Thursday, March 31, 2011

محبت اب نہیں ہو گی۔!!!۔

سردی ہو یا گرمی ، ہمارا ایک ہی ڈیرا تھا، پاکستان برگر ہاوس پر سب سے پہلے ہمیں عاکف لے کر گیا تھا، میرے علاوہ سب کو وہاں برگر کھانا اچھا لگا تھا۔ برگر تو اس سے اچھا ہمارے محلے کا "بسم اللہ" ہی بنا لیتا تھا لیکن مجھے وہاں کی چپس تھوڑی اچھی لگی تھی ۔ لیکن دوسری دفعہ جب عاکف پھر ہمیں وہاں لے گیا تو اسکے بعد میں نے واپسی پر تحیہ کر لیا تھا کہ آئیندہ یہاں ہی آنا ہے اور بلکل اسی طرح دروازے کے سامنے بیٹھنا ہے ۔ میری اس حرکت کو سب سے پہلے سلیم نے محسوس کیا تھا اسکے بعد سب کو یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ میں وہاں برگر کھانے نہیں جاتا بلکہ وہاں سے گزرنے والی کو دیکھنے جاتا تھا ، چونکہ میری شخصیت ایسی ہی ہے ، اسی لیے میں نے بھی ایسا ہی محسوس ہونے دیا کہ میں وہاں انکے اصرار پر برگر کھانے جاتا ہوں بلکہ انہوں نے بھی مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ اصل وجہ وہ جان چکے ہیں۔

ہم چاروں ایک ہی سیٹ پر ہمیشہ بیٹھتے تھے ، اور وہ ہمیشہ میرے پیچھے سے آگے آتی تھی اسی لیے میں کبھی اسکا چہرہ نہیں دیکھ سکا ، پہلی دفعہ تو اسکے  چلنے کا انداز مجھے بہت ہی پسند آیا، کندھے پر پرس لٹکاے اور دونوں ہاتھوں میں پکڑی فائل کو لیے وہ اس انداز میں چلتی تھی جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوے چل رہی ہو۔ بعد میں مجھے یہ اندازہ بھی ہوا کہ اسکے لمبے سلکی بال  بھی  جب چلتے وقت ہلتے ہیں تو منظر اور زیادہ سہانہ ہو جاتا ہے ۔ ہفتے میں پانچ دن چھے سے سات بجے تک ہمارا ڈیرہ وہیں پر ہوتا تھا ، شروع میں تو کبھی عاکف اور موسیٰ پیسے دیتے تھے لیکن بعد میں وہاں جانے کی وجہ چونکہ میں ہی تھا اسی لیے یہ ذمہ داری بھی مستقل طور پر میرے کندھوں پر آن گِری تھی، اور اسکا مجھے کبھی افسوس بھی نہیں ہوا۔

مجھے رال ٹپکاتے بچے بہت برے لگتے ہیں، اور اگر بڑے بھی گِرا رہے ہوں تو افف اللہ اور مجھے بس میں سونے والے بھی بہت برے لگتے ہیں، صبح کے وقت تو اسی لیے کہ  میں سو کر اٹھتا ہوں اور چونکہ ساری رات اسکے خیالوں میں کٹتی ہے اسی لیے میری نیند پوری نہیں ہو پاتی اور ایسے میں کوی میرے سامنے بس میں سونے لگے تو مجھے بہت غصہ آتا ہے اور واپسی پر اسی لیے کہ میں چونکہ تھکا ہوا ہوتا ہوں سارا دِن ہینگر میں کام کر کے تو پھر کوی سامنے سو رہا ہو تو اور بھی زیادہ نیند آتی ہے ۔  لیکن اس وقت بس میں میرے ساتھ بیٹھے یہ خاتون  نہ تو صرف سو رہی تھی بلکہ ساتھ ساتھ رال بھی ٹپکا رہی تھی ۔ ویسے تھی تو میر ہی ٹائپ کی لیکن ایک تو وہ بس میں سو رہی تھی ، اوپری سے رال بھی ٹپکا رہی تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میری سب سے پسندیدہ شرٹ کا بھی ستیا ناس مار رہی تھی، بس یہ ہی وہ چند وجوہات تھیں جنہوں نے اسکو میری نظروں میں نیچا گِرا دیا۔

