Sunday, May 1, 2011

سردار طوطو سنگھ

ویسے اسکے کئی نام ہیں ۔ ابو اسکو چیکو کہتے ہیں ۔ میرا بڑا بھای اسکو لونی ٹونز کہتا ہے ۔ میں اسکو کبھی توتڑ سنگھ اور کبھی بے چین روح کہتا ہوں ۔ اسکو بے چین روح کہنے کی سب سے بڑی وجہ اسکی وہ حرکتیں ہیں جنسے پتا چلتا ہے کہ یہ کچھ نہ کچھ کرنے کو بے چین ہے ۔ مثال کے طور پر کمپوٹر کے سامنے لگی کسی تار کو یہ بخشتا نہیں ۔ مجھے اب تک 5-6 ہیڈ سیٹ اور 2-3 یو ایس بی وائرز کی قربانی دینی پڑی ہے ۔ کوی بھی کاغذ گھر میں اس سے محفوظ نہیں ہے ۔ جو کاغذ دیکھتا ہے کُتر کر رکھ دیتا ہے ۔ بقول امی کے اسکی چونچ آری کی طرح چلتی ہے ۔ بلکہ میرے خیال سے اسکو کاغذ کُترنے کا خاص شوق ہے ۔ ابھی پرسوں ہی کی بات ہے کہ امی ٹیبل پر پڑے ہوے فلائرز جمع کر رہی تھیں اور اس نے جیسے ہی دیکھا فوراً اُڑ کر ٹیبل پر آبیٹھا ۔ اور امی کی طرف حسرت بھی نگاہوں سے دیکھنے لگا امی نے اسکو ایک کاغذ دیا تو اسکو کترنا شروع کر دیا جیسے 10 دِن سے کچھ کھانے کو نہ ملا ہو ۔ ویسے یہ قریب نہیں آتا لیکن جب اسکو اپنا مطلب ہو تو یہ بات بھول جاتا ہے کہ اسکو پکڑنا بہت آسان ہے ۔ اب تک گھر میں 2-3 کیلنڈرز اور کافی تعداد میں خط جو ٹیبل پر پڑے ہوتے تھے انکو کُتر کر ضایع کر چکا ہے ۔ اسکے علاوہ میرے گھر میں دو اور آسٹریلین طوطے بھی ہیں (بجیز) لیکن وہ پنجرے میں بند رہتے ہیں ۔ اسکی انجینیرنگ ایسی ہے کہ اپنی چونچ سے انکے پنجرے کا دروازہ کھولتا ہے اور اندر گھستا ہے ۔ انکو خوب مارتا ہے جب انکو مار کے اسکا دل بھر جاتا ہے پھر خود ہی پنجرے سے دروازہ کھول کر باہر نکلتا ہے دروازے کو لاک کرتا ہے اور پھر کہیں بیٹھ جاتا ہے ۔

اسکا غصہ اتنا تیز ہے کہ اپنی ناک پر مکھی بھی بیٹھنے نہیں دیتا ۔ دن میں بھی سوتا ہے اور جس وقت اسکو نیند آرہی ہو اور کوی بولنے لگے تو خوب شور مچاتا ہے ۔ میرے خیال سے بولنے والے کو گالیاں ہی دیتا ہو گا ۔ کئی دفعہ یہ نیند میں ہوتا ہے اور بولنا شروع کر دیتا ہے ۔ میرے خیال سے نیند میں بھی شور اسکو تنگ کرتا ہے اور یہ سب کو چپ ہونے کا کہتا ہے ۔جب اسکو پکڑا ہو اور یہ غصے میں تو سب سے زیادہ مزیدار چیز اسکے پاوں کو چھونا ہے، جیسے ہی اسکے پاوں کو چھوا جاے یہ فوراً اپنی زبان سے انکو صاف کرنا شروع کر دیتا ہے جیسے گندے کر دیے گئے ہوں۔

