Thursday, April 14, 2011

نقاب ، ایک مسلمان عورت کی پسند اور انتخاب

میرا خاندان ، دادا دادی اور نانا نانی کی طرف سے مہاجر ہے ، ہم لوگ انڈیا کے ایک علاقے سے ہجرت کر کے آے تھے۔ خاندان اور برادری کے لوگ ہجرت سے پہلے نزدیک نزدیک کے گاوں میں رہتے تھے اور ہجرت کے بعد زیادہ تر پنجاب کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور ایک بڑی تعداد کراچی چلی گئی ۔ میرا نانا ابو نے فوج کی نوکری شروع کی اور کچھ خاندانی مسائل کی بنا پر چھوڑ دی ، اور جس شہر میں وہ رہتے تھے وہاں سے اپنے بیوی بچوں کو لے  کر ایک دوسرے شہر چلے گئے جہاں ایک فیکٹری میں نوکری شروع کر دی اور ساتھ ساتھ انجینیرنگ پڑھنا شروع کر دی۔ میں جب گود میں ہی تھا تو میرے نانا انتقال فرما گئے تھے ، لیکن امی سے سنا ہے کہ وہ تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے بلکہ جس زمانے میں وہ نوکری کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کر رہے تھے ، اس زمانے میں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی پڑھا کرتے تھے۔ میرے نانا بہت روشن خیال (تاریک خیال نہیں) واقع ہوے تھے اسی لیے انہوں نے اپنی بیٹی ( یعنی میری والدہ) کی پیدائش پر پتاسے بانٹے تھے جو شاید باقی چار بیٹیوں کی پیدائش پر نہیں کیا۔ میری والدہ کی تعلیم بی اے بی ایڈ کی ہے، اور میری والدہ نے بی ایڈ شادی کے بعد کیا تھا ، میری والدہ کی پیدائش ایک روشن خیال گھرانے میں ہوی تھی اور شادی ہونے کے بعد ایک ایسے گھرانے میں ہجرت کی جو نہ ہی روشن خیال تھا نہ ہی تاریک خیال، میری والدہ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو نویں کلاس سے ہی برقع پہننا شروع کر چکی تھیں ان پر نہ شادی سے پہلے کسی قسم کا زور تھا نہ شادی کے بعد ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے والد کے خاندان میں کوی بھی مکمل طور پر (چہری چھپا)  برقع نہیں کرتا بلکہ  کچھ لوگوں کو برقع بلکل بھی پسند نہ تھا جسکو میں نے اپنے بچپن میں بھی محسوس کیا اور ایک صاحب سے تو خود میں نے "نقابو" کا لفظ اپنی والدہ کے لیے سنا   جس پر انکو مجلس میں موجود (جن میں خواتین بھی تھیں) کسی نے نہ ٹوکا ۔
میری والدہ کو شادی کے بعد میرے والد صاحب نے اس معاملے میں ( میرے علم کے مطابق) کسی لحاظ سے تنگ نہیں کیا، بلکہ جب میری والدہ نے شرعی پردہ شروع کیا تب بھی کچھ منفی نہیں کہا گیا، میری والدہ نے بیٹوں کی پیدائش کے بعد اپنا بی ایڈ مکمل کیا اور کچھ عرصہ ایک دو سکولوں میں بطور معلمہ کے کام بھی کیا لیکن بعد میں چھوڑ دیا۔
یہ ساری کہانی بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں سکول کالجوں کی تعلیم کے بعد میری والدہ کا پردہ انکی اپنی پسند اور انتخاب تھا جو کسی نے ان پر تھوپا نہ تھا اور اتنا عرصہ نقاب کرنے کے باوجود بھی میری والدہ نے اسکو کسی قسم کی مصیبت نہ سمجھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انکے ایمان میں ترقی دی اور انہوں نے شرعی پردہ شروع کیا۔