ابھی میں اپنی شرٹ کے خراب ہونے پر ہی کُڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک "گینگسٹر" ٹائپ لڑکے نے میرے کندھے پر زور سے  ہاتھ (اوے اٹھ یہاں سے )Yo man get upمار کر کہا
چونکہ میں بہت شریف واقع ہوا ہوں اور لڑائیوں اور پھڈوں سے ہمیشہ دور بھاگتا رہا ہوں اسی لیے اسکے لیے سیٹ چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی ، ویسے تو مجھے بس میں کھڑے ہونے سے سخت نفرت ہے لیکن اس دفعہ پتا نہیں کیوں امی کی نصیحتیں دوسروں کی مدد کرنے کے باب میں یاد آگئیں۔  شاید اس غنڈے نے مجھ سے سیٹ مانگتے وقت نہ تو میرا کندھا دیکھا نہ ہی اس نامعلوم  بدتہذیب حسینہ کے منہ سے نکلنے والی رال، چونکہ  اس نے اپنی جیکٹ ہاتھ میں پکڑ ی تھی اور ٹی شرٹ پہلے ہوے تھا اسی لیے اپنے کندھے پر نمی محسوس کر کے اسکو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اسنے غلطی کی ہے۔ ابھی وہ اپنے کندھے کی طرف دیکھ کر برے برے منہ بناتے ہوے یہ ہی سوچ رہا تھا کہ کیا کرے اچانک اس بدتہذیب حسینہ نے میری طرف انگلی اٹھا کر زور سے کہا کہ


"why would you leave me here , in this weather  and situation

(تم مجھے ایسے موسم اور ماحول میں یہاں کیسے چھوڑ سکتے ہو)ؕ


اور بس میں موجود فرنٹ سیٹ پر اپنی امی کی گود میں بیٹھی اس پیاری سی بچی سے لے کر درمیان والی سیٹ پر بیٹھے بابا جی سمیت سب کی نظریں مجھ پر گئیں، اور میری نظریں کھڑکی سے باہر۔ برف بھی پڑ رہی تھی اور تیز ہوا بھی چل رہی تھی  میرے خیال سے
“wind chill”
کے ساتھ منفی ۳۰ تو ضرور ہو گا۔
لیکن جس طرح اس سب کے ساتھ میرا جسم "
Chilled

ہوا تھا اسکے بعد تو درجہ حرارت ضرور منفی ۶۰ ہو گیا ہو گا ۔

میں تو سمجھا تھا سو رہی ہے لیکن یہ سالی تو ٹُن ہے اور وہ بھی فُل ٹائم ، صورتِ حال سے سنبھلتے ہوے ابھی میں یہ ہی سوچ رہا تھا جب اچانک بابا جی کہنے لگے۔

Why would you break up with such a nice girl
(تم ایسی اچھی لڑکی کے ساتھ رشتہ کیوں توڑ رہے ہو 

تو تو خود ہی لے جا اسکو ٹھرکی بابے، بابا جی کی بات پر میں یہ ہی سوچ رہا تھا جب اچانک ایک بچے کی آواز آئی۔

A bus will run over you and santa won’t give you any gifts،right mama
(تم ایک بس کے نیچے آجاو گے اور سینٹا کلاز تمہیں تحائف بھی نہین دے گا)ؕ


سب اسکی طرف تحسین بھری نظروں سے دیکھ رہے تحے جیسے اس نے کوی بڑا تیر مارا ہو جب اسکی ماما اسکے منہ پر ہاتھ رکھ رہی تھی۔ سالا، ابھی سے یہ حال ہے تو بڑا ہو کر کتنا بڑا رن مرید بنے گا یہ، میں یہ ہی سوچ رہا تھا جب بس اچانک ایک سٹاپ پر رکی، میں اللہ کا شکر کرتے وقت اترنے لگا ۔


Yo , take your girlfriend or I ma kick your butt right here maaannnn !!!!
(اوے اپنی گرل فرینڈ کو لے کر جا ورنہ میں تمہارے پچھوڑے پر لات ماروں گا)ؕ


گینگسٹر جو پہلے ہی اپنے کندھے کی وجہ سے کافی غصہ میں تھا اب اور غصے میں نظر آتا تھا ، میں نے بھی سوچا کہ چلو رات کے 
۱۲ بجے بیچاری کے ساتھ پتا نہیں کیا ہو جاے میں نے اسکو بازو سے پکڑ کر بس سے باہر کھینچنا شروع کر دیا ۔


