Monday, May 2, 2011

نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر

نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر
مجھے دین کی الحمداللہ اتنی سمجھ بوجھ ہے کہ میں تھوڑی سی تحقیق اور جستجو کے بعد صحیح اور غلط میں فرق کر سکوں۔ میرے دینی مسائل پر کچھ مطالعہ اور علماء کی تکنیکی کتب کو سمجھنے کا تجربہ بھی ہے  اسی تجربے کی بنیاد پر میں نے ایک اصول بنایا ہے، وہ یہ ہے کہ جب بھی کوی تاریک خیالیہ  ، نام نہاد روشن پرست یا جدید اسلام کا پیروکار آپ سے بحث مباحثہ کرے گا وہ قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں اپنی سمجھ اور عقل سے استدلال کر کے مطلب بیان کرے گا یا اسی طرح اپنے دور کے کسی جدت پسند نام نہاد مولوی یا علامہ کا حوالہ دے گا ۔ جو اصول میں نے بنایا ہے وہ یہ کہ آپ فوراً اس سے کہیں کہ مجھے  ۱۸۰۰ سے پہلے کے کسی عالم کا حوالہ دو جو تمہارے حق میں جاتا ہو۔ میرا تجربہ اس پر یہی رہا ہے کہ نوے فیصد مخالف ایسا کرنے سے قاصر رہتا ہے اور باقی دس فیصد جو ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی یا تو حوالہ توڑ مڑوڑ کر پیش کرتے ہیں یا کسی عالم کا تفرد پیش کرتے ہیں، اسکی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ ۱۸۰۰ سے پہلے اس نظریے کا حامل یا تو کوی عالم تھا ہی نہیں یا اگر تھا بھی تو ایک دو کی تعداد میں ، اور اصول یہ ہے کہ اجماعی مسلہ میں شخصی تفرد تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ علماء ظواہر کو کوی خاص پذیرای حاصل نہ ہوی کیونکہ اختلافی مسائل میں انکا نقطہ نظر جمہور کے مقابلے میں تفرد سے کم نہ تھا۔
اصل مضمون تک جانے سے پہلے دوسرا نقطہ یہ سمجھ لیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہو گی۔ اسی لیے اسلامی ادب نے اس طریقہ سے ترقی کی کہ کسی بھی شعبہ میں اگر کوی عالم غلطی کرتا ، تو دوسرے اسکی غلطی کی پکڑ کرتے ۔ اگر کسی مفسر نے کسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوے غلطی کی تو دیگر مفسرین نے اسکی غلطی کی پکڑ کی اور عوام کو بتلا دیا کہ یہاں پر غلطی ہوی ہے۔ اگر کسی محدث سے کہیں غلطی ہوی تو دیگر محدیث نے انکی غلطی کو پکڑ لیا، مثال کے طور پر امام حاکمؒ ایک محدث گزرے ہیں جنکی حدیث کی کتاب مستدرک ہے ، انہوں نے اپنی اس کتاب میں بہت سی جگہوں پر غلطیاں کیں چناچہ علامہ شمس الدین الذہبیؒ نے تلخیص المستدرک لکھ کر امام حاکم کی غلطیوں کی پکڑ کی۔ اسی طرح اگر کسی فقیہ سے غلطی ہوی تو دیگر فقہاء نے انکی غلطی کو پکڑ کر ٹھیک کیا ۔ غرض کسی بھی شعبہ میں اگر کہیں غلطی ہوی تو اس غلطی کو چلنے نہیں دیا گیا بلکہ فوراً واضح کر دیا گیا۔
حضرت عائشہؒ کی نکاح کے وقت عمر پر منکرینِ حدیث کی طرف سے اکثر اعتراض ہوتا رہتا ہے جس میں وہ حضرت عائشہؓ کی عمر بڑھانے پر بضد ہوتے ہیں، ہمارے بلاگی دوست ڈاکٹر جواد نے بھی شاید اسی قسم کے کسی شخص کے انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ کیا ہے ،چونکہ مضمون میں حوالے ہیں اسی لیے ایک عام شخص کے لیے انکو دیکھ کر بھٹک جانا عام سی بات ہے ، اس ضمن میں اور بھی بہت سے اعتراضات موجود ہیں ، لیکن فلحال میں وقت کی قلت کی بنا پر میں صرف انہی اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا جنکو ڈاکٹر جواد بھای نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے ۔

نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر:۔
حدثني فروة بن أبي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، فقدمنا المدينة فنزلنا في بني الحارث بن خزرج، فوعكت فتمرق شعري فوفى جميمة، فأتتني أمي أم رومان وإني لفي أرجوحة ومعي صواحب لي، فصرخت بي فأتيتها لا أدري ما تريد بي فأخذت بيدي حتى أوقفتني على باب الدار، وإني لأنهج، حتى سكن بعض نفسي، ثم أخذت شيئا من ماء فمسحت به وجهي ورأسي ثم أدخلتني الدار فإذا نسوة من الأنصار في البيت فقلن على الخير والبركة، وعلى خير طائر‏.‏ فأسلمتني إليهن فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت تسع سنين‏.

مجھ سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا ، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی ، پھر ہم مدینہ ( ہجرت کرکے ) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا ۔ یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اوراس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے ۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں ، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوںنے مجھے پکا را تو میں حاضر ہوگئی ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے ۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جارہاتھا ۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا ۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں ۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں ، جنہوںنے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر وبرکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو ، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوںنے میری آرائش کی ۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اورانہوںنے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی ۔
صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار

حدیث پر پہلا اعتراض کہ یہ روایت صرف عراقیوں سے روایت ہے جو اکثر اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ اسکو کوفیوں کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا :۔
اس پر ڈاکٹر صاحب یا جو ترجمہ انہوں نے کیا ہے وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہشام بن عروۃ کے شاگردوں نے مالک ابن انس جیسے شاگرد بھی شامل ہیں لیکن کسی نے بھی اسکو نقل نہیں کیا۔ اس پر اس سے پر سب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ یہ اعتراض ہی علم الحدیث اور اصولِ حدیث سے کم علمی اور لا علمی کی وجہ سے ہے ۔ اگر کوی شاگرد اپنے استاد سے روایات نہ لے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اپنے استاد کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا، مثال کے طور پر امام مسلمؒ امام بخاریؒ کے شاگرد ہیں، اب آپ مسلم کھول کر دیکھیں اور بتائیں کہ امام مسلمؒ نے کتنی احادیث امام بخاریؒ سے لی ہیں۔ اسی طرح حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے کتنی احادیث کتب احادیث میں مروی ہیں ، کیا اسکو بنیاد بنا کر اب کوی یہ کہے کہ چونکہ چناچہ ان حضرات سے کم احادیث مروی ہیں اسی لیے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ ان حضرات کو حدیث پر عبور حاصل نہ تھا ، نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہو گا ہرگز نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس موضوع کی روایات کو ہشامؒ کے علاوہ دیگر راویوں نے بھی اس موضوع کی احادیث نقل کی ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
حدثنا ابو معاویۃ قال حدثنا الاعمش عن ابراہیم عن الاسود عن عائشہؓ قالت تزوجھا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وھی بنت تسع سنین ومات عنھا وھی بنت ثمان عشرۃ
یعنی معاویہ نے اعمش سے ، اعمش نے ابراہیم سے، ابراہیم نے اسود سے اور اسود نے حضرت عائشہؓ سے روایت کیا ہے ، فرماتی ہیں جب میری نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے شادی ہوی تو میری عمر نو سال تھی اور جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو میری عمر اٹھارہ سال تھی
اسکے علاوہ حضرت عائشہؓ کے بھتیجے قاسم بن محمد بن ابی بکر جو کہ مدنی فقہا میں سے ہیں اور سقہ ہیں انکی ایک روایت طبرانی میں ہے
عن عائشہ قالت تزوجنی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم انا بنت ست سنن و بنی بی وانا نبئت تسع سنین
رواہ الطبرانی جامع المسانید للحافظ ابن کثیر جلد ۳۲ صفحہ ۳۵۳
اس روایت میں بھی حضرت عائشہؓ کی عمر وہی ہے جو ہشام بن عروۃ کی روایت میں ہے ۔
عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ جو کہ مکی روای اور ثقہ ، تابعی ہیں انکی ایک روایت سنن النسائی میں ہے
عن عائشہ ان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین و دخل بھا وھی بنت تسع سنین
رواہ النسائی، جامع المسانید جلد ۳۴ صفحہ ۳۲۷
اس پر میں اور بھی بہت سے حوالے پیش کر سکتا ہوں ، لیکن میرے پاس وقت نہیں ہے ۔
دوسرا اعتراض ، امام مالک بن انس کو ہشام کی کوفی روایات پر اعتراض تھا:۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ  امام مالک کی یہ بات تہذیب التہذیب میں اس طرح نہیں ہے جس طرح نقل کی گئی ہے  بلکہ وہاں یحییٰ بن سعیدؒ کا قول ہے :۔
میں نے امام مالکؒ کو خواب میں دیکھا اور ہشام کی رویات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب وہ ہمارے پاس مدینہ میں تھا تو اسکی روایات وہی ہیں یعنی درست ہیں اور جب وہ عراق گیا تو اس کی روایات درست نہیں
پہلے تو یہ قول امام مالکؒ کی زندگی کا نہیں ہے بلکہ وفات کے بعد کا ہے جس میں یحیٰ بن سعید کو یہ بات امام مالکؒ نے خواب میں آکر کہی ، اور خواب چاہیے کسی کا بھی ہو اس قسم کے معملات میں حجت  نہیں ہوا کرتا
اس پر ایک قول میزان الاعتدال سے آگے نقل کرتا ہوں
پس ثابت ہوا کہ یہ ہشام پر یہ اعتراض بھی باطل ہے ۔
تیسرا اعتراض کے ہشام کی یاداشت ضعیف العمری میں بری طرح متاثر ہوی تھی:۔
یہ بات بھی علامہ ذہبیؒ نے اس طرح نہیں لکھی جس طرح نقل کی گئی ہے  بلکہ علامہ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں :۔