عمومی طور پر تاریک خیالیوں کی جانب سے یہ شور سننے کو ملتا ہے کہ یہ عورت میں تھوپا جاتا ہے، اس دعوے کی سب سے پہلی بات ہی غلط ہے میرے نزدیک پاکستان میں اور خاص کر پنجابی عورت پر کچھ تھوپا نہیں جا سکتا (اگر کوی پنجاب والا ہے تو وہ جانتا ہو گا) کیونکہ پنجابی عورت ہی گھر کو چلاتی ہے، بلکہ میں نے لاہور میں بہت سی جگہوں پر دیکھا ہے کہ مرد کا کام صرف پیسے کما کر لانا ہوتا ہے، ان پیسوں کو کہاں اور کیسے خرچ کرنا ہوتا ہے یہ سب فیصلے عورت کے ہوتے ہیں ۔ بہت سی جگہوں پر بچوں کو والد صاحب سے تو کسی کام کی اجازت مل جاتی ہے لیکن والدہ کے ویٹو کی وجہ سے رہ جاتا ہے ۔ اسی لیے اگر کوی یہ کہے کہ عورت پر جبر کیا گیا ہے اس معاملے میں تو اسکو مجنوں کی بڑ کے علاوہ کچھ سمجھنا کم عقلی ہو گی، اسکی کئی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے بڑی یہ ہی ہے کہ نقاب کا تعلق مذہب اور دین سے ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں دین پر خود چلنے والوں کی تعداد ہی کیا ہے جو دین پر جبر کروانے والوں کی ہو گی ۔ بلکہ تجربے میں تو ایسے مولوی بھی دیکھنے کو آئے ہیں جنکی اپنی بیویاں پردے نہیں کرتیں اور پھر لوگ انپر انگلی اٹھا کر یہ بھی کہتے ہیں کہ مولوی کی اپنی بیوی پردہ نہیں کرتی دوسروں کو اسلام سکھاتا پھرتا ہے۔
ایک دفعہ ہماری انگریزی کی کلاس ڈسکشن میں استانی صاحب کہہ رہی تھیں کہ بہت سی چیزیں ہوتی ہیں جو مذہب کا حصہ نہیں ہوتیں اور لوگ انکو مذہب مان کر کرتے ہیں اور مثال دے دی نقاب کی ، ایک افغانی لڑکی نے بھی مس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دی ۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں کو ہی اس بارے میں قرآنی احکامات کا  کوی علم نہیں تھا بس ایویں یبلیاں چھوڑ رہی تھیں ، تو بہرحال میں نے ہاتھ کھڑا کر کے اپنی باری پر کہا کہ میم صاحب بات یہ ہے کہ قرآن میں حکم موجود ہے چہرہ چھپانے کا اور سورۃ احزاب کی وہ آیت پڑھ کر سنا دی ۔ اب جس طرح ہماری غیر مسلم استانی کا حال تھا وہی حال ہمارے تاریک خیال لوگوں کا ہوتا ہے کہ قرآنی احکامات اور دینِ اسلام کا علم نہیں ہوتا اور اپنی طرف سے ایویں کی یبلیاں مارنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اب جبکہ مغرب میں نقاب کو بین کرنے کا شور مچا ہوا ہے ، آزادی اظہار راے اور آزادی انتخاب کا شور مچانے والے صلیبی تاریک خیالیے اپنی اصلی رنگت دکھا رہے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اکھٹے ہو کر اسکا مقابلہ کریں۔ ایک جگہ پڑھا تھا کہ جب شدھی اور سنگھٹن کی تحریک زوروں پر تھی تو کسی نے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کو بتایا کہ فلاں گاوں کے مسلمان شدھی ہو گئے ہیں ، حضرت وہاں پہنچے اور گاوں کے مکھیا سے پوچھا کہ کیا ایسا ہوا ہے ، تو اسنے کہا کہ نہیں مولوی صاحب ہم لوگ کیسے شدھی ہو سکتے ہیں جب ہمارے یہاں تازیہ نکلے ہے ، تو مولانا صاحبؒ نے انکو تازیہ نکالنے کی اجازت دی تھی، بعد میں کسی نے پوچھا کہ تازیہ نکالنا تو بدعت ہے پھر آپ نے کیسے اجازت دے دی تو حضرت نے فرمایا کہ بے شک بدعت ہے لیکن ان لوگوں کے نزدیک اسلام کی علامت ہے اسی لیے اجازت دے دی  (کم و بیش اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو یہ واقعہ ایسے ہی مذکور ہے)  اسی لیے فلحال جو لوگ اس بحث میں پڑے ہوے ہیں کہ کیا چہرے کا پردہ ضروری ہے یا غیر ضروری ، اس سے نکلیں اور اسلام کے لیے اس بین کے خلاف کھڑے ہوں۔