امی پاکستان گئیں تو ابو لاونج میں سوتے تھے میرے ساتھ ۔ یہ صبح صبح اٹھ کر ابو کو اٹھاتا تھا اور ان پر بیٹھ کر چل کر کبھی ادھر جاتا کبھی ادھر ، اگر اس سے بھی کام نہ بنتا تو چھلانگیں بھی لگاتا تھا اور پھر بھی کام نہ بنتا تو جا کر اپنی چونچ سے بال کھینجتا تھا میں نے ایک دفعہ اسکو کان پر بھی چونچ مارتے دیکھا ۔ ایسے وقت میں یہ چونچ کا زور استعمال نہیں کرتا ۔ میرے خیال سے اسکو معلوم ہے کہ کس وقت چونچ کو کیسے استعمال کرنا ہے ۔ اور پھر جب سب کو اٹھا دیتا تو خود لایٹ پر بیٹھ کر سونا شروع کر دیتا ۔ 

اسکی ابو کے ساتھ خاص دوستی ہے ، حتیٰ کے رات کا کھانا بھی یہ ابو کے ساتھ ہی کھاتا ہے، کھاتے تو سب اکھٹے ہیں لیکن یہ ابو کے کندھے پر بیٹھ کر کھاتا ہے۔ شروع شروع میں یہ اڑ کر دستر خوان کے پاس آجاتا تھا پھر آہستہ آہستہ قریب آتا تھا اسکو تھوڑا سا کھانا دیا جاتا، کچھ دن تو ایسے ہی چلتا رہا پھر جب اسنے دیکھا کہ کوی مجھے کچھ کہتا نہیں ہے تو پلیٹ اور دیگر برتنوں میں چونچ بھی مارنا شروع کر دی اسکے بعد اسکی ضد تھی کہ اسکو الگ سے دینے کی بجاے پلیٹ میں ہی چونچ مارنے دی جائے ۔ لوگ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے میں سوچ رہا ہوں کہ انسانوں کو دیکھ کر طوطا بھی رنگ پکڑتا ہے ۔
آجکل اسکو پنجرے میں بند کر دیا گیا ہے جہاں پر یہ حکمرانی کرتا ہے اور چھوٹے طوطوں کو خوب مارتا ہے ، بھوک لگنے پر دانا پانی سب سے پہلے یہ ہی کھاے گا اگر کو قریب بھی آنے کی کوشش کرے تو اسکو مار پڑتی ہے ۔ حکمرانی کرنے کی لت صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ پرندے بھی اسکے نشے میں کھو جاتے ہیں اور حکمرانی کے نشے میں یہ ایسا کھو گیا ہے کہ اگر اسکو کسی وقت پنجرے سے باہر نکال دیا جاے تو  یہ واپس اندر جانے کی کوشش کرتا ہے ۔
سردار طوطو سنگھ پالک کھاتے ہوے۔
سردار طوطو سنگھ کاغذوں کے ساتھ کشتی کرتے ہوے۔

سردار طوطو سنگھ کوی تار کھینچنے کے انتظار میں کمپیوٹر پر براجمان ہیں، یہ اکثر سپیکر کی تار باہر نکال کر خوش ہوا کرتے ہیں۔

سردار طوطو سنگھ میرے کندھے پر براجمان ہیں۔

میرے چمچ سے کیے جانے والے حملے کا جواب  اپنی چونچ سے دیتے ہوے سردار طوطو سنگھ کا انوکھا انداز۔

سردار جی چھوٹے بھای کی چین کے ساتھ پنگے کرتے ہوے۔

سردار جی پانی کے ساتھ مستیاں کرتے ہوے۔

سردار جی ابو کی پلیٹ میں چونچ مارتے ہوے۔

8 comments:

  1. i had one parrot, when i was little :)

    ReplyDelete
  2. ماشا الله ....چشم بد دور . الله اسے زندگی دے. اسے دیکھہ کر تو مجھے اپنا طوطا یاد آگیا. جسے ہم نے بولنا سکھا دیا تھا. وہ گھر میں چھوٹے بھائی کو آواز دیتا تھا.کہتا تھا "مٹھو بھوکا ہے ...مٹھو کو روٹی دو ". اور بھی کئی جملے یاد کرا دے تھے .سارے گھر والوں کا لاڈلا تھا .مجھ سے تو خاص دشمنی تھی کیونکہ میں اسکے ساتھ کافی چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا تھا .میرے زور سے آواز نکلنے پر بہت غصہ ہوتا تھا . ایک دن بلی لے گئی اسکے بعد کوئی دوسرا طوطا نہیں آیا ہمارے یہاں