بس ڈرائیور جو بابا جی کی نصیحت اور بچے کی وارننگ سن کر بیک ویومر سے دیکھتے ہوے صورتِ حال کو سمجھنے کے بعد میرے اس لڑکی کو لے کر باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ میں اسکو گھسیٹ کر دروازے کے طرف لے جا رہا تھا جب اسنے اچانک اپنا پرس اوپر اچھال کر بے ڈھنگی سی آواز میں گانا شروع کر دیا


All my scars are open
Tell them I was happy
(میرے تمام زخم پھر سے ہرے ہو گئے انکو بتا دینا کہ میں خوش تھی)؛ؕ


میں نے دائین ہاتھ سے اسے پکڑتے ہوے بائین سے اسکا پرس اٹھایا اور بس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوا، سالی ، آواز نکلتی نہیں اورریہانہ بنی پھرتی ہے ، میں نے اسکی طرف دیکھ کر سوچا اور پھر گھسیٹنے لگا۔ وہ اچانک نیچے بیٹھ گئی اورنشے میں ہی سو گئی ، میں نے اپنے بیگ کو کندھوں سے اتار کر آگے گردن میں لٹکا دیا اور اسکا بیگ اپنے میں ڈال لیا۔ میرے پاس اسکو اپنے کندھے پر


Piggy back ride


دینے کے علاوہ کوی چارہ نہین تھا ، میں اس لڑکی کو لے کر جیراڈ اور یونیورسٹی پر اترا تھا ویسے تو میرا ارادہ جیراڈ جا کر کشمیری چائے سے لطف اندوز ہونا تھا کیونکہ بقول موسیٰ کے وہاں ایک دکان رات ۳ بجے تک کھلی رہتی ہے ، لیکن فلحال "بے سٹریٹ" کراس کر کے میں ڈیلٹا موٹل تک ہی گیا۔میں نے موٹل میں جا کر ایک کمرا لیا اور کاونٹر پر کھڑے رسیپشنسٹ نے میری طرف معین خیز نظروں سے دیکھ کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ جما لی جو مجھے بلکل بھی اچھی نہیں لگی۔ میں اسکو کمرے میں لے کر گیا تو اسکو ہلکا سا ہوش آیا وہ عجیب عجیب سے شکلیں بنا رہی تھی، میں نہیں سمجھ پایا کہ اسکو کیا ہوا ہے اچانک اس نے ایک ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا اور پھر میری طرف دیکھا میں صورتِ حال سمجھنے کی کوشش میں اسکو غور سے دیکھ رہا تھا ، اچانک اسکی آنکھیں بہت زیادہ کھل گئیں اور اسنے ایک دم سے اپنے منہ سے ہاتھ ہٹایا اور اُلٹی کر دی جو سب میرے پر گری کیونکہ میں اسکے سامنے کھڑا ہوا تھا۔ میری شرٹ جسکا وہ پہلے بس میں ستیاناس مار چکی تھی اور بیکار کر دیا، میں ابھی اس صورت حال سے سمبھل نہیں پایا تھا کہ اچانک وہ بیڈ کی طرف جا کر لڑھک کر بیڈ پر گِر گئ،میں نے ٹِشو سے اسکا منہ صاف کیا اور اپنے آپ کو صاف کرنے کے لیے واش روم میں چلا گیا۔

خیر میں نے بہت تحمل سے اپنی شرٹ کو پانی سے صاف کیا اور نیچے سے استری لے کر آیا جو خوش قسمتی سے مجھے رشیپسنسٹ نے دے دی، میں نے اپنی شرٹ کو استری کر کے پہنا ہی تھا کہ اچانک فون بجنے لگا، میں نے اپنا فون چیک کیا لیکن یہ میرا فون نہیں تھا مجھے اچانک لڑکی کے بیگ کا خیال آیا،یہ لڑکی کا ہی فون تھا جو بج رہا تھا ۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ شیلا کہاں ہے ، میں نے کہا میرے پاس ہی سو رہی ہے ۔ اس نے پوچھا تم کہاں ہو، میں نے کہا کہ ڈیلٹا موٹل میں جو کہ یونیورسٹی اور ینگ پر ہے ۔ اسی وقت فون کٹ گیا، میں نے بٹن بند کرنے شروع کیے اور فرش کو صاف کرنا شروع کر دیا اچانک ایک دم سے دروازہ کھلا اور پولیس اندر آگئی، میں جو پہلے ہی ڈرا ہوا تھا اور بھی ڈر گیا۔


