ایک تاریک خیالیے کی سوانح حیات
میرے دادا انگریز کی فوج میں کرنل تھے ، میرے دادا کے والد صاحب ایک آرٹسٹ تھے اورمقامی "استاد" کے پاس طبلہ بجایا کرتے تھے۔ چونکہ اس زمانے میں آرٹسٹ کی کوی عزت نہ تھی سب میرے پردادا کو میراثی میراثی کہا کرتے تھے ، میرے دادا جو کہانیاں مجھے سناتے تھے ان میں ایک جو مجھے بہت اچھی لگتی تھی جب میرے دادا کی محلے کی مسجد کے مولوی کے بیٹے سے اس بات پر لڑای ہوی کہ میرے دادا کو اس نے میراثی کا بیٹا کہا تھا اور میرے دادا نے اسکو خوب مارا تھا۔بچن میں اس قسم کے واقعات کی وجہ سے میرے دادا کا طبلا بجانے اور سُر لگانے سے دل بیزار ہو گیا ، اس زمانے میں انگریز مسلمانوں سے بڑا تنگ تھا، اور اسکو فوجیوں کی بڑی سخت ضرورت تھی تو میرے دادا نے انگریزی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس زمانے میں مولوی ٹائب کے لوگ بڑے زیادہ ہوتے تھے اور میرے دادا کو بچن سے ہی مولویوں سے خار تھی۔
( مولوی کے بیٹے سے لڑای کی وجہ سے) میرے دادا نے مولوی مٹاو مہم میں انگریز کا بڑا ساتھ دیا اسی لیے میرے دادا کاکا سپاہی سے ترقی کر کے کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوے تھے ۔
انگریز کے ساتھ اتنا عرصہ رہنے کے بعد انگریزی زبان ، انگریزی کلچر میرے دادا میں رچ بس گیا تھا ، اسی لیے اپنی چِٹی انپڑھ بیوی کے ساتھ بھی میرے دادا انگریزی میں ہی باتیں کیا کرتے تھے۔ چونکہ میرے دادا فوجی نوکری کی وجہ سے کبھی اس چھاونی میں اور کبھی اس چھاونی میں ہوا کرتے تھے اسی لیے میری دادی اور دادا کی ہر وقت لڑای رہا کرتی تھی ، میرے دادا کو شک تھا کہ دادی کا چکر چوکیدار کے ساتھ ہے ۔اسی لیے میرے دادا نے کئی چوکیدار بدلے لیکن یہ لڑائی ہمیشہ رہی۔ گھر میں ہونے والی ان لڑائیوں کے سبب میرے ابو کا دل فوجی نوکری سے اُٹھ گیا ، میرے دادا کے بہت اصرار کے باوجود بھی میرے ابو نے فوجی نوکری سے انکار کر دیا اور بیورو کریسی کی طرف دھیان دیا۔ چونکہ میرے دادا نے میرے ابو کو انگریزی سکول میں ڈالا تھا اورمولویوں سے رہنے والی چِڑ کی وجہ سے انکو قرآن پڑھنے بھی کسی مولوی کے پاس نہیں بھیجا تھا اسی لیے میرے ابو کی ساری توجہ انگریزی تعلیم پر ہی رہی۔ اس طرح میرے ابو اپنی اعلیٰ تعلیم اور میرے دادا کے اثرو رسوغ کی وجہ سے ایک اچھے بیورو کریٹ کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔
بیورو کریٹ بننے کے بعد میرے ڈیڈی کی پہلی پوسٹنگ ڈائریکٹ ترکی میں ہوی تھی،یہ وہ زمانہ تھا جب ترکی میں اتا ترک کا سکہ چلتا تھا ، وہیں سے میرے ڈیڈی اتا ترک اور ملک میں اسکے نظریات سے متاثر ہوے ۔ بیورو کریسی کی وجہ سے میرے ڈیڈی اور میری ماما کو ہر دوسری رات پارٹیز میں جانا ہوتا تھا اسی لیے ہمارا زیادہ وقت ہماری " ماسی" کے ساتھ گزرا کرتا تھا ، ڈیڈی اور ماما سے رات کو ملاقات نہیں ہوتی تھی کیوں کہ وہ اکثر پارٹیز سے رات کو دیر سے آتے تھے اور ماسی کو ہمیں جلد سلانے کی ہدایت تھی۔ ماما اور پاپا کی لڑائی بھی رات کو ہوا کرتی تھی، یہ بات مجھے اس دن پتا چلی جب میں سویا نہیں رات کو پارٹی سے آنے کے بعد ماما اور پاپا لڑ رہے تھے ،پاپا کو اعتراض تھا کہ ماما برٹش کاونسلیٹ کے آفیسر مسٹر بنگھم سے اتنا فری کیوں ہوتی ہیں۔ اس دن سے میرا دل بیروکریسی سے بھی اٹھ گیا اور میں نے یہ تہیا کر لیا کہ نہ فوج میں جاوں گا اور نہ ہی بیروکیسی میں۔
