آج مجھے پتا نہیں کیوں سہیل وڑائچ صاحب کی یاد آرہی ہے ، آپ حیران ہوں گے کہ امتحانات کے دوران مجھے اتنی سخت یاد کیوں آرہی ہے بلکہ میرا تو دل کر رہا ہے کہ ابھی "سیٹ کام" اور "پی اے سسٹم" کے ساتھ دماغ خراب کرنا چھوڑ کر فوراً یوٹیوب پر جاوں اور ایک دِن جیو کے ساتھ لگا لوں۔ اصل وجہ ساری یاد کہ انکا ایک سوال ہے جسکا آخر کچھ اس قسم کا ہوتا ہے " کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ؟" میں جب بھی پروگرام دیکھ رہا ہوں اور یہ سوال آجاے تو میں اسکو پاز کر کے امی کو بلاتا ہوں اور پھر چلاتا ہوں جب میں نے دو تین دفعہ ایسا کیا تو ایک دن امی نے پوچھا کہ " کیا یہ لوگوں کے تضاد ہی ڈھونڈتا رہتا ہے ؟"اس وقت میرے دماغ میں بھی یہ سوال گردش کر رہا ہے ۔
خیال کریں کہ آپ نے ایک جاسوس پکڑا ہے ، بڑے اعلیٰ پاے کا دوسرے ملک کا جاسوس ۔ اب کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ملٹری اس کو نظر انداز کر کے کہے کہ ہم عدلیہ پر چھوڑتے ہیں ؟؟؟ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جب سارے بڑے بڑے جاسوس تم نے پچاس روپے لے کر ، چاے پانی کا خرچہ لے کر ، بچوں کے لیے مٹھای کے پیسے لے کر مجرموں کو چھوڑنے والی ہجڑا پولیس کے لیے چھوڑنے ہیں تو یہ "ایم آی " (ملٹری انٹیلی جنس" اور "آی ایس آی " (انٹر سروسز انٹیلی جنس) تیل بیچنے کے لیے بنای ہیں ؟؟؟؟
دیکھیں جی طوائف تو طوائف ہی ہوتی ہے ، چاہے وہ پچاس روپے لے کر کسی بس ڈرائیور کے ساتھ چلی جاے یا دس ہزار لے کر کسی ایم این اے یا کسی بڑے بزنس میں کے ساتھ ، رہے گی تو وہ طوائف ہی نہ۔ اب میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ اس ملک کا کیا بنےگا جسکو طوئف چلا رہی ہو ، ویسے ڈیمن ڈیوس تو پہلے دن ہی چُھٹ جاتا لیکن طوائف اپنا ریٹ بڑھا رہی تھی۔ اور ریٹ بڑھوانے کے لیے کو تُرپ کا پتا تو ہونا چاہیے نہ ۔
خیر ہمیں اس سے پریشان ہونے کی کوی ضرورت نہین ، شیدا اور طافا اب پھر تھڑے پر بیٹھ کر صرف گلاں باتاں ہی کر رہے ہوں گے ۔ اور جی ایچ کیو میں ریٹ بڑھوانے کے طریقے ڈِس کس ہو رہے ہوں گے ، قاف لیگیے مونس الہیٰ کو باہر نکلوانے کے لیے پپلیوں سے ڈیل کریں گے ، اور ہمارے گنج شاہ صاحب کسی پنڈ میں جا کر تصویریں کھچوائیں گے ۔ اگلے دن تحریکِ انصاف والے نمبر ٹانگنے کے لیے جماعتیوں کے ساتھ لاٹھی چارج میں ڈنڈے کھائیں گے صورت حال کو سمبھالنے کے لیے امریکن فیکٹری سے تازہ تازہ تیار شدہ طالبان ایک اور سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو جہنم واصل کر کے دس امریکن میڈ تنظیموں کی طرف سے شائع شدہ پمفلٹ پھینک کر طالبان کا ڈر بٹھلائیں گے ۔ اور پھر ایک بیروکریٹ کی بیٹی امریکی یونیورسٹی سے تازہ تازہ فاضل ہو کر شدت پسند ملا اور مولویوں اور طالبان کے خلاف اپنے انگریزی بلاگ میں لکھے گی ۔ اگلے دن امریکی ایمبسی میں شرابی محفل کے دوران اس کے ابا کو امریکی کاونسلیٹ آفیسر ترقی کی خوشخبری سنا رہی ہو گی ۔ اور اسی وقت امریکی آرمی ایک اور عافیہ صدیقی کو پکڑ کر لیجا رہی ہو گی
لیکن ہمیں اس سب سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں شیلا اور جاوید عاطف اسلم کے کانسرٹ میں جا رہے ہوں گے ، شیدا اور طافا آج پھر تھڑے پر بیٹھے نرگس کے ٹمھکوں پر داد دے رہے ہوں گے ، عنیقہ آنٹی کو آج پھر بس میں ایک آنٹی برقع میں بچے کو قرآن پڑھاتی نظر آئیں گی اور تنقید کا ایک اور موضوع شروع ہو جاے گا۔
جتنے تضاد گنواٗے ہیں
ReplyDeleteیہ کھلے تضاد نہیں ہیں
ننگے تضاد ہیں
معلوم تو تھا اسے چھوڑ ہی دیا جائے گا۔
ReplyDeleteڈرامہ دیکھ کر سمجھے شاید کچھ حیا کا قطرہ ہے ان میں۔
اب دل ہی نہیں کرتا احتجاج کو۔ کیا کریں۔اس کا علاج بھی کچھ ہے کہ نہیں اے چارہ گر؟
ReplyDeleteبس جی ان کے ڈرامے کو سچ سمجھ بیٹھے اور جب حقیقت آشکار ہوئی تو اس اجتماعی بیغیرتی پر جذبات قابو میں ہی نہیں آرہے۔۔۔۔۔
ReplyDeleteاب تو آنٹی رینج رؤور میں آتی جاتی ہیں ......... اور یہ اپنے جعفر استاد نے ٹھیک کہا........... یہ الف ننگے تضاد ہیں
ReplyDeleteWell that is a standard procedure I guess, they usually release foreign spies. That's what USA did recently with Russian spies?
ReplyDeletevery well said yar
ReplyDeleteاو خدا کے بندے دونوں نے اید دوسرے کے جاسوسوں کا تبادلہ کیا تھا۔ یعنی اپنے بندے کو چھڑانے کے بدلے میں انکا بندا چھوڑا۔ آپ نے غلط اندازہ لگایا ہے۔
ReplyDeleteاگر ایسا ہے تو پھر تو کیا ہی بات ہے۔ جاسوسوں کے مزے ہیں۔۔۔۔
Haan waise behter hota Dr. Afia ko swap ker letay, laiken again she has got dual nationality I guess?
ReplyDeleteمیرے پاس اور کچھ نہیں باقی بچا کہنے کو
ReplyDeleteآپ تمام ساتھیوں کے کمنٹنے کا شکریہ
ReplyDeleteمیں نے آپکا بلاگ پہلی مرتبہ وزٹ کیا مگر ماشاءاللہ تحریر بہت پسند آئی
ReplyDeleteبہت شکریہ عادل بھیا
ReplyDelete