بعد میں مجھے پتا چلا کہ لڑکی جو اپنے بواے فرینڈ سے لڑای ہونے کے بعد خوب پی کر ٹُن ہو گئی تھی، اور چلی آی تھی، اسکے بواے فرینڈ نے فون کر کے اسکی بہن کو بتایا کہ اسطرح وہ ٹُن ہے اور خود ہی چلی گئی ہے انہوں نے اسکو جہاں وہ تلاش سکتے تھے تلاشا لیکن وہ نہ ملی اور پھر انہوں نے اسکے موبائل پر فون کیا جو میں نے اُٹھایا اور انکو بتا دیا کہ میں کہاں ہوں ، انہوں نے ساتھ ہی پولیس کو بھی فون کر دیا اور خود بھی پہنچ گئے ، بہرحال میری بچت ہو گئی کیونکہ میں جس ٹائم بس سے اترا تھا اور جب تک ہوٹل پہنچا اور پھر وہاں جو کچھ ہوا اسکا ثبوت بھی موجود تھا اسی لیے پولیس نے مجھ سے تھوڑی بہت پوچھ گچھ کی اور نام پتا پوچھ کر چھوڑ دیا اور میں جان بچی سو لاکھوں پاے کا نعرہ لگاتے ہوے گھر گیا۔


اگلے دن پھر ہم سب برگر ہاوس موجود تھے ، میں نے ساری کہانی عاکف وغیرہ کو بتای وہ کوک کے سِپ لیتے ہوے میرا اور بھی مذاق بنانے لگے ، میں جو پہلے ہی واقعہ کہ وجہ سے تپا ہوا تھا انکے مذاق اڑانے کی وجہ سے اور بھی تپ گیا، ابھی میں غصے میں انکو قہقہے لگانے سے روکنے لگا تھا کہ وہی لڑکی ویسے ہی گزری، اور میں نے اسکو دیکھتے ہی جوش کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ آج تو میں اس سے بات کر کے ہی رہوں گا،میں سپرائٹ کا خالی کین زمین پر زور سے مارتے ہوے باہر نکلا وہ سلکی بالوں والی تھوڑی آگے جا چکی تھی میں نے پیچھے سے جا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا

Hey listen, I really like you , I think I am in love with you
(ہے سنو، میں تمہین بہت پسند کرتا ہوں ، میرا خیال ہے میں تم سے پیار کرتا ہوں

اس نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا ، آواز میرے گلے میں اٹک گئ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا گلا گھٹنے لگا ہے اور میری سانس بھی رک گئی ، پتا نہیں اچانک کہاں سے میرے اندر طاقت آی اور میں نے بھاگنا شروع کر دیا ، اور واپس برگر ہاوس میں آگیا۔ عاکف ، سلیم اور کاشف جو پہلے ہی میرے ایسے بھاگنے پر حیران تھے اور حیران ہوے اور پوچھا کہ کیا ہوا، میں نے زور زور سے سانس لیتے ہوے انکو بتایا کہ یار یہ تو وہی تھی کل رات والی شیلا، اور عاکف ، سلیم اور کاشف ایک دفعہ پھر قہقہے لگانے لگے اور جب میں کاونٹر سے ایک اور سپرائٹ لینے جا رہا تھا پیچھے سے کاشف کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی 


محبت اب نہیں ہو گی  ،،،، یہ کچھ دن بعد میں ہو گی ۔ 

5 comments:

  1. ہا ہا ہا ہا ہا .....بہت اعلى جناب ....بہت عرصہ کے بعد کوئی اچھی چیز ملی ہے پڑھنے کو ..
    "محبت اب نہ ہوگی بلکہ کچھ دیں بعد ہوگی " حقیقت کے اتنے پاس سے گزر کر بھی حقیقت کا انکار، انسانی فطرت کا یہ پہلو میرے لئے بڑا ہی دلچسپ ہے ...

    ReplyDelete
  2. پسندیدگی کا بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب

    ReplyDelete
  3. woow.. man. dats amazing.. great story bro.. i loved it

    ReplyDelete
  4. hmmmmm. aur yun sheela badnam ho gai:) lagta ha munni ki badnami k peechay (kandhay par) b aap ka hath tha

    ReplyDelete
  5. شیلا بدنام ہوئی انکل تیرے لیے۔۔۔
    کاکے۔۔۔ بڑے ہو گئے ہو میری جان۔۔۔ شاباش۔۔۔

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.