میں نے سکول کے بعد ایک صحافی بننے کا ارادہ کیا ،سکول ختم کرنے کے بعد میں نے امریکہ کی بڑی بڑٰی یونیورسٹیوں میں اپلای کیا، اور آخر کار میرے کم نمبروں کے باجود میرے ابا کے بینک بیلنس کی وجہ سے مجھے پرنسٹن یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا، اور یوں میں نے اپنی زندگی کے چار سال امریکہ میں صحافت پڑھتے ہوے گزارے۔ جب میں امریکہ میں صحافت پڑھ رہا تھا انہی دنوں اسامہ کے گروپ نے ٹریڈ سینٹر گرا دیے ۔ جسکی وجہ سے ہم مسلمانوں اور پاکستانیوں کا بڑا نام خراب ہوا۔ اس کا مجھے دل سے بہت افسوس ہوا، جینی نے میرے ساتھ ڈیٹ پر جانا بھی چھوڑ دیا کیونکہ میں بھی مسلمان تھا۔ جینی سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد میں بڑا دلبرداشتہ ہوا کیونکہ وہی پوری یونیورسٹی میں واحد لڑکی تھی جو مجھے لفٹ کرواتی تھی۔ ایسا ہونے کے بعد میں نے بھی اپنے دادا کی طرح مولویوں اور طالبانوں کے خلاف ہونے کا فیصلہ کر دیا۔ امریکہ سے پڑھای ختم کرنے کے بعد میں پاکستان آگیا ، اردو تو مجھے آتی نہیں تھی کیونکہ میری ساری عمر پاکستان سے باہر گزری تھی اسی لیے میں نے ملک کے چند ایک بڑے انگریزی اخباروں میں نوکری کے لیے درخواست بھیج دی۔
جلد ہی مجھے ملک کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں نوکری مل گئی اور میں نے مولویوں اور طالبان کے خلاف اپنا مشن شروع کر دیا ۔میرے مضامین کو دیکھتے ہوے مجھے ملک کے ایک بڑے انگریزی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام کی آفر ملی جسے میں نے قبول کیا ۔ ٹی وی سٹوڈیو پر ہی میری ملاقات سونی سے ہو گئی سونی بھی میری ہی طرح ملا اور طالبان سے فیڈ اپ ہے چند ڈیٹس کے بعد میں نے اور سونی نے شادی کر لی اور اب ہم دونوں مل کر اپنے اپنے طریقے سے مکل میں روشن خیالی کے لیے کام کر رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے سونی کو ایک امریکی تنظیم کی طرف سے ایوارڈ بھی ملا تھا۔ پچھلے مہینے پاکستان میں امریکی سفیر نے ہماری بہت سے مالی امداد کی جس میں سے کچھ رقم سے ہم نے ایک این جی او کھول لی ہے جس سے ہم ملک کے حصے حصے میں روشن خیالی پھلائیں گے ۔
تاریک خیالیے کی سرگزشت تو نہایت چشم کشا ہے ....
ReplyDeleteواہ ۔ یہ کہانی تو پاکستان میں کئی حقیقتوں کے در واہ کر رہی ہے۔
ReplyDeleteآپ نے تو امریکہ پلٹ اور امریکہ چاٹوں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
بس اسمیں بھی آپ ایک حقیقت شاید اصلی نشاندہی کی وجہ سے چھپا گئے ہیں کہ انگریزوں کی ہندؤستانی بھرتی میں جن قوموں کو بھرتی نہیں کیا جاتا تھا ان میں میراثی بھی ایک قوم تھی جنہیں انگریز اپنی فوج میں بھرتی نہیں کرتے تھے۔ یا یوں سجھ لیں جو قومیں انگریزوں کی بھرتی کو اپنے لائق نہیں سمجھتیں تھیں ن میں میراثی بھی شامل تھے۔
آپ غالب بھوپالی دہلی میں حویلی کے میراثیوں کا ذکر کر رہے تھے جنہوں نقلی سید بن کر انگریزوں کا اور بلاآخر امریکیوں کا دل بہلایا اور اجکل وہی پہ پہنچ گئے ہیں جہاں کے گوروں نے ان کے دادا کو گود لیا تھا۔ یعنی لنڈن انگلستان۔ بے چارے روشن خیال تایک باطن
:) (:
بہر حال اب روشن خیالوں کی نام نہاد روشن خیالی کی
مائی ڈيئر انکل ٹام
ReplyDeleteيہ تو بتايئےکہ آپ نے ايڈيٹنگ اور کمپوزنگ کی ڈگری کہاں سے لی تھی ۔ کوئی بڑی ہی لائق فائق يونيورسٹی ہو گی ؟
آپ نے پانچ کہانياں ملا کر ايک متواتر کہانی اس خوش اسلوبی سے ترتيب دی ہے کہ ميرا دل بھی مُلاؤں کو چھوڑ کر آپ کی اين جی او ميں نوکری کرنے کو چاہ رہا ہے ۔ يو ايس ايڈ کی دی ہوئی امداد آپ کے اور اپنے بنک اکاؤنٹس ميں ڈال کر اس کی ڈسٹريبيوشن کا ايسا بہترين چارٹ اور گراف کمپيوٹر پر بناؤں گا کہ اوباما بھی ديکھ کر مجھے پورے پاکستان کا يو ايس ايڈ کا سربراہ مقرر کر دے ۔ اوہ ۔ سوری ۔ آپ کو سربراہ مقرر کر دے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteانکل!!!!!