ھشام بن عروہ احد الاعلام حجۃ امام لکن فی الکبر تناقص حفظہ ولم یختلط ابدا ولا عبرۃ قالہ ابو الحسن بن قطان من انہ وسھل بن ابی صالح اختلطا وتغیر نعم الرجل قلیلا ولم یبق حفظہ کھو فی حال الشیبۃ فنسی بعض محفوظہ او وھم فکان ماذا اھو فکان ماذا اھو معصوم عن نسیان
ہشام بن عروہ چوٹی کے علماء و محدثین میں سے تھے اور احادیث نبویہ میں وہ حجت و امام تھے، بڑھاپے میں انکا حافظہ پہلے سے کم ہو گیا تھا لیکن وہ مختلط نہیں ہوا کہ حدیثوں کو خلط ملط کر دیتا ہو، انکے بارے میں امام ابن القطانؒ نے کہا کہ وہ مختلط ہو گئے تھے تو کیا انکی بات کا کوی اعتبار نہیں ہے ہاں ان کے حافظے میں تبدیلی ضرور ہوی تھی اور انکا حافظہ جوانی والا نہیں رہا تھا اس لئے بعض احادیث ان کو بھول گئیں تھیں اور بعض میں ان سے وہم بھی ہوا اس سے کیا ہو گیا کہ وہ غلطی سے معصوم تھے
اس سے پتا چلا کہ بڑھاپے میں جو اکثر یاداشت تھوڑی کم ہو جاتی ہے ویسا ہی ہوا تھا اور یہ کوی بڑی بات نہیں اس قسم کا حال تو بڑے بڑے ائمہ کو بھی پیش آجاتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی ثقاہت میں کوی فرق نہیں پڑتا
اسی لیے علامہ ذہبیؒ نے ہشام پر تنقید کرنے والے کو خطاب کر کے کہا
فدع عنک الخبط و ذر خلط الائمہ الاثبات بالضعفاء والمخلطین فھشام شیخ الاسلام و کذا قول عبدالرحمٰن بن خراش کان مالک لا یرضاہ نقم علیم حدیثہ لاھل العراق
اپنی مخبوط الحواسی چھوڑ ائمہ اثبات و ثقات کو ضعیف و مختلط راویوں کے ساتھ ملانا چھوڑ دے کیونکہ ہشام شیخ الاسلام ہے اور اسی طرح ہشام کے متعلق بعدالرحمٰن بن خراش کی جرح کو بھی کوی اعتبار نہیں جس میں اس نے امام مالکؒ نے ہشام کی عراقی حدیثوں کو غیر مقبول کہا ہے  
میزان الاعتدال جلد ۴ صفحہ ۳۰۱
یہاں پر علامہ شمس الدین الذہبیؒ نے ہشام کو شیخ الاسلام کو خطاب دیا ہے اور دوسروں کی تنقید کو بھی رد کیا ہے اور تنقید کرنے والے کو سخت تنبیہ بھی کی ہے ۔
ویسے تو جب احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر نکاح کے وقت ۶ سال اور رخصتی کے وقت ۹ سال تھی ایسے میں تاریخی کتب میں جن حوالہ جات کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا ہے انکا جواب دینے کی بھی ضرورت نہین رہتی لیکن ایک غامدی مارکہ حوالہ جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہےا سکا جواب دینا چاہتا ہوں۔
اعتراض  حضرت ابو بکرؓ کی چار اولادیں دو بیویوں سے اسلام سے پہلے پیدا ہوئیں
جو لوگ اس اعتراض کو کرتے ہیں وہ اسکے امام طبری کا کہہ کر کرتے ہیں  جبکہ حقیقت میں یہ امام طبری کا نہیں بلکہ علی بن محمد کا کلام ہےاور جن سے انہوں نے بیان کیا ہے وہ لوگ بھی مجہول اور غیر معروف ہے 
بہرحال میں اپنے کالج کے کام میں مصروف تھا ، فیس بک پر اسکا لنک نظر آگیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس پر بیٹھ گیا ، میرے کالج کے کام کا ہرج تو بہرحال ہوا لیکن یہ مضمون جلدی میں لکھا گیا ہے اسی لیے بہت سی باتوں کے جوابات اور حوالہ جات کی تحقیق و تخریج پر بھی زیادہ محنت نہیں کی گئی۔ 
ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ منکرینِ حدیث اور فتنہ غامدیت سے بچیں ۔
  

