Wednesday, April 27, 2011

حاجی عبداللہ کے دانت کھانے کے اور دکھلانے کے اور

ڈاکٹر جواد بھای نے ایک بلاگ پر ایک سوال پوچھا تھا، کہ ہاتھی کے پاس دو قسم کے دانت کیوں ہوتے ہیں ، دکھانے کے اور ، اور کھانے کے اور۔ مجھے یہ سوال کافی مزیدار اور عجیب لگا۔ ہاتھی کے دکھانے والے دانت اسکی خوبصورتی کے لیے ہوتے ہیں سنا ہے بڑے مہنگے مہنگے بھی بکتے ہیں۔ عموماً لوگ کسی چیز کے ظاہر کو دیکھ کر اسکی خوبصورتی کا اندازہ لگاتے ہیں ، ایسے لوگ لوگوں کو جاننے کے بارے میں نہ صرف برے تجربات کا سامنا کرتے ہیں بلکہ اچھے اخلاق و کردار کے وہ لوگ جو ظاہر حسن سے مالا مال نہیں ہوتے انکے بارے میں بھی شدید قسم کی غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو ہاتھی کی طرح ہوتے ہیں، دیکھیں دیکھیں میرا اشارہ موٹاپے کی طرف نہیں ہے بلکہ دانتوں کی طرف ہے ۔ بہت سے لوگ دانتوں کی دو قسمیں رکھتے ہیں دکھاتے ایک قسم ہیں جبکہ کھاتے دوسری قسم سے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عرف عام میں دوغلے لوگ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ مختلف قسمیں میں نظر آتے ہیں۔
ہمارے محلے میں ایک صاحب رہتے تھے، جو ہر اذان کے بعد گھر سے باہر نکل کر مسجد کی طرف سفر کرتے تھے، آتے جاتے سب بچوں کو سلام پیار کرتے تھے، انکے اخلاق کی ضرور ہر کوی تعریف کرتا ہو گا، انکا ایک چھوٹا بھای بھی تھا جو انکے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن اسکا دوست انکے گھر آیا ہوا تھا جسکی موٹر سائیکل باہر کھڑی تھی۔ میرے چھوٹا بھای باہر  گلی میں دیگر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ، کھیلتے ہوے اس سے موٹر سائیکل کا ایک پیچھے والا انڈیکیٹر ٹوٹ گیا۔ موٹر سائیکل کس جگہ اور کس طرح کھڑی تھی یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس پر جس قسم کی گالیاں انہوں نے نکالنا شروع کیں وہ ضرور انکے اچھے اخلاق کی نشاندہی کرتی تھیں، انکی زبان مبارک سے پھول اسی وقت جھڑنا بند ہوے جب تک انکو پیسے لا کر نہین دیے گئے ۔
اس سارے واقعے نے میرے چھوٹے بھای کی نفساتی بڑھوتری پر کس قسم کے اثرات مرتب کیے ہوں گے یہ ایک الگ بحث ہے جسکو ہم کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں، انکی گالیوں کے بعد بھی انکو پیسے دینے چاہیے تھے یا گالیوں پر ہرجانے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا یہ بھی ایک الگ بحث ہے اور اسکو بھی ہم کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔ میرا سارا زور اس طرف ہے کہ  جو اتنے عرصے تک انکے اچھے اخلاق تھے کیا وہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح نہیں تھے ؟
یہ ہی ہاتھی کے دانتوں والے لوگوں کی ایک  قسم ہے جسکو  حاجی عبداللہ ٹائپ کہا جاتا ہے، اگر آپ نے شکاری نامی ناول پڑھا ہے تو آپ ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ حاجی عبداللہ  سے میرا اشارہ کس طرف ہے۔ تو جی حاجی عبداللہ شکاری میں ایک کردار کا نام ہے ، جس کی بڑی لمبی لمبی داڑھی اور ایک موٹی تون ہے ، حاجی عبداللہ نہ صرف حاجی ہے بلکہ اسکے ہاتھ میں ہر وقت ایک تسبیح رہا کرتی ہے اور بات بات پر وہ سبحان اللہ اور ماشااللہ بھی کہا کرتا ہے۔ حاجی عبداللہ کا ظاہر لوگوں کے سامنے بڑے نیک شریف انسان کا ہے، شکاری میں  احمد اقبال نے  اس قسم کے لوگوں کو ظاہر کرتے ہوے حاجی عبداللہ کے لیے اکثر پاجی کا لفظ استعمال کیا ہے اور اگر میری یاداشت صحیح کام کر رہی ہے تو کچھ جگہوں پر عبد کے آگے اللہ لگانے سے احترازکیا ہے۔ حاجی عبداللہ جیسے لوگوں کی اصلیت کو ظاہر کرتے ہوے ایک جگہ احمد اقبال نے حاجی عبداللہ کو کلاشنکوف پکڑے اپنے بیٹوں کو خفیہ پولیس کے ایک مخبر کے لیے گندی گالیاں نکلاتے بھی دکھایا ہے۔ حاجی عبداللہ جسکا ظاہر ایک نیک شریف انسان لیکن باطن میں وہ ایک شیطان سے کم نہیں، ایک خفیہ تنظیم جو ناجائز طور پر اسلحہ کی اسملنگ کرتی ہے کا رکن ہے۔ حاجی عبداللہ اپنے ٹرکنگ کے بزنس میں فروٹ اور سبزیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی آڑ میں اسلحہ بھیجا کرتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں حاجی عبداللہ ٹائپ کے بہت سے پاجی موجود ہیں ایک مثال تو میں اُوپر کے واقع میں دے چکا ہوں، یہ آپکو بہت سی جگہوں پر نظر آئیں گے، یہ آپکو بڑے بڑے نزنس مین جو لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں، کی صورت میں بھی نظر آئیں گے۔یہ یتیم خانوں کی آڑ میں معصوم بچوں کو بیچتے  انکے گردے اور جسمانی اعضاء کا کاروبار کرتے ہوے بھی ملیں گے۔ غرض ہمارا معاشرہ اس قسم کے پاجی لوگوں کے اٹا پڑا ہے ۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپکو ایسے لوگوں کی پہنچ سے دور رکھیں

