری صاحب تو بڑے خوش تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہمارے لیے عید کا چاند چڑھ گیا ہے اور اب کہتے ہیں کہ ایک ووٹ بھی نہیں دینا۔ بڑا کھرا آدمی تھا۔ کہنے لگا سنو! ہماری آپ میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ بنے پر، زمین پر، نالے پر، درخت پر، جانوروں پر، رشتوں پر۔ ہم سچے بھی ہوتے ہیں، جھوٹے بھی ہوتے ہیں، تم سارے کاموں میں ہمارا ساتھ دو گے؟ ہم نے کہا نہیں۔ تو کہنے لگا، پھر ہم نے ووٹ ان کو دینے ہیں کہ اگر ہم جھوٹے بھی ہوں تو ہمارا ساتھ دیں۔ ہم نے قتل بھی کیا ہو تو ہمارے ساتھ جائے اور کہے یہ قاتل نہیں ہیں۔ چوری کی ہو تو یہ کہے کہ تو بڑے پارسا ہیں۔ ڈاکہ ڈالا ہو تو کہے یہ تو ڈاکو نہیں ہیں۔ ہم نے ووٹ ایسے لوگوں کو دینے ہیں، اس لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ تمہیں مغالطے میں نہیں رکھنا چاہتے۔ اور شہری لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک آیا تو اس کو قسم اٹھا کر تسلی دے دی، دوسرا آیا تو اسکو قسم اٹھا کر تلسی دے دی۔ ایک کے سامنے قرآن اٹھا لیتے ہیں اور دوسرے کے لیے بھی قرآن سر پر رکھ لیتے ہیں۔ اندر کچھ اور ظاہر میں کچھ ہوتے ہیں ۔

(ذخیرۃ الجنان جلد ۸ صفحہ ۲۲۷)

نتیجہ

یہ بہت سے واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ تاریک خیالیے نہ تو اسلام کے بارے میں جانتے ہیں نہ ہی انکا اسلام پر عقیدہ پختا ہے، بہت سی ایسی باتیں جو انکی سمجھ میں نہیں آتیں انکو غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی لیے یہ کبھی بھی اس کے اہل نہیں کہ اسلام پر کچھ تبصرہ کر سکیں ، اور عوام کو ہمیشہ مولانا سرفراز خاں صفدرؒ جیسے جید علماء کی ضرورت رہے گی ۔ 

5 comments:

  1. بہت اعلیٰ جناب ! اتنی اچھی تحریر کو شیئر کرنے کا بہت شکریہ ...علما کی سیاست میں آمد درحقیقت نقصان کا باعٽ ہی بنی ہے . علما اس میدان سے جتنا دور رہیں اتنا ہی اچھا ہے علما کی سیاست میں شمولیت کی ابتدا کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو آخری نتیجہ مولانا ڈیزل جیسے ہستیوں کی صورت ہی نکلتا ہے ...علما کو چاہیے کہ بجائے خود سیاست میں حصّہ لینے کے کچھ لوگوں کو سیاست کے لئے تیار کریں ..

    ReplyDelete
  2. معذرت کے ساتھ عرض ہے ۔کہ تبصرہ کرنے کیلئے کچھ سہولت دیں۔
    نیم اینڈ یوزر کا آپشن کھول دیں۔
    شکریہ

    ReplyDelete
  3. واقعات پڑھ کر اچھا لگا۔۔۔ اچھی تحریر ہے۔۔۔ بہتر ہوتا اگر ان واقعات کے علاوہ آپ اپنے قلم سے بھی معزز انداز میں کُچھ لکھ ڈالتے۔۔۔ اپنے الفاظ سے پڑھنے والوں کو اپنے خیالات اور نظریات کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کرتے۔

    ReplyDelete
  4. ڈاکٹر صاحب: کمنٹنے کا شکریہ

    یاسر بھای: یہ آپشن میرے خیال سے اب کام کرے گی ۔ میں نے کچھ پنگا شنگا لیا ہے ۔

    عادل بھیا: میرے خیال سے یہ واقعات میرے نظریات کے بارے میں لوگوں کو قائل کرنی کی کوشش میں کافی ہیں۔ جس کو یہ پڑھ کر بھی سمجھ نہ آے اسکو اور کیا سمجھا سکتا ہے ؟

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.