12 comments:

  1. بادشاہ لوگ ہیں آپ بھی .....کاش آپ حضرات کو ناموس رسالت کی بھی اتنی پرواہ ہوتی جتنی ایک حدیث کی ہے.
    ایک ڈاکٹر کی حثیت سے میں کہ سکتا ہوں کہ بلوغت جلد سے جلد بھی ١٠ سال کی عمر سے پہلے نہیں ہوسکتی.١٢ سال کی عمر میں شادی سمجھ میں آتی ہے مگر ٩ سال ؟
    آپکو اندازہ ہی نہیں کہ ہشام بن عروہ کی اس روایت کو درست مان لینے سے کیسے کیسے سوال کھڑے ہو سکتے ہیں...
    غامدیت کا الزام میرے ساتھ صریح زیادتی ہے ..کاش آپ نے یہ بات نہ کی ہوتی ...

    ReplyDelete
  2. ڈاکٹر صاحب۔۔۔ آپ پر کسی نے غامدیت کا الزام نہیں لگایا۔۔۔ آپ نے اپنی تحقیق کے مطابق بات کی۔۔۔ اور انکل ٹام نے اپنی تحقیق کے مطابق۔۔۔ خدارا اس بات کو کوئی ایشو نا بنائیں۔۔۔

    میں آخر میں یہی کہوں گا کہ اللہ بہترین جاننے والا ہے۔۔۔ ہم ایسی بحثوں سے کوئی نتیجہ آج تک اخذ نہیں کر پائے۔۔۔ آنٹی تیزاب نے یہ شوشا بھی ایسا ہی فتنہ کھڑا کرنے کے لیے چھوڑا ہے۔۔۔ آپس میں جھگڑوں کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ اور نا ہی ایسی بحث کا کوئی فائدہ ہے۔۔۔ میرے لیے تو اتنا ہی کافی ہے۔۔۔ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہماری ماں ہیں۔۔۔ اور رہتی دنیا تک مومنوں کی ماں رہیں گی۔۔۔

    ReplyDelete
  3. مجھے نہیں لگتا کہ یہ کام اتنی جلدی میں کرنے کا ہے جس کا ذکر آپ نے کیا۔ کچھ دن تاخیر ہو لینے دیتے لیکن تحقیق کا حق ضرور ادا کرتے۔

    ReplyDelete
  4. بھئی میں سادہ سا بندہ ہوں۔
    میں ڈاکٹر جواد کی تحریر سے زیادہ متاثر ہوں۔
    آپ کی تحریر بھی اچھی ہے۔
    میرے جیسے کم فہم بندے کیلئے کچھ تشنگی محسوس ہو رہی ہے اس تحریر میں۔
    بحرحال ڈاکٹر جواد سے گذارش ہے کہ وہ اس تحریر کو اپنے اوپر نہ لیں۔
    دونوں نے اچھا کام کیا اور میرے جیسوں کوپڑھنےکیلئے اچھی تحاریر ملیں۔؎
    جن کیلئے میں دونوں کا مشکور ہوں۔
    جزاک اللہ

    ReplyDelete
  5. کسی راوی کو مجروح کر نے کا جو یہ طریقہ ہے کہ صرف ایک پہلو سے متعلق علماء کے اقوال لاتے ہیں اور دوسرے پہلو کو سنگھاتے بھی نہیں یہ نامناسب طریقہ ہے کیونکہ ایسا کونسا راوی ہے جس پر کسی نہ کسی نے جرح نہ کی ہو بڑے بڑے ناموں تک کو نہیں چھوڑا گیا اور اس طریق سے یہی ایک حدیث نہیں پورے ذخیرہ احادیث کو ناقابل اعتبار قرار دیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں کسی حدیث کی تضعیف کے وقت یا تو دونوں پہلو سامنے لانے چاہئیں یا پھر اس وادی میں قدم رکھنا ہی نا چاہیئے

    ReplyDelete
  6. یاسر بھائی !
    وہ تحریر میری نہیں ہے . میں نے تو صرف ترجمہ اور خلاصہ پیش کیا ہے اور سب کو دعوت دی ہے کہ ان دلائل کا جائزہ لیں.

    ReplyDelete
  7. میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس طرح کی پوسٹس در پوسٹس ایک عام فہم بندے کے لئے زہنی انتشار کا باعث بن سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کی اپنی تحقیق ہے اور انکل کی اپنی ۔۔۔۔۔ مگر میرا خیال ہے کہ جب بھی کوئی چیز عوام کے سامنے پیش کی جائے تو آپس میں متفق ہونے کہ بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اب یہی دیکھ لیں میں بھی پریشان ہوں کہ کس کو صحیح مانو اور کس کو غلط کیونکہ نہ تو مجھے ساری احادیث ازبر ہیں اور نہ ہی میں رجال کے بارے میں کچھ جانتا ہوں

