ستمبر جب بھی آتا ہے ستمگر یاد آتے ہیں
بجائے رہزنوں کے اپنے رہبر یاد آتے ہیں
زمینیں تنگ کر دیں اِک اشارے میں مکینوں پر
شریفوں کے شجر مرجھا گئے اپنی زمینوں پر
مسلسل جی حضوری کے وہ پیکر یاد آتے ہیں
وہ اِک مُلا کے ڈٹ کر رہ گیا اپنے موقف پر
وہ مِسٹر جو سمٹ کر رہ گیا اپنے موقف پر
وہ مُلا یاد آتے ہیں ، وہ مِسٹر یاد آتے ہیں
ستمبر جب بھی آتا ہے ستمگر یاد آتے ہیں
سراسر دین کا سودا کیا دنیا کے بدلے میں
جنہوں نے مانگ لی دنیائے دوں عقبا کے بدلے میں
وہ شاہی بھیس میں راہی گداگر یاد آتے ہیں
ستمبر جب بھی آتا ہے ستمگر یاد آتے ہیں
اُدھر منظر ہی یکسر مختلف تھا ، جان تک دے دی
بس اِک مہمان کے حق میں وطن کی آن تک دے دی
وہ فاقہ مست ، وہ مردِ قلندر یاد آتے ہیں
میری پلکوں پے جگنو اور ستارے جگمگاتے ہیں
میری غیرت جگاتے ہیں ، مجھے پہروں رُلاتے ہیں
وہ جب بحرِ عزیمت کے شناور یاد آتے ہیں
ستمبر جب بھی آتا ہے ستمگر یاد آتے ہیں
وہ فاقہ مست وہ مردِ قلندر یاد آتے ہیں
حضرت خالد اقبال تائب صاحب دامت برکاتہم
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.