    ReplyDelete
  3. ہممم۔۔۔آپنے تو پورا مضمون لکھ دے مارا طوطے جی پر۔ میں بھی کسی زمانے میں اپنے میاں مٹھو پر تحریر لکھنے کا سوچ رہا تھا لیکن بے چارہ اب اس دُنیائے فانی سے رُخصت ہوگیا۔ میں نے بھی گھر میں اُسکو آزاد کر رکھا تھا۔ تھا تو عقلمند لیکن نہ جانے اک دن کیا ہوا اور اُڑتا ہوا چلتے ہوئے پنکھے کے ساتھ ٹکرایا اور بس۔۔۔۔

    ReplyDelete
  4. عروسہ: بچن میں سب کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے ، میرے پاس چوزے اور مچھلیاں بھی تھیں۔

    جواد بھای: میری امی بتاتی ہیں کہ انکے محلے میں ایک آنٹی نے طوطو پالا ہوا تھا جو اڑتا پھرتا تھا لیکن کہیں جاتا نہیں تھا ، تو ان آنٹٰی کا بیٹا اوپر والے حصے میں سوتا تھا تو وہ طوطے کو کہتی تھیں کہ اسکو جگاو اور کہو کہ کھانا کھا لے پھر طوطو جا کر بتاتا تھا کہ کھانا کھا لو ۔

    عادل بھیا: میرے خیال سے آپکو اس کے پر کاٹ دینے چاہیے تھے ۔ میرے پاس پاکستان میں بھی ایک طوطا تھا ، لیکن جب ہم یہاں پر آے تو وہ اس سے اگلے دن ہی مر گیا تھا ، حالانکہ اس سے پہلے وہ بلکل ٹھیک تھا اور کئی دفعہ بلی کے منہ سے بھی بچ کر نکلا تھا ۔

    ReplyDelete
  5. ماشاءاللہ بڑا چیتا طوطا ہے۔ پنجرے میں دوسرے سردار سہمے بیٹھے ہیں۔ اپنی تصویر ایک چوتھائی دی ہے، لیکن آپ انکل ٹام نہیں "کاؤ بوائے" لگتے ہو

    ReplyDelete
  6. MASHA ALLAH.. aapne humare gangster per essay likh dala.. thats amazing...

    even.. i miss him too.. :)

    ReplyDelete
  7. ارسلان بھیا، ہم کونسا پروفیشنل ہیں۔۔ بس ویسے ہی ایک طوطا بچوں کے شوق پر رکھ لیا۔ اور پر کاٹنا تو دور کی بات میں تو اُسکے پروں کو مضبوطی سے پکڑ بھی نہ سکوں۔۔۔۔ بیچارے کو تکلیف ہوگی نا۔۔ لیکن پھر بھی اگر مُجھے کوئی پر کاٹنے کو کہہ ہی دیتا تو میں اُس بیچارے کو اُڑا ہی دیتا

    ReplyDelete
  8. عادل بھای پر نہ کاٹنے کا کیا انجام ہوا یہ تو آپنے دیکھ لیا ، لوگ کہتے ہیں انسان کو قریب کے فائدے کو دیکھنے سے پہلے دور کے نقصان کے بارے میں سوچ لینا چاہیے ۔ اور میرے خیال سے پر کاٹنے سے پرندوں کو اڑنے میں تکلیف ہوتی ہو گی پر کٹنے پر نہیں ہا اکھاڑنے پر ضرور ہوتی ہو گی ۔ لیکن جب انکے پر کٹ جاتے ہیں تو کچھ دیر بعد انکو نہ اڑنے کی عادت ہو جاتی ہے ۔ مجھے تو جب چیکو پر غصہ آتا ہے تو اسکو مارتا بھی ہوں ۔ پھر یہ چیں چیں کرتا ہے ۔

    ReplyDelete

Note: Only a member of this blog may post a comment.