فرانس میں ایک عورت کو برقع پہننے کے جرم میں پکڑا جا رہا ہے ۔ 
آخر میں یہ ایک ویڈیو ہے جس میں نہ صرف ایک روشن خیال آنٹی نے بلکہ سی این این کے غیر مسلم ہوسٹ نے بھی تاریک خیال آنٹی کی بینڈ بجا دی ۔

نوٹ : اسلام ایک روشن مذہب ہے اور اسلام پر چلنے والے روشن خیال ہیں اسی لیے اپنے آپ کو روشن خیال کہنے والی امریکی سونڈیوں کے لیے تاریک خیال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور اسکے استعمال کی آپکو بھی دعوت دی جاتی ہے ۔ 

7 comments:

  1. بہت خوب۔
    تاریک خیال آنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی آنٹی کی طرح ہے!!!!۔۔۔۔سوئی ٹوٹ گئی یا پھنس گئی۔

    ReplyDelete
  2. بہت اچھی تحریر جو کہ کسی قسم کی اشارہ زنی سے پاک نظر آئی۔ ایسی تحریروں کا بہت فقدان ہے۔

    اصطلاح تاریک خیال کے بارے میں آپ کی تجویز اچھی ہے مگر کم از کم میں روشن خیال کی اصطلاح تضحیک کے معنوں میں کرتا ہوں۔

    رہا اسلام اور مسلمان ، تو اسلام اللہ کا دین ہے اور اللہ تعالی منصف اعلی ہے، وہ کبھی ایسی چیز کو اپنے لئے پسند نہ کرے گا جس میں کوئی نقص ہو۔

    یار لوگوں نے پہلے بھی بہت سے بہروپ بدلے ہیں اسلام کو نیچا دکھانے کی خاطر، اور وہ ناکام ہی ہوئے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. انکل ٹام۔۔۔ میں اس تحریر کے بارے میں پہلے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہو تو آپ ہمارے کاکے۔۔۔ لیکن لکھنے میں بڑے بڑے انکلوں کو آپ نے پیچھا چھوڑ دیا ہے۔۔۔ انداز بیان، الفاظ کی سلیکشن اور موضوع کے ساتھ انصاف بہترین ہے۔۔۔ اللہ آپ کو اسی طرح اچھا لکھواتا رہے۔۔۔

    اب دوسری بات۔۔۔ آپ نے اپنے خاندانی ثقافت کا جو نقشہ کھینچا ہے۔۔۔ تقریبا وہی ماضی میرے خاندان کا بھی ہے۔۔۔ میری امی بی اے بی ایڈ ہیں۔۔۔ بی ایڈ انہوں نے بھی شادی کے بعد ہی کیا۔۔۔ اور برقعہ وہ شادی سے پہلے سے ہی لیتی تھیں۔۔۔ میری اور میرے بھائی کی پیدائش کے بعد سے ھی ٹیچنگ کرتی رہیں۔۔۔ اور تقریبا15 سال ٹیچنگ کی۔۔۔ میرے والد کے خاندان میں بھی سب خواتیں برقع لیتی ہیں۔۔۔ لیکن کسی زور زبردستی سے نہیں۔۔۔ اپنی مرضی سے۔۔۔ کہ اسلام اور قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا آ گیا ہے۔۔۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ امت مسلمہ میں صرف 3 یا 4 فیصد خواتین ہی ہوںگی جو اپنی مرضی سے حجاب نہیں کرتیں۔۔۔ بس بدقسمتی یہ ہے کہ نام نہاد روشن خیالوں کو یہی تعداد نظر آتی ہے۔۔۔ اور اسی کو جھگڑا بنا لیتے ہیں۔۔۔ اللہ ان کو عقل عطا فرمائے۔۔۔ آمین

    ReplyDelete
  4. بہت خوب...پردہ اب ایک جبر نہیں رہا خاص طور پر شہری علاقوں میں اب یہ ممکن نہیں رہا کہ عورت کو جبراً پردہ کرایا جائے .یہ ایک انتخاب بن چکا ہے اور اسی لئے کئی ممالک میں اس پر پابندی عائد کی جا رہی ہے. کاش کہ ہمارے لوگ اس انتخاب کی وجہ کو سمجھنے کی کوشش کر سکیں.

    ReplyDelete
  5. بھیا: بہت ہی زبردست

    ReplyDelete
  6. mashaALLAH buhat achi tehreer ha.
    jazakALLAH

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.