اچھی روداد ہے بہت سی پول کھل گئی ہے!!!! ڈیمو کریسی کی بنیاد بتا ڈالی آپ نے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاکے، کچھ دیر تو میں سمجھتا رہا کہ یہ کہانی اپنے پرویز مشرف کی ہے۔۔۔لیکن جہاں سے صحافت کی بات شروع ہوءی تو مجھے مہر بخاری سے لے کر کامران شاہد تک سارے صحافی یاد آ گءے۔۔۔
ReplyDeleteہر تحریر کی تعریف کرنا اچھا نہیں لگتا۔۔۔ اس لیے اب جب کبھی برا لکھو گے تو کہہ دوں گا کہ کیا چول ماری ہے۔۔۔
:)
نہایت عمدہ تحریر ہے
ReplyDeleteنشتر بن کر کبھی دل میں اترتی ہے تو کبھی ہونٹوں پہ ہنسی بن کر۔
بہت خوب
آپ کب بری تحریر لکھو گے کہ ہم آپ کی تعریف نہ کریں۔
ReplyDeleteکمال خوبصورتی سے چار نسلوں کی ایک مربوط کہانی بیان کی ہے آپ نے۔ اتاترک کے یوں ذکر کر میرا دھیان بھی ایک مرتبہ بشرف کی طرف گیا۔
ReplyDeleteخوب لکھا ہے آپ نے۔
بہت ہی اچھا بلاگ ہے
ReplyDeleteیہ خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
ReplyDeleteڈاکٹر جواد خان بھای:۔ تبصرنے کا بہت شکریہ ۔
ReplyDeleteجاوید بھای:۔ بہت شکریہ جاوید بھای
اجمل چاچا:۔ میں نے ایڈیٹینگ اور کمپوزنگ کی ڈگری جامعہ انکل ٹام سے حاصل کی ہے اور یہ بہت ہی لائق فائق یونیورسٹی ہے جہاں سے فارغ ہونے والے فارغ ہی ہو جاتے ہیں ۔
میری این جی او کو چندہ بغیر حساب کتاب کے ملتا ہے ۔
راشد ادریس بھای:۔ آپکے نام میں ادریس سے مجھے ایک ہای سکول کا دوست یاد آگیا ، بڑا ہی شریف لڑکا تھا ۔تبصرنے کا بہت شکریہ ۔
عمران بھای:۔ اگر چول بھی ہو تو بتا دیا کریں اور اغلاط و اصلاح کر دیا کریں تاکہ مستقبل میں تحریر مزید اچھی ہو ۔
شازل بھای:۔ پسندیدگی کا بہت شکریہ
یاسر بھای:۔ ہو سکتا ہے بہت جلد
احمد عرفان بھای:۔ بہت شکریہ
تحریم:۔ بہت شکریہ
درویش بھای:۔ بلکل ٹھیک فرمایا آپ نے
کونسے سکول میں پڑھتے تھے آپ سر جی، اگر چاہیں تو مجھے ای میل پر بتا سکتے ہیں۔
ReplyDeleteranasillia@gmail.com
رانا جی میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کس کے سکول کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ، میرے یا تاریخ خیالیے کے ، اگر میرے تو جی میں نے پنجاب کے گورنمنٹ سکولوں میں سے ایک سے میٹرک فیل کیا ہے ۔ اور وہاں سب گورنمنٹ سکولوں میں پڑھائی ایک جیسی ہوتی ہے لہذا نام جاننے کا کوی فائدہ نہیں۔ رہا تاریک خیالہ تو اسکی جو معلومات مجھے میسر ہو سکیں وہ اسکی خود نوشت سوانح میں بیان کی جا چکی ہیں مزید کا مجھے علم نہیں ۔
ReplyDelete