    ہوگئی نا کنفیوژن

    ReplyDelete
  8. انکل بہت اچھا لکھا ہے۔ اس مسئلہ پر ایسی مدلل تفصیل کی بہت ضرورت تھی۔
    اس مسئلہ پر موجودہ شروع ہونے والی بحث کی بنیاد حکیم نیاز احمد کی کتاب" کشف الغمہ عن عمر ام الامہاور" اور حبیب الرحمن کاندھلوی کی "عمر عائشہ" سے پڑی، غامدی نے بھی انہی سے دلائل اٹھائے اور دوسرے بہت سے لوگ بھی جو جو امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نو (9) سال کی عمر میں نکاح کے متفق علیہ مسئلہ کا انکار کررہے ہیں " کے پاس بھی انہی کتابوں سے لیے گئے دلائل ہیں۔
    ہمارے علاقے ایبٹ آباد میں بھی کچھ روشن خیال مولویوں نے یہ فتنہ پیدا کیا ہوا ہے ، میرے ایک کزن عالم ہیں وہ ایک مدرسے میں پڑھاتے ہیں انکا کچھ دن پہلے مجھے فون آیا کہ ہمارے علاقے میں ایک سپاہ صحابہ کا عہدیدار ہے وہ ان کتابوں کو لے کر فتنہ پھیلا رہا ہے، اگر ہمارے کسی عالم نے ان کتابوں کے جواب میں کوئی کتاب لکھی ہے تو مجھے بتاؤں۔
    میں نے راولپنڈی کے مشہور عالم مفتی رضوان صاحب سے بھی اس بارے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے علما نے اس مسئلہ پر مختلف کتابوں میں اچھی مدلل بات کی ہوئی ہے لیکن باقاعدہ کوئی کتاب میرے خیال سے ابھی تک نہیں لکھی گئی، انہوں نے زبانی مجھے بہت سی دلیلیں اور کتابوں کے نام بتائے اور ے ایک عرب سائیٹ کا لنک بھی دیا کہ یہاں ایک عرب عالم نے عربی میں اس مسئلہ پر اچھی بحث کی ہوئی ہے ، آپ فی الحال اسے یوز کرلیں۔ ہےیہ اس عربی آرٹیکل کا لنک ہے۔
    http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showpost.php?p=981722&postcount=6
    دارالعلوم دیوبند کا فتوی
    http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=1923

    میں نے یہ سب کزن کو بھیجا اس نے بتایا کہ اس مواد سے بہت سے طالب علموں اور عوام میں پیدا ہونے والی کنفیوزین دور ہوئی ہے اور کتابیں بانٹنے والے کو بھی آرام ہے۔
    جو لوگ یہ اعتراض اٹھارہے ہیں آپ اس بات کو انکی بے چارگی کہیں یا جہالت کہ ان لوگوں نے مغربی مستشرقین کے عمرعائشہ رضی اللہ عنہا پر کئے گئے اس اعتراض کا جواب اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار تے ہوئے دینے کی کوشش کی ہےکہ حدیث کے راوی کو ہی ضعیف قرار دے دوں ’ مسئلہ ہی ختم ہوجائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ حالانکہ صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث صحیح مسلم ، سنن ابو داؤد ، سنن ابن ماجہ اورمسند احمد وغیرہ میں بھی آئی ہے اوراس حدیث کی سند اورمتن کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔۔

    ReplyDelete
  9. انکل ٹام اور جواد صاحب :

    ماشاءاللہ آپ دونوں حضرات کی تحقیق اچھی ہے۔

    لیکن میرے خیال میں ہمیں ایسے مسائل میں جمھور علماء کے مطابق ہی چلنا چاہئے ، اور اپنے طرف سے احادیث کی تاویلات کرنے سے بچنا چاہئے ۔

    جو بات علماء حضرات نے کی ہے تو اسی پر اکتفاء کرنا چاہئے ۔ نیز اس قسم کے مسائل سے عوام کے ذہنوں میں اور بھی شکوک و شبھات پیدا ہوتے ہیں۔ اور مسئلہ سلجھنے کے بجائے بگڑنے لگتا ہے۔

    یہ احادیث کوئی آج کی نہیں ہیں، بلکہ صدیوں پہلے علماء نے اپنی شرحوں میں اسپر تفصیلی گفتگو کی ہے۔
    میرے خیال میں اسی پر اکتفاء کرنا چاہئے۔

