Wednesday, April 20, 2011

غرور و تکبر

حدیث پاک میں تکبر غمط الناس اور بطرالحق کا نام ہے یعنی لوگوں کو حقیر سمجھنا اور حق بات کو قبول کرنے سے اعراض اور انکار کرنا۔ (روح کی بیماریاں اور انکا علاج سفحہ ۱۳۸ از مولانا حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم) ۔امت مسلمہ میں جہاں بہت سی روحانی بیماریاں ہیں وہاں ایک بیماری غرور کی بھی ہے۔ کسی کو اپنے چوہدری ہونے  اور خاندانی نسب پر غرور ہے تو کسی کو اپنے پیسے پر غرور ہے، کسی نے اگر دو ڈگریاں لے لیں تو وہ اس پر غرور کرتا رہتا ہے ۔غرض ہماری قوم ایس بیماری میں ایسی جکڑی گئی کہ اگر کوی میونسپل کا الیکشن جیت گیا اور سڑکو پر جھاڑو لگوانے کی ذمہ داری مل گئ تو وہ بھی اکڑ اکٹر کر چلا کرتا ہے ۔ ہمارے محلے کے ایک صاحب تھے، کوی انکو جانتا نہ تھا۔ پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ پھرا کرتے تھے توکونسلر کے الیکشن میں کھڑے ہو گئے ۔ محلے کے لڑکوں نے جوش و خروش سے انکے پوسٹر لگاے، خوب اشتہاری کی مجھے یاد ہے میں اپنے گھر کے باہر تھڑے پر بیٹھ کر دیکھا کرتا تھا، کسی لڑکے نے ہاتھ میں چپکانے والے مادے کی بالٹی پکڑی ہوی ہے، کسی نے ہاتھ میں وائپر پکڑا ہوا ہے اور کوی پوسٹر اٹھاے ہوے ہے اور ایک صاحب سیڑھی پکڑے ہوے ہیں ۔ غرض محلے کے تمام نوجوان فی سبیل اللہ اپنے ہمساے کے الیکشن میں مدد کر رہے تھے۔ ان صاحب کی بہنوں نے گھر گھر جا کر خواتین کو ووٹ ڈالنے پر راضی کیا ۔ اور ایک دو اور تکنیکیں استعمال کر کے وہ الیکشن جیت گئے ، اسکے بعد تو انکی اکڑ نہ پوچھیں، کلف والے کپڑے پہن کر سینا اوپر اٹھا کر ایسے چلا کرتے تھے جیسے آدھی دنیا فتح کر لی۔  محلے میں لوگوں سے ایسے پیش آنا جیسے ملک کا سارا نظام وہی چلاتے ہیں۔ غرور کا انجام ، مدت ختم ہونے سے پہلے ہی انکی اوقات ختم ہو گئی۔ ویسے بھی کونسلر  سے کون ڈرتا ہے۔
 غرور کرنے کا انجام بہت برا ہوا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ مغرور کو دنیا میں ایسے طریقے سے رسوا کرتے ہیں کہ اسکو خود بھی پتا نہین چلتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ اپنی رسوای کو وہ خود بہت جوش خروش سے بیان کرتا ہے ۔ لوگ اسکے منہ پر واہ واہ کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے اسکا تذکرہ کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں، انکو اپنے اوپر بہت غرور ہے، کوی تعلیم نہیں، عقل مت بھی نہیں۔ غرور اپنے  پاسپورٹ اور انگریزی کے دو لفظوں پر ہے۔ جناب گاوں میں رہنے والی شریف زادیوں کا مذاق صرف اس بنیاد پر اُڑایا کرتے تھے کہ وہ "گوبر اٹھاتی" ہیں ، اور انکو غرور کی یہ سزا ملی کہ انکی اپنی ہی"ٹوں ٹوں ٹوں ٹوں"  معشوق جو ایک ایک وقت میں دو دو  یار (یار ۔بمعنی بواے فرینڈ) رکھا کرتی ہے، نے نہ صرف پہلے اسکو گھر والوں سے الگ کیا، کریڈیٹ کارڈ خالی کرواے، اور جب جناب کنگلے ہوے تب تک انکو ایک دوسرا مل چکا تھا ، چنانچہ انکو اچھی خاصی گالیاں (ایسی کلاسیکل گالیاں جو خالص لاہور کے شاہی بزار کی پیداوار ہیں، کیونکہ موصوفہ کا خاندان بھی وہین سے تعلق رکھتا ہے) سنائیں۔
غرور کو سمجھنے کے لیے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے قریبی دور کے "مشرف" صاحب، جب تک طاقت تھی خوب اکٹرا کرتے تھے، مخالفین کو "ایسی جگہوں سے بمب گرانے کہ انکو پتا بھی نہ چلے گا" جیسی باتیں کیا کرتے تھے۔ لال مسجد پر جو ظلم انہوں نے کیا وہ انکے غرور کی بدترین مثال ہے۔ کیا انجام ہوا ؟؟؟ آج اس شخص کو کوی پوچھتا بھی نہیں ہے، کفار کے رحم و کرم پر انکے ملک میں جی رہا ہے ، جہاں جاتا ہے کوی نہ کوی جوتا مارنے کو تیار رہتا ہے ۔ دنیا بھی برباد آخرت بھی برباد ۔
تو جناب یہ ہے غرور کا انجام۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پہلے ہی خبردار کر دیا۔ چناچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا
[١٧:٣٧]
اور مت چل زمین پر تو اتراتا ہوا پھاڑ نہ ڈالے گا تو زمین کو اور نہ ہنچے گا پہاڑوں پر لمبا ہو کر۔
اس آیت کے تحت مفسرین نے غرور پر بات کی ہے چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں کہ یعنی متکبروں کی چال چلنا انسان کو زیبا نہین ۔ نہ تو زور سے پاوں مار کر وہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ گردن ابھارنے اور سینہ تاننے سے اونچا ہو کر پہاڑوں کے برابر ہو سکتا ہے۔ پھر ایسی ضعف و عجب اور اس بساط پر اپنے کو اس قدر لمبا کھینچنے سے کیا فائدہ؟
اسی طرح سورۃ لقمان آیت ۱۸ میں ارشاد ہوتا ہے:۔
وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸

اور اپنے گال مت پھلا لوگوں کی طرف  اور مت چل زمین پر اتراتا بیشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اتراتا بڑائیاں کرنے والا

تکبر سے بچنے کا طریقہ:۔
علماء دین غرور سے ہمیشہ دور دور رہا کرتے تھے، چناچنہ روح کی بیماریاں اور انکا علاج صفحہ ۱۴۰ میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک عجیب قول لکھا ہے کہ :۔
" میں اپنے کو تمام مسلمانوں سے فی الحال  اور کافروں اور جانوروں سے کمتر فی الحال سمجھتا ہوں یعنی موجودہ حالت میں ہر مسلمان مجھ سے اچھا ہے اور خاتمہ کے اعتبار سے نا معلوم کیا ہو اپنے کو کفار سے بھی کمتر سمجھتا ہون ۔" 


(یعنی کچھ علم نہیں کس وقت کافر مسلمان ہو کر درجے میں بڑھ جائے )
اسی طرح حضرت مجدد الف ثانیؒ کا قول  ہے کہ مومن کامل نہ ہو گا جب تک کہ اپنے کو بہائم اور کفار سے بھی کمتر نہ جانے گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

2 comments:

  1. عمدہ تحریر ہے اور بہت اچھا موضوع ہے ... اگرچہ بہت سارے لوگ مغرور نہیں ہوتے مگر اشرف نفس سے باز نہیں آپاتے .انسان میں خود کو دوسروں سے بہتر کہلانے کی خواھش ضرور رہتی ہے صرف اولیا الله ہی اس خواھش سے خود کو باز رکھہ پاتے ہیں...کیونکہ انکی ریاضت ہی یہی ہے ...میں نے کتنے ہی دیندار لوگوں کو دیکھا ہے جنہیں ایک مثالی دینی ماحول ملا اسی ماحول میں انکی تربیت ہوئی لیکن جب بھی دوسروں کی بات کرتے ہیں انکے لہجے میں اور باتوں میں ایک خفی حقارت ضرور محسوس ہو جاتی ہے. کتنے ہی لوگ جو تبلیغ سے وابستہ ہیں اسی کمزوری کے باعث لوگوں کو نہ صرف خود سے دور کر لیتے ہیں بلکہ دین کے بارے میں لوگوں کی سوچ کو منفی کر دیتے ہیں.

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.