7 comments:

  1. حاجی عبداللہ ٹائپ لوگ کہاں نہیں ہوتے، بلاگنگ کی دنیا کوہی دیکھ لیں یہاں بھی ایسے کردار بہت ہیں۔ ویسے کیا آپ نے شکاری کو پورا پڑھا ہے۔ اگر ہاں تو بڑے ہی ویلے بندے ہو بھائی۔ D:

    ReplyDelete
  2. وقار بھائی میں نے نہیں پڑھا :D
    انکل جی آپ نے درست فرمایا آج سے دو سال پہلے میں جس آفس مین کام کرتا تھا وہاں بھی ایک صاحب تھے پُتر پُتر کر کے بات کرتے تھے لیکن جب کھانے والے دانتوں کی باری آتی تو پھر نا پوچھیں

    ReplyDelete
  3. انکل ٹام عرف ہمارے پیارے کاکے۔۔۔ میرے ذاتی سوچ ہے کہ جو بندہ اللہ کے لیے حج کرے وہ اپنے نام کے ساتھ حاجی نہیں لگاتا۔۔۔ کہ رضائے الہیٰ مقصود ہے۔۔۔ جبکہ جو دنیا کو اپنی بزرگی اور پرہیزگاری دکھانے کے لیے حاجی کہلانا پسند کرتا ہے، اس کا حج قبول نہیں ہوتا، کہ اللہ ریا کاری کو سخت نا پسند کرتا ہے۔۔۔
    اب آپ جس حاجی کی بات کر رہے ہو۔۔۔ ایسے حاجی آج کل کوچے کوچے میں پائے جاتے ہیں۔۔۔جن شرافت کا لبادہ اوڑھے خلق اللہ کو "چارنے" میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔ جن کا مقصود واہ واہ کروانا تو ہے لیکن پس پردہ ان کی نیت خطرناک ہے۔۔۔ اللہ نیتوں کے حال جانتا ہے۔۔۔
    جس حاجی عبداللہ کا ذکر ہوا ہے اس تحریر میں۔۔۔ اس کے بارے میں تو کچھ کہنا اپنے الفاظ کی تضحیک کرنا ہے۔۔۔ وہ بندہ اس قابل ہی نہیں کہ ان کو موضوع گفتگو بنایا جائے۔۔۔ (ایسا بہت سمجھایا مجھے میرے دوست بلاگرز نے، لیکن میں نا مانا اور اب جا کر یقین ہوا کہ میرے دوست ٹھیک ہی کہتے تھے)۔۔
    اچھا لکھتے ہو، اور اچھا لکھتے اور پڑھتے رہو۔۔۔ آمین۔۔۔ اردو بلاگرز کی دنیا میں نوجوان سوچ کے ساتھ ایک اچھا اضافہ ثابت ہو رہے ہو آپ۔۔۔

    ReplyDelete
  4. احمد اقبال صاحب
    کی تحاریر کو میں پسند کرتا ہوں

    ReplyDelete
  5. دامن پہ نا کوئی چھینٹ نا خنجر پہ کوئی داغ
    تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
    بہت اعلیٰ جناب ....جوتے بھگو بھگو کے مارتے کئی بار دیکھا ہے مگر جوتا اسطرح مارنا کہ جوتا نظر ہی نا آئے کم دکھائی دیتا ہے .

    ReplyDelete
  6. ye tu btaya nahin k kis blog per parha tha ye comment :P

    ReplyDelete
  7. وقار بھای: ڈیڑھ سال پہلے پڑھا تھا تب بھی اتنا وقت نہیں لگا تھا تب میرے پاس کچھ وقت بھی تھا۔

    خرم ابن شبیر: حضرت ایسے لوگ سانپ سے کم نہیں ہوتے ۔
    عمران بھای: بہت شکریہ ایسے لوگوں کا مقصد ہی عوام میں اپنی بزرگی کا عرب بٹھانا ہوتا ہے ۔

    خاور کھوکر: کیا آپ بھی میری طرح ویلے بندے ہیں ؟

    ڈاکڑ صاحب: بہت اچھا شعر ہے ، میں یاد رکھنے کی کوشش کروں گا ۔

    پاک عروسہ : اگر یہ بتایا تو پھر مجھے بھی زیک کی وہ تصویر لگانی پڑے گی
    :D

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.