    ReplyDelete
  10. ڈکٹر جواد خان بھای:۔ بھای ہمیں ناموس رسالت کی بھی اتنی ہی پروا ہے جتنی آپکو ہے ، میں گستاخ رسول کو کافر مرتد اور واجب القتل سمجھتا ہوں ۔ ڈاکٹر کی حثیت سے آپ کی علمی حثیت چاہے کچھ بھی ہو ، آپکا مطالعہ یا آپکا تجربہ کچھ کہتا ہو، مجھے عرصہ تک اسلام مخالفین سے اختلافی نقطہ نظر کو پڑھنے اور بہت جگہوں پر بحث مباحثہ کرنے کا بھی موقع ملا ہے ، میں نے اپنے تجربے میں منکرین حدیث کے علاوہ کسی کو بھی اس اعتراض کا جواب حدیث سے انکار کی صورت میں دیتے نہیں دیکھا ۔
    جہاں تک رہی بلوغت کی بات تو ہم ۲۰۱۱ کی بات نہیں کر رہے جہاں ۳۰ سال کے بابے بھی پلے سٹیشن پر بیٹھ کر مستیاں کر رہے ہوتے ہیں ، ہم ۱۷ سال کی عمر میں راجہ داہر کو شکست دینے والے محمد بن قاسم سے بھی پہلے کے دور کی بات کر رہے ہیں ، اور ہم عرب جیسے گرم علاقے میں پلنے بڑھنے والے لوگوں کی بات کر رہے ہیں ۔
    آپ اس بات پر پریشان ہیں کہ ۹ سال کی لڑکی بلوغت کو نہیں پہنچ سکتی میں آپکو اس حوالےسے بہت سے حوالے دے سکتا ہوں ، لیکن فلحال صرف ایک ہی حوالہ دے رہا ہوں ۔ ساوتھ امریکہ کی ۵ سالہ لڑکی لینا میڈینا جس نے ۵ سال کی عمر میں ایک بچے کو جنم دیا ۔
    http://en.wikipedia.org/wiki/Lina_Medina
    اس پر اور بھی بہت سے حوالہ جات ہیں جو میرا ارادہ تھا کہ ایک الگ مضمون لکھ کر دوں گا لیکن چونکہ آپ نے اس پر حیرانگی کا اظہار کیا ہے تو آپکو بتاتا جاوں کہ اس زمانے کے عربوں میں اس وقت شادی کی اتنی عمر عام تھی ۔
    لہذا
    (1) ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (110) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس( 122) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلاالنبلاء جلد7رقم1627) یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔

    (2) عبداللہ بن عمر و اپنے باپ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے ۔( تذکرة الحفاظ جلد1ص93)

    (3) ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت منذر سے شادی کی اور بوقت زواج فاطمہ کی عمر نو سال تھی ۔ (الضعفاء للعقیلی جلد4رقم 1583، تاریخ بغداد 222/1)

    (4) عبداللہ بن صالح کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور اس روایت میں یہ بھی درج ہے کہ ایک آدمی نے ان کو بتایاکہ اس کی بیٹی دس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی ۔ (کامل لابن عدی جلد5ر قم 1015)

    حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں عبداللہ بن عامر سے کرائی (تاریخ ابن عساکر جلد70)۔

    امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی نو سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی نو سال کی عمر میں بچہ جنم دیا ۔

    (2) (سنن دارقطنی جلد3کتاب النکاح رقم 3836)
    اسکے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں ، جو پیش کیے جا سکتے ہیں ۔ لیکن میں فلحال یہاں ضرورت بھی نہیں سمجھتا ۔ اور میں بہت جلد فارغ ہو کر اس پر الگ سے مضمون لکھوں گا انشااللہ ۔
    آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ مجھے اندازہ نہیں کہ میں ایک صحیح روایت کو صحیح مان کر کس قسم کے اعتراضات کا سامنا کروں گا ، لیکن کیا آپ اس طرف غور کر رہے ہیں کہ ایک صحیح روایت کو اعتراضات سے بچنے کے لیے آپ ضعیف ثابت کرنے پر تلے ہوے ہیں ،۔،،،، اگر یہ انکار حدیث نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟؟؟؟
    اسکے علاوہ جو دیگر احادیث ہیں جیسا کہ میں نے چند اوپر پیش کی ہیں انکا بھی انکار ہو رہا ہے ۔ خدارا اس پر غور کریں۔

    سوال تو یہ ہے کہ کیا اعتراضات سے بچنے کا یہی انداز ہے کہ اسکو ضعیف ثابت کر دو، اس طرح قرآن کی جن آیات پر اعتراضات کیے جاتے ہیں کل کو کوی کہے گا انکو بھی نکال دو ۔

    میں نے آپ پر غامدیت کا الزام نہیں لگایا ، میں نے اپنے مضمون میں تصریح کی ہے کہ آپ نے کسی کے مضمون سے حوالوں کا اردو ترجمہ کیا ہے میں نے صرف حوالوں کے لیے غامدی مارکہ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ کیونکہ میری اس مسلہ پر اکثر غیر مسلموں سے بحث ہوتی رہتی تھی اسی لے میں نے اس پر کافی تحقیق کی تھی جس سے مجھے یاد تھا کہ ایک ویب سائٹ جو غامدی کے انڈر چلتی ہے وہاں یہ ہی حوالے تھے ، اسی لیے آپکا مضمون دیکھنے کے بعد میں وہاں پر گیا اور وہی حوالے اسی طرح تھے اسی لیے میں نے حوالے کو غامدی مارکہ کہا ۔

    میں نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور بخاری کو علامہ ابن صلاح نے اصحح الکتب بعد الکتاب اللہ کا درجہ دیا ہے ۔ اور غامدی جیسے منکرین حدیث کے خیانت سے بھرپور حوالے جنمیں تحریف کا ثبوت میں اپنے مضمون میں دے چکا ہوں کے باوجود اس حدیث کے ضعف پر اثرار کرنا کوی اچھی بات نہیں ۔

    ReplyDelete
  11. ۔
    عمران اقبال بھای:۔ میں کسی سے جھگڑا نہیں کرتا ، میں صرف ایک چیز جسکو میں غلطی سمجھتا ہوں اسکی اصلاح اخلاق کے دائرے میں رہ کر کرنا چاہتا ہوں ۔ میں ڈاکٹر صاحب کی بھی عزت کرتا ہوں ۔

    محمد سعد:۔ میں انشااللہ وقت ملنے پر اس مضمون میں اضافہ کروں گا ۔

    یاسر بھای:۔ کئی دفعہ سچ کو سمجھنے کے لیے تھوڑی محنت کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔

    محمد سعید پالن پوری:۔ بلکل آپ نے صحیح بات کی ہے ، جرح و تعدیل کی تاریخ میں کوی ایسا نہیں گزرا جس پر جرح نہ کی گئی ہو ۔

    ضیاء بھای:۔ جب ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوسٹ کی تھی تو اسکے بعد مجھے بھی پوسٹ کرنے کی ضرورت محسوس ہوی اور میں نے ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوے ایسا کیا ۔

    بنیاد پرست بھای:۔ میں انشااللہ وقت ملنے پر ان لنکس کو چیک کروں گا

    خراسانی بھای:۔ جمہور نے اس حدیث سے ۹ اور ۶ کا مطلب ۹ اور ۶ ہی لیا ہے سب نے ان احادیث کو صحیح تسلیم کیا ہے اس پر بھی حوالے میں اپنے مکمل مضمون میں دوں گا ۔

    ReplyDelete
  12. صرف اللہ تمہیں اس پوسٹ کی جزا دے سکتا ہے۔ میرے ذہن کی بہت سی الجھنیں دور ہو گئیں۔ ماشااللہ بہت زبردست علم ہے۔

    